بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے وسائل لمحہ فکریہ


میری بات۔۔۔مدثر قدیر

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی 2030تک دو سو پینتالیس ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی میں ایک اعشاریہ آٹھ فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیا سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی آبادی کا مرکز ہے۔ دنیا کی تقریبا ساٹھ فیصد آبادی اس خطے میں بستی ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے دس ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔ اگر آبادی بڑھنے کا تناسب موجودہ رفتار سے جاری رہا تو 22ویں صدی میں قدم رکھنے تک دنیا کی آبادی گیارہ اعشاریہ دو بلین تک پہنچ سکتی ہے۔: بڑھتی آبادی مختلف سماجی برائیوں کا باعث بھی بنتی جا رہی ہے جن میں کم عمری کی شادیاں، بیروزگاری،ناخواندگی میں اضافہ، چائلڈ لیبر، دہشت گردی اور بچوں کا استحصال وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ملکی مسائل کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی ملکی وسائل بلخصوص محدود قدرتی وسائل پر اثر اندازہو رہی ہے۔ان میں پانی جو انسانی زندگی سے جڑی ایک بنیادی ضرورت ہے کی قلت دن بدن سنگیں صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان پانی کی


کمی سے متاثرہ دنیا کے تین ممالک میں سرفہرست ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق1951 کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں فی کس 5300مکعب میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ 2017 میں یہ گھٹ کر محض 860مکعب میٹر رہ گیا ہے جو اَب مسلسل خطرے کی علامت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہی حال شہروں میں بچھے سیورج سسٹم کا ہے۔ مثال کے طور پر آبادی کے اس بے ہنگم پھیلاؤسے پہلے پانی اور سیورج کی ایک کلومیٹر لمبی پائپ لائن لگ بھگ سو گھروں کی ترسیل کے لئے کافی ہوتی تھی جبکہ اب آبادی کے پھیلاؤ کے باعث ایک ہزار گھروں کا بوجھ اس پائپ لائن پر منتقل ہو گیا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ آبادی کے بڑھنے سے کہیں بھی سروسز پہنچانا دشوار ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آبادی کے بڑھنے سے ٹریفک کے ان گنت مسائل جنم لے رہے ہیں ہیں۔ اور کون نہیں جانتا کہ بے ہنگم ٹریفک ہی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے جس سے دن بدن مہلک بیماریاں جنم لیتی جا رہی ہیں جن میں کینسر بھی شامل ہے
پاکستان اس وقت گوناں گوں مسائل سے دو چار ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ جیسے عفریت ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔لیکن اس سب سے قطع نظر کینسر کے پھوڑے کی طرح پھیلتا ایک مسئلہ بے ہنگم آبادی کا ناسور ہے۔ یہ نہ صرف ملکی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے بلکہ ملکی وسائل کو بھی اس طرح ہڑپ کرتا جا رہا ہے جیسے مگر مچھ سمندری مخلوق کو۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں سے لیکر عام لوگوں تک آج تک نہ تو کسی کو اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس ہوا اور نہ ہی کسی نے اسے آنے والے وقتوں کے لئے کوئی خطرہ جانا۔اقوام متحدہ سمیت ماہرین کے بار بار انتباہ کے باوجود کہ پاکستان میں چار کروڑ سے زائد افراد خط غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، سات کروڑ سے زائد پاکستانیوں کو پینے کا صاف پانی ہی میسر نہیں۔پنجاب جو گیارہ کروڑ آبادی کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑااورقدرے خوشحال صوبہ ہے کے نو کروڑ لوگوں کو سینیٹری مسائل کا سامنا ہے۔ سات کروڑ کے لگ بھگ لوگ ایک ایک کمرے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دن بدن بڑھتی بیروزگاری، صحت وتعلیم، ٹرانسپورٹ اور دیگر متفرق بنیادی سہولتوں کے فقدان کے باوجود بھی حکمرانوں کو یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہو کہ ان مسائل کی اصل وجہ کیا ہے۔