یہ گاڑی والے بچے اغوا کرنے آئے ہیں ، یہ افواہ پھیلنے کے بعد مشتعل افراد نے جن دو افراد کو تشدد کر کے قتل کر دیا وہ ٹیلی کام کمپنی کے انجینئر اور ڈرائیور نکلے ۔ مچھر کالونی کراچی میں پیش آئے واقعے پر احتجاج اندرون سندھ تک پھیل گیا ۔

یہ گاڑی والے بچے اغوا کرنے آئے ہیں ، یہ افواہ پھیلنے کے بعد مشتعل افراد نے جن دو افراد کو تشدد کر کے قتل کر دیا وہ ٹیلی کام کمپنی کے انجینئر اور ڈرائیور نکلے ۔ مچھر کالونی کراچی میں پیش آئے واقعے پر احتجاج اندرون سندھ تک پھیل گیا ۔

اس افسوسناک واقعے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں اور قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے واقعے کی شدید مذمت کی گئی حکومت سے اس واقعے کی مکمل تحقیقات اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے پولیس نے علاقے میں آپریشن کر کے مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے دوسری طرف مختلف شہروں اور علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ بڑھ گیا ہے
=========================

امر گرُڑو
===============
کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں جمعے کو مشتعل افراد کے تشدد کے نتیجے میں دو افراد کے قتل کے واقعے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ علاقے میں بچوں کے اغوا کا خوف پہلے سے ہی تھا اور جب یہ افواہ پھیلی کہ یہ دونوں افراد بچے اغوا کرنے آئے تو ہیں لوگوں نے ان پر تشدد شروع کردیا۔

پولیس کے مطابق ہجوم کے ہاتھوں قتل کا یہ واقعہ جمعہ (28 اکتوبر) کو مچھر کالونی میں پیش آیا تھا، جہاں بنگالی پاڑے کی ایک مسجد کے سامنے مشتعل افراد نے ٹیلی کام کمپنی کے ایک انجینیئر اور ڈرائیور کو تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا۔

واقعے کا مقدمہ مقتول ڈرائیور اسحاق پنہور کے چچا محمد یعقوب پنہور کی مدعیت میں ڈاکس تھانے میں 15 معلوم اور کئی نامعلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا جبکہ مقدمے میں نامزد افراد میں سے تین افراد کو جمعے کی رات گرفتار کرلیا گیا۔

کراچی کے علاقے کیماڑی کی یونین کونسل 42 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور مچھرکالونی کے رہائشی عبدالستار مندھرو نے اس واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا: ’مچھر کالونی ایک پسماندہ علاقہ ہے، یہاں پر اکثریت لوگ غریب ہیں۔ اس علاقے میں گذشتہ کئی دنوں سے یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ کچھ لوگ بچوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور ان کے دل، گردہ اور دیگر عضو نکال کر فروخت کرتے ہیں۔‘

عبدالستار مندھرو کے مطابق: ’ان افواہوں کے بعد ہماری کالونی میں کوئی بھی شخص اپنے بچوں کو اکیلا سکول بھی نہیں جانے دیتا۔ بچوں کو کھیل کود کے لیے بھی نہیں چھوڑا جارہا۔ لوگوں میں اس افواہ کے بعد بہت خوف ہے۔ ایسے میں جب کسی نے کہا کہ یہ دونوں افراد بچوں کو اغوا کرنے آئے ہیں، تو لوگ مشتعل ہوگئے۔‘

عبدالستار مندھرو کے مطابق: ’مرنے والے دونوں افراد اپنی گاڑی میں کل صبح سے ہی علاقے میں گھوم رہے تھے۔ انہوں نے ہمارے پڑوس کی ایک دکان پر فون کے سگنل کی شکایت کے متعلق بھی معلوم کیا تھا۔

‘مجھے ایک علاقہ مکین نے بتایا کہ صبح ان کی گاڑی کے سامنے ایک بچہ آگیا جو رو رہا تھا، جس پر انہوں نے اس بچے کو چپ کروایا اور برابر والی دکان سے اسے کھانے کی اشیا بھی دلائیں۔ اس پر لوگوں نے ایک دوسرے کو بولا کہ یہ دونوں بچوں کو چیز لے کر دے رہے ہیں۔ اس کے بعد علاقے کے کچھ نوجوان ان کے پاس جاکر پوچھ گچھ بھی کرتے رہے۔

’مگر اس دوران علاقے میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ یہ لوگ بچوں کو اغوا کرنے آئے ہیں، جس پر مشتعل ہجوم نے جمع ہو کر انہیں بے دردی سے مارنا شروع کردیا، جس سے وہ دونوں چل بسے۔ میں جب پہنچا تو اس وقت لاشوں کو اٹھایا جارہا تھا۔‘

اس واقعے کے بعد سے علاقے میں خوف کا عالم ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے علاقے کے کئی افراد سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر سب نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کردیا کہ انہیں کچھ بھی معلوم نہیں۔

