ملک کی پہلی خاتون پروفیسر آف نیورو سرجری ڈاکٹر فوزیہ سجاد نے کہا ہے برین ٹیومر کینسر شدہ اور غیر کینسر شدہ ہو سکتے ہیں اور جب ٹیومر بڑھتے ہیں، تو وہ کھوپڑی کے اندر دباؤ بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں جس سے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے

لاہور( مدثر قدیر )ملک کی پہلی خاتون پروفیسر آف نیورو سرجری ڈاکٹر فوزیہ سجاد نے کہا ہے برین ٹیومر کینسر شدہ اور غیر کینسر شدہ ہو سکتے ہیں اور جب ٹیومر بڑھتے ہیں، تو وہ کھوپڑی کے اندر دباؤ بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں جس سے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ان کا کہنا تھا دماغ کے ٹیومر کو پرائمری یا سیکنڈری کے طور پر درجہ بندی کیا جاتا ہے۔ بہت سے پرائمری دماغ کے ٹیومر غیر کینسر شدہ ہوتے ہیں اور اور سیکنڈری برین ٹیومر جس میں جگر، گردوں ، چھاتی اور پھیپھڑے کے کینسر کے شکار افراد میں یہ مرض پھیل کر ان کے دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔برین ٹیومر کی


علامات ٹیومر کے مقام اور سائز پر منحصر ہوتی ہیں۔ کچھ ٹیومر دماغی بافتوں پر حملہ کرکے براہ راست نقصان پہنچاتے ہیں اور کچھ ٹیومر ارد گرد کے دماغ پر دباؤ کا باعث بنتے ہیں ان باتوں کا اظہار انھوں نے نمائندہ اومیگا نیوز سے خصوصی ملاقات میں کیا اس موقع پر انھوں نے مزید کہا کہ سر درد برین ٹیومرکی ایک عام علامت ہےجبکہ قے،دھندلا یاڈبل نظر آنا،الجھائو،دورے پڑنا،کسی اعضائ یاپھر چہرے کے کسی حصے کی کمزوری ،دماغی کام میں تبدیلی کے علاوہ یاداشت کھونا ،لکھنے پڑھنے میں دشواری،چکر آنا ،سر گھومنا اور چہرے بازو یاٹانگ کے پٹھوں کی کمزوری کی علامات بھی شامل ہوسکتی ہیں ۔انھوں نے بتایا دماغ کے ٹیومر کی زیادہ تر اقسام کا خطرہ عمر کے ساتھ بڑھتا ہے۔ برین ٹیومر (دماغی رسولی) پوری طرح قابل علاج مرض ہے اور پاکستان میں نیورو سرجری کی تمام سہولیات دستیاب ہیں۔ جتنی جلد تشخیص ہو گی مریض کے صحت یاب ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ برین ٹیومر کا علاج ابتدائی طور پر آپریشن ہے اور بعض صورتوں میں جب سرجن مکمل طور پر رسولی کو نکال نہیں سکتا تو شعاعوں سے اس کا علاج کیا جاتا ہے ۔ پہلی خاتون نیورو سرجن نے مزید کہا کہ دماغ میں موجود ہر ٹیومر خطرناک نہیں ہوتا ۔طب کے شعبے میں جدید ریسرچ اور سرجری کی ترقی کی بدولت آج دماغی بیماریوں کا علاج ماضی کی نسبت بہت بہتر ہوگیا ہے اور مریضوں کی ایک بڑی اکثریت صحت یاب ہو جاتی ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں نیورو سرجنز کی تعدادانتہائی کم ہے اور پورے ملک میں300 نیوروسرجنز ہیں جن میں ِصرف20 خواتین ہیں جو ملکی آبادی کے لحاظ سے بہت کم بلکہ نہ ہونے


کے برابر ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ سجاد نے بتایا کہ بہترین سرجن بننے کے لیے عقاب کی نظر،شیر کا دل اور خاتون کے ہاتھ کی مثال کو اختیار کیا جانا ضروری ہے اور اب وقت ہے کہ خواتین کوگائنی کے علاوہ بھی دیگر کلینکل سبجیکٹس میں بھی توجہ دینی چاہیے اگر ایک خاتون کے ٹو کو سر کرستی ہے اور لیفٹنٹ جنرل بن سکتی ہے تو پروفیسر آف نیوروسرجری بھی بن سکتی ہے ۔اس موقع پر انھوں نے بتایا کہ اگر ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے تو کامیاب خاتون کے پیچھے اس کے باپ،بھائی اور خاوند سمیت پورے خاندان کا ہاتھا ہوتا ہے اور میری کامیابی میں میرے والد کی دعائیں اور خاوند کی مکمل اسپورٹ شامل ہے جبکہ میرے اساتذہ جن میں ڈاکٹر نوید اشرف اور ڈاکٹر طارق صلاح الدین کی تربیت اور ڈاکٹر انور چوہدری ،ڈاکٹر محمد اکمل کی محنت نے میری سکلز کو بڑھایا جبکہ غیر ملکی اساتذہ پروفیسر عماد الدین طنان اور پروفیسر ماہر حسونہ نے نیورو سرجری کی نئی جہت سے مجھے ہم کنار کرایا اور مجھےاس قابل بنایا کہ آج میں اس مقام پر ہوں کہ اپنے پیشے کے حوالےسے مشکل سے مشکل آپریشن کو ممکن بنا کر مریضوں کی خدمت پر معمور ہوں میں ملک کی پہلی خاتون نیورووسیکولرسرجن ہونے کے ساتھ بیس آف سکل یعنی دماغ کے نچلے حصوں کی رسولیوں کی سرجری کرنے کے ساتھ ٹی جی این کی خاص مہارت رکھتی ہوں ،آپ یقین نہیں کریں گے کہ دماغ اور حرام مغز کا آپریشن کرتے وقت تھرل ہی کچھ اور ہوتی ہے اس لیے آپ کے توسط سے کہنا چاہتی ہوں کہ نیوروسرجری کا شعبہ اسے چننا چاہیے جسے پسند ہواور وہ اپنے شعبے کے ساتھ انصاف کرسکے محض عہدے کے حصول کے لیے شعبہ جوائن نہ کرئے ،سروسز انسٹیٹیوٹ آف نیوروسرجری کا شعبہ 56 بیڈزپر مشتمل ہے جس میں تعینات طبی اور غیر طبی عملہ دن رات خلق خدا کی خدمت کے جزبے سے سرشارہوکر اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ پروفیسر فوزیہ سجا د پاکستان سوسائٹی آف نیورو سرجنز ونز کی موجودہ صدر اورپا کستان جنرل آف نیورولوجیکل سرجری کی اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی ہیں۔
===============================