بڑھتی آبادی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سال گزشتہ کی اس رپورٹ کے بعد کہ دنیا بھر میں اکتیس کروڑ سے زائد مائیں مختلف قسم کی بنیادی طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں۔جن میں سے بیس کروڑ سے زائد مائیں تو ایسی ہیں جو اپنی زندگی میں اوسط چار سے چھ بار اس طرح کے خطر ناک حالات سے بار بار بچوں کو جنم دے چکی ہوتی ہیں۔ ایسی خواتین کی تعداد اور بھی تشویشاک ہے جو بنیادی طبی سہولتوں اور متوازن غذاکی عدم دستیابی کے سبب اس عمل کے دوران ہی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ 1998 میں کی گئی سرکاری مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13 کروڑ 24 لاکھ تھی جبکہ 2017 میں یہ 20 کروڑ 78 لاکھ تک پہنچ گئی تھی یعنی 19سال میں اس میں 57 فیصد اضافہ نوٹ گیا یعنی 3 فیصد فی سال اضافہ (جبکہ امریکہ میں آبادی کا شرح اضافہ 1.7 فیصد سالانہ ہے) جو دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔تین سال پہلے اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 1990 سے 2019 کے درمیان پاکستان اور نائیجیریا واحد ممالک ہیں جن کی آبادی اس عرصہ میں دوگنی ہوئی ہے۔پاکستان میں آبادی میں اضافہ کی شرح کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سرفہرست جہالت اور شرحِ خواندگی کا کم ہونا جبکہ اس کے علاوہ وسائل کے مطابق بچوں کی تعداد کا شعور نہ ہونا۔ خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کو مخصوص رنگ دینا نمایاں وجوہات ہیں۔ دیگر وجوہات میں غربت، بے روزگاری،مسقبل سے بے فکری اورحکومتی سطح پر آبادی میں کمی کی غلط پلاننگ اور عدم دلچسپی شامل ہیں۔اگر ہم اپنے آس پاس نظر دوڈائیں تو ہمیں آبادی میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ غربت نظر آتی ہے۔ یہ ایک انسانی نفسیاتی نکتہ ہے کہ اگر مال و دولت کی فراوانی ہو تو گھر میں اولاد بڑھانے کی طرف دھیان نہیں جاتا کیونکہ ذہن میں یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ افراد کی وجہ سے دولت کو زیادہ حصوں میں تقسیم کرنا پڑ جائے گا اور ایسے خاندانوں میں بڑھاپے کے سہارے کی بھی فکر نہیں ہوتی، اسکے برعکس غریب طبقوں میں زیادہ سے زیادہ بچوں کی پیدائش پر اس لئے بھی زور دیا جاتا ہے کہ ایک تو ان کو کمائی کا ذریعہ درکار ہوتا ہے دوسرا بڑھاپے کا سہارا بھی۔ چونکہ ان حالات میں اولین ترجیح لڑکا ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کی پیدائش کی صورت میں لڑکے کی پیدائش تک اولاد پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو آبادی میں اضافے کو موجب بنتا ہے۔آبادی کے پھیلاؤ سے زرعی زمینیں تیزی سے ہاؤسنگ کالونیوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔جس کی وجہ سے پاکستان کے لئے خود اپنی آبادی کے لئے خوراک کی


ضروریات پوری کرنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اس کے اثرات گندم کے علاوہ پھلوں، سبزیوں اور دالوں پر بھی پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ آبادی میں اضافہ کے باعث بچوں میں غذائیت کی کمی کی شرح دن بدن تشویشناک صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ 2019 میں سامنے آنے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک تہائی سے زائد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ 29 فیصد بچے وزن کی کمی، 17 فیصد سے زائد بچے پیدائشی کمزوری جبکہ 38 فیصد بچے عمر کے لحاظ سے قد کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک اور سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال بارہ ہزار سے زائد خواتین حمل اور زچگی کے دوران ہی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے کو فعال بنا کر بنگلہ دیش اور ایران کے تجربات سے استفادہ کرنا ہو گا جنہوں نے تمام مکاتب فکر کو اعتماد میں لیکر لوگوں کو بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفے اور منصوبہ بندی کا پابند بنایا ہے۔جس کے اثرات ا ن ملکوں میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
=======================================================================