کراچی: بائیولوجیکل سیفٹی کا تصور عام کرنے کی ضرورت ہے، پروفیسر محمد سعید قریشی
کراچی: پاکستان میں انسٹی ٹیوشنل بائیو سیفٹی کمیٹیوں کی تشکیل کرنا ہوگی، پروفیسر محمد سعید قریشی
کراچی، حیاتیاتی تحقیق کے منفی استعمال سے بیماریاں بھی پھیلائی جا سکتی ہیں، مقررین
انسٹی ٹیوشنل حیاتیاتی تحقیق پر دو روزہ ورکشاپ سے مقررین کا خطاب
کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان میں تحقیقی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں تحقیقی صلاحیتیں فروغ پا رہی ہیں۔ ہمارے یہاں حیاتیاتی تحقیق کے منفی نتائج اور ان کے اثرات کو روکنے کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اخلاقی کمیٹیوں کا دائرہ کار محدود ہے ترقی یافتہ ممالک میں بائیولوجیکل ریسرچ کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے انسٹیٹیوشنل بائیو سیفٹی کمیٹیوں کی تشکیل کرنا ہوگی اس کے بغیر بائیولوجیکل تحقیق خطرے سے خالی نہیں ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان بائیولوجیکل سیفٹی ایسوسی ایشن کے زیراہتمام دوروزہ انسٹیٹیوشنل کمیٹی ورک شاپ سے بطور مہمان خصوصی خطاب کر تے ہوئے کیا۔اس موقع پر غیر ملکی ماہرین میں امریکہ سے ٹم ٹیروان اور بلجیئم سے فلپ اسٹروٹ ، پاکستان بائیولوجیکل سیفٹی ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر سعید خان و دیگر نے خطاب کیا۔ پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ بائیولوجیکل پروڈکٹس، بائیولوجیکل پروسیجرز اور ریسرچ کے رجحانات میں تیزی دیکھی گئی ہے اور یہ تیزی ہم نے کووڈ کے دوران اور اس کے بعد دیکھی ہے۔ ورکشاپ سے دیگر مقررین نے خطاب میں شرکاء کو بتایا کہ امریکہ اور دیگر ترقیاتی ممالک میں انسٹیٹیوشنل بائیو سیفٹی کمیٹی کا قیام وہاں کے صحت کے قومی اداروں کی جانب سے عمل میں لایا گیا ہے جیسے امریکہ میں اسے نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے رہنما خطوط پر تشکیل دیا ہے یہ درحقیقت ایک ادارہ جاتی کمیٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوشنل بائیو سیفٹی کمیٹی آئی بی سی ریکومبینینٹ یا مصنوعی ڈی این اے/آر این اے اور دیگر بائیولوجیکل خطرات کے استعمال پر مشتمل تحقیق کا جائزہ لیتی، منظوری دیتی اور نگرانی کرتی ہے۔تمام کام جن میں بائیولوجیکل خطرات شامل ہیں، بشمول ریکومبیننٹ یا مصنوعی ڈی این اے/آر این اے ا نسٹیٹیوشنل بائیو سیفٹی کمیٹی (آئی بی سی)اور ای ایچ اینڈ ایس کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے۔ آئی بی سی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہے کہ تمام تحقیق جس میں خطرناک مواد شامل ہے اور تحقیق کرنے کے لیے استعمال ہونے والی سہولیات موجودہ حکومتی ضوابط، بہترین طرز عمل/رہنمائی خطوط اور قابل اطلاق ادارہ جاتی پالیسیوں کے مطابق ہیں۔انہوں نے کہا کہ جائزے کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کام اس انداز میں انجام دیا جائے جس سے ریسرچ فیکلٹی، عملے، طلباء، عوام یا ماحولیات کی صحت اور حفاظت کو کوئی خاص خطرہ نہ ہو۔ یہ قابل اطلاق مقامی، ریاستی ، وفاقی اور یو این ٹی کے ضوابط کی تعمیل کو بھی یقینی بناتا ہے۔ ان سرگرمیوں میں شامل تجربات آئی بی سی کے پیشگی پروٹوکول کے جائزے اور منظوری کے بغیر شروع نہیں کیے جا سکتے۔آئی بی سی کیمپس کی بائیو سیفٹی پالیسیوں اور طریقہ کار کا مسودہ تیار کرتا ہے، اور بائیو سیفٹی کے خدشات کے لیے انفرادی تحقیقی پروٹوکول کا جائزہ لیتا ہے۔ آئی بی سی فنڈنگ کے ذرائع سے قطع نظر ، تدریس اور تحقیق دونوں میں شامل تحقیقی پروٹوکول کی نگرانی اور جائزہ لیتا ہے ۔