عبدالستار مندھرو کے پڑوسی شاہ عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’علاقے میں بچوں کے اغوا کا خوف کئی دنوں سے ہے۔ جب بھی کسی مسجد سے بچے کی گمشدگی کا اعلان ہوتا تو لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ شام تک وہ بچہ مل جاتا تھا، مگر لوگوں میں ایک خوف تھا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ اس خوف کا اس واقعے سے کیا تعلق ہے۔‘

اس واقعے کے حوالے سے جب ایس ایچ او ڈاکس پرویز سولنگی سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’تشدد سے ہلاک ہونے والے انجینیئر اور ڈرائیور نے علاقے کے چند لوگوں سے رہنمائی کے لیے راستہ پوچھا تھا، جس پر علاقے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ دونوں گاڑی لے کر بچے اغوا کرنے آئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں افراد علاقے میں موبائل فون سگنل نہ آنے کی شکایت پر ٹاور چیک کرنے آئے تھے، لیکن ان کے آنے کے بعد علاقے میں افواہ پھیل گئی کہ وہ بچوں کو اغوا کرنے آئے ہیں۔ اس پر لوگ جمع ہوکر ان پر تشدد کرنے لگے جو بعد میں سنگین ہوگیا۔‘

سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کیماڑی فدا حسین جانوری نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ پولیس واقعے کی مختلف زاویوں سے تحیقات کر رہی ہے۔

مقتول ڈرائیور کے چچا محمد یعقوب پنہور پاکستان نیوی سے ریٹائر ہونے کے بعد کراچی میں ایک کمپنی میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کرتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب میں نے ہسپتال میں رکھی لاشیں دیکھی تو ان کی حالت ایسی تھی کہ اگر کوئی انتہائی سنگدل ترین شخص بھی دیکھے تو آنسو نہ روک پائے۔ بڑا ظلم ہوا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف ملے گا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ کہ اسحاق پنہور کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور وہ گذشتہ چھ مہینوں سے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی میں ڈرائیور کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔

اس واقعے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں، جن میں نوجوانوں سمیت بزرگ اور خواتین بھی بھاری پتھروں اور لوہے کی راڈوں کے ساتھ دونوں افراد پر حملہ کرتے دیکھے گئے۔
https://www.independenturdu.com/node/119041
=====================================================

لندن سے چوری شدہ 35 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی بنٹلے کارکی جعلی دستاویزات پر محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ میں رجسٹریشن میں ملوث افسران کو ایک بڑی سیاسی جماعت کی با اثر شخصیات نے گرفتاری سے بچا لیا۔ اس کیس میں محکمہ کسٹمز کے پریونٹو کلکٹریٹ کراچی کے افسران اور تفتیشی افسر نے بھی محکمہ سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے ملوث افسران کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ مذکورہ افسران کو اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ظاہری کاکردگی دکھانے کے لئے معطل کرکے محکمہ جاتی سطح پر فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم دو ماہ گزرنے کے بعد اب چونکہ معاملہ دب چکا ہے، اس لئے مذکورہ افسران جعلی دستاویزات پر لگژری کاروں کی رجسٹریشن مافیا اور ایجنٹوں کے ساتھ دوبارہ سے سرگرم ہوگئے ہیں، جنہیں کلین چٹ دے دی گئی ہے ۔اس کے ساتھ ہی نام نہاد فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی کو بھی غیر فعال ہوگئی۔ اس ضمن میںمحکمہ سندھ ایکسائز اینڈٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے وزیرمکیش کمار چائولہ کی جانب سے رسمی کارروائی کی زحمت بھی نہیں کی گئی ۔
واضح رہے کہ رواں برس ستمبر کے مہینے کے آغاز میں کسٹمز پریونٹو کلکٹریٹ کراچی کے اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن (اے ایس او ) کے ڈیفنس کے علاقے میں چھاپے میں برطانیہ سے چوری ہونے والی 35 کروڑ مالیت کی لگژری بنٹلے کار بر آمد ہوئی تھی۔ جس کے ساتھ ہی نوید امین بلوانی اور شفیع جمیل نامی دوملزمان کو بھی گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمہ میں اسکینڈل کے مرکزی کردار نوید یامین کو بھی گرفتار ملزمان کے ساتھ نامزد کیا گیا تھا۔ جبکہ اسی مقدمہ میں چوری کی گاڑی کو جعلی دستاویزات پر رجسٹرڈ کرنے کے جرم میں محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے ملوث افسران کو شامل کیا گیا۔ مذکورہ اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد کئی روز تک ملکی اور عالمی میڈیا میں اس اسکینڈل کو نمایاں کوریج ملی، جس کے نتیجے میں حکومت سندھ اور محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے وزیر مکیش کمار چائولہ پر بھی ملوث افسران کے خلاف کارروائی کے لئے دبائو آیا۔ اسی دوران کسٹمز کلکٹریٹ کراچی پریونٹو کے اس وقت کے ڈی سی ہیڈ کوارٹرزکی ہدایات پر تفتیشی افسر کی جانب سے محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے حکام کو ایک مراسلہ ارسال کیا گیا، جس میں مذکورہ گاڑی رجسٹرڈ کرنے والے افسران کی تفصیلات طلب کی گئیں۔ محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے حکام کی جانب سے اس پر آگاہ کیا گیا کہ انہوں نے ملوث افسران کو معطل کردیا ہے اور ان کے خلاف مزید کارروائی کے لئے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔ جس کی رپورٹ پر ان ملوث افسران کے خلاف مزید سخت کارروائی کی جائے گی ۔
کسٹمز کی ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ مشکوک سفارتی دستاویزات پر قیمتی ترین کاروں کو کراچی منتقل کرنے کے لئے مرکزی ملزم یامین نوید کی جانب سے ’’سی ہارس شپنگ کمپنی’’ اور ’’اوشین ٹریڈ سینٹر ’’ کمپنی کو استعمال کیا گیا۔ پاکستان کسٹمز پریونٹو کلکٹریٹ کی جانب سے عدالت میں جمع کروائی جانے والی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کیس میں مرکزی ملزم نوید یامین کے ساتھ نوید بلوانی کا اہم کردار رہا، جس نے بروکر کی حیثیت سے سرگرم کردار ادا کیا اور مشکوک دستاویزت پر کلیئر کی گئی قیمتی گاڑیو ں کے لئے خریدار تلاش کرکے بھای کمیشن حاصل کیا۔ نوید بلوانی سے تفتیش میں اہم معلومات حاصل کی گئیں جن کی روشنی میں نوید یامین اور ملوث ایکسائز موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسران کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا گیا ۔
تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسران قوانین کے مطابق اس بات کے پابند ہیں کہ کسی بھی غیر ملکی گاڑی کی رجسٹریشن کے وقت اس کے قانونی در آمد ہونے، ڈیوٹی ٹیکس ادا ہونے کی تصدیق کرنے کے ساتھ ہی سفارتی دستاویزات پر رجسٹریشن کے لئے آنے والی گاڑیوں کے ڈپلومیٹک سرٹیفکیٹ کی بھی تصدیق کریں۔ تاہم کروڑوں روپے کے کمیشن کی وصولی کے لئے ان تمام قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے سسٹم میں کئی طرح کے ریڈ الرٹ ہوتے ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب سفارتی دستاویزات پر در آمد شدہ ظاہر کی جانے والی یہ بنٹلے کار کے لئے مقامی نمبر پلیٹ کے اجرا کے لئے خالد بن ولید روڈ پر قائم شوروم مالک کی جانب سے کمرشل چالان بھرا گیا تو محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسران کے لئے یہ ایک ریڈ الرٹ تھا۔ تاہم ان تمام باتوں کو نظر انداز کیا گیا ۔
اطلاعات کے مطابق اب تک ایسی سینکڑوں لگژری گاڑیاں محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسران نے شوروم مافیا اور ایجنٹ مافیا کی جانب سے کروڑوں روپے کی رشوت وصول کرکے رجسٹرڈ کی ہیں۔ جبکہ حالیہ اسکینڈل میں ریلیف ملنے کے بعد یہی نیٹ ورک دیدہ دلیری کے ساتھ اب دوبارہ سرگرم ہوگیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب کسٹمز کلکٹریٹ پریونٹو کراچی ہیڈ کوارٹرز کے حکام بھی اس اسکینڈل کی تحقیقات میں اب پہلے جیسی دلچسپی اور تیزی نہیں دکھا رہے جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ مذکورہ تفتیشی افسر کی جانب سے مقدمہ میں محکمہ سندھ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے موٹر رجسٹریشن ونگ کے افسرانکا ریکارڈ ملنے کے بعد انہیں چالان میں نامزد کرکے گرفتاری کرنا چاہئے تھی، تاہم ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔
ذرائع کے مطابق اسکینڈل کا مرکزی ملزم نوید یامین 2004ء سے کاروں کے کاروبار سے منسلک ہے اور شوروم میں کام کرتا رہا ہے۔ اس دوران ملزم نوید یامین کے خلاف شہر کے مختلف تھانوں میں مالیاتی لین دین اور فراڈ کے متعدد مقدمات درج ہوئے۔ جبکہ 2015ء میں ملزم کو شہریوں کے کریڈٹ کارڈ کا ڈیٹا چرا کر لاکھوں روپے بٹورنے کے الزام میں ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا۔ رہائی کے بعد اس نے ایک سیاسی جماعت کے اعلیٰ عہدیداروں تک رسائی پائی اور بڑے پیمانے پر کام شروع کردیا۔ اس دوران سی ہارس کے نام سے کمپنی رجسٹرڈ کروائی گئی جسے دنیا کے کم و بیش 28 ممالک میں آن لائن رجسٹرڈ کروایا گیا۔ یعنی اس کمپنی کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر سامان کی درآمد اور برآمد کا کام شروع کیا گیا۔ اسی دوران ملزم سفارتی جعلی دستاویزات پر کروڑوں روپے کی غیر ملکی شراب کی اسمگلنگ میں بھی ملوث رہا۔

https://ummat.net/2022/10/30/784520/
===========================================