دو روزہ ورکشاپ میں صوبہ سندھ کی 6 جماعت جن میں ڈاؤ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، جناح سندھ یونیورسٹی، آغا خان یونیورسٹی، شاہ لطیف یونیورسٹی، خیرپور سندھ یونیورسٹی جامشورو سے 5 ، 5 شرکاء اور مجموعی طور پر 30 سینئر افراد نے شرکت کی۔مقررین نے اس موقع پر مزید کہا کہ بائیولوجیکل سائنسز نے جہاں انسانوں کے لئے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں ایسی ایجاد کیں کہ جن سے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچائی گئیں اور ان سے کہیں زیادہ انسانوں کی زندگیوں کو سکون ہوا مگر وہیں بائیولوجیکل ریسرچ کے محض منفی نتائج کے استعمال سے انسانوں کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس نقصان سے بچنے کے لیے ہی بائیولوجیکل سیفٹی کا تصور سامنے آیا ہے۔ جسے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں عام کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اس سے پہلے سائنسی تحقیق اور ایجادات کے متعلق اخلاقی ضابطوں کی کمیٹیاں کام کرتی تھیں۔
لیکن وہ ریسرچ کے منفی استعمال کو روکنے میں موثر ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ اس لئے مصر اور دیگر ممالک کے بعض واقعات کے بعد ادارہ جاتی حیاتیاتی تحفظ کا تصور پیش کیا گیا۔ حیاتیاتی تحقیق کے منفی استعمال سے متعلق مقررین نے کہا کہ حیاتیاتی ریسرچ کے نتیجے میں کوئی ایسا وائرس یا پروڈکٹ بھی سامنے آ سکتی ہے جو کسی ایک فائدے کے لئے ہو لیکن کوئی دوسرا مرض بھی پھیلا سکتی ہے۔ اگر اس تحقیق کو انسانوں میں امراض پھیلانے کے لئے استعمال کئے جانے کو منفی استعمال کہا اور سمجھا جائے۔پروفیسر سعید خان نے کہا کہ پاکستان بائیولوجیکل سیفٹی ایسوسی ایشن (پی بی ایس اے) نے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد ادارہ جاتی بائیولوجیکل سیفٹی کے تصور کو عام کرنے کے لیے کیا ہے۔ پاکستان بائیولوجیکل سیفٹی ایسوسی ایشن آئندہ بھی ایسے پروگرام منعقد کرتی رہے گی۔ ورکشاپ کے آخر میں شرکاء میں شیلڈ اور سرٹیفکیٹ تقسیم کئے گئے۔
================================
پہلا بین الاقوامی کڈنی ٹرانسپلانٹ سمپوزیم پروفیسر ادیب رضوی کی زیرِ صدارت آج کراچی میں ہوگا
ڈاؤ یونیورسٹی میں پانچ سو کڈنی ٹرانسپلانٹ کی تکمیل کی خصوصی تقریب بھی سمپوزیم کا حصہ ہوگی ۔۔
کراچی : کراچی میں
پہلا بین الاقوامی کڈنی ٹرانسپلانٹ سمپوزیم پروفیسر ادیب الحسن رضوی کی زیر صدارت اتوار 29 اکتوبر 2022 صبح 9 بجے مقامی ہوٹل میں منعقد ہورہا ہےسمپوزیم شریک چیئرمین پروفیسر محمد سعید قریشی اور فرانس سے آ ئے ماہر پروفیسر لیونل راسٹینگ افتتاحی خطاب کریں گے،ڈاؤ یونیورسٹی میں پانچ سو کڈنی ٹرانسپلانٹ مکمل ہونے پر خصوصی تقریب بھی سمپوزیم کا حصہ ہوگی ۔دن بھر جاری رہنے والے سمپوزیم کے مختلف سیشنز سےدیگر مقررین ڈاکٹر راشد بن حامد (ڈاؤ یونیورسٹی)، پروفیسر فضل اختر (ایس آئی یو ٹی)، پروفیسر عاصم احمد (کڈنی سینٹر)، ڈاکٹر عامر قاضی (انڈس اسپتال)، پروفیسر کنورنوید، پروفیسر سنبل ناصر ،ڈاکٹر صباحت سرفراز(ڈاؤ یونیورسٹی) ، پروفیسر سلمان امتیاز ( انڈس اسپتال)، ڈاکٹر سنیل (ایس آئی یو ٹی)، ڈاکٹر عائشہ حسن میمن( آغا خان اسپتال)، پروفیسر عبدالمنان جونیجو، پروفیسر عبدالکریم زرغون،ڈاکٹرسونیایعقوب،
پروفیسر روبینہ نقوی (ایس آئی یو ٹی)، ڈاکٹر محمد تصدق خان (ڈاؤ یونیورسٹی)،پروفیسر وقار الدین کاشف (ساؤتھ سٹی اسپتال) ، ڈاکٹر فیصل محمود (آغا خان اسپتال)، ڈاکٹر ماہ نور اعظم(ڈاؤ یونیورسٹی)، پروفیسر سلمان امتیاز، پروفیسر پورن کمار کوہستانی، ڈاکٹر بلال جمیل ، ڈاکٹر منصور شاہ (آغا خان اسپتال)، ڈاکٹر رقیہ (کڈنی سینٹر)، ڈاکٹر شہنیلا(پٹیل اسپتال) خطاب کریں گے-