تحریر۔۔۔۔۔ شہزاد بھٹہ
====================
راولاکوٹ ،بنجوسا جھیل، وادی نیلم ،قلعہ رام کوٹ،لیپا ویلی،پیر جناسی وادی جہلم،شونٹر جھیل ،لال قلعہ کوٹلی ستیاں، باغ، گنگا چوٹی، سدھن گلی، زلزلہ جھیل ، مظفر آباد آزاد کشمیر کے خوبصورت جنت نظیر تفریحی مقامات ھیں اسی خوبصورت مناظر کی وجہ سے
مغل شہنشاہ،اورنگزیب عالمگیر نے کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت ہے۔ آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 19 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں، آزاد کشمیر میں ضلع باغ، ضلع بھمبر، ضلع پونچھ، ضلع سدھنوتی، ضلع کوٹلی، ضلع مظفر آباد، ضلع میر پور، ضلع نیلم، ضلع حویلی اور ضلع ہٹیاں شامل ھیں
آزاد کشمیر کے خوبصورت، دلکش اور حسین مقامات کو دنیا بھر کے سامنے لانے کی اشد ضرورت ھے تاکہ پاکستان اور دنیا بھر کے سیاح پاکستان اور آزاد کشمیر کے خوبصورت تفریحی مقامات کی سیر کے لیے آئیں اور قدرت کے انمول خزانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں جس سے ملکی و غیر ملکی سیاحت کو فروغ اور ملک کو قیمتی زرمبادلہ بھی ملے گا جس سے ھماری حکومتیں مالی لحاظ سے خود مختار ھونے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور دیگر مالی اداروں سے جان چھڑا سکتی ہیں
اگر ھم زلزلہ جھیل کی بات کریں جو سدھن گلی ضلع باغ سے مظفر اباد روڈ پر واقع بلند و بالا پہاڑوں سے چاروں طرف سے گھری ھوئی ایک نہایت خوبصورت جھیل ھے جو اکتوبر 2005 میں انے والے تباہ کن زلزلہ کی وجہ سے وجود میں ائی جس کو مقامی لوگوں نے زلزلہ جھیل کا نام دے دیا ۔
زلزلہ جھیل سدھن گلی مظفر آباد مین روڈ سے تقربیا 5000 فٹ نیچے واقع ھے زلزلہ جھیل کی گہرائی تقربیا 150 فٹ اور لمبائی تین کلو میڑ ھیں ۔
زلزلہ جھیل وادی چکار جہلم ویلی کے گاؤں کلڑی اور مشہور گنگا چوٹی سدھن گلی سے تقریبا پندرہ کلومیٹر دور سدھن گلی مظفرآباد روڈ پر واقع قدرت کا ایک انمول تحفہ ھے
اکتوبر 2005 میں آنے والے شدید زلزلہ کی وجہ سے ایک بڑا پہاڑ نے اپنی جگہ چھوڑی جس کی وجہ سے نیچے وادی میں بہنے والا نالہ کا راستہ مکمل طور پر بند ھو گیا جس کی وجہ بہت تھوڑے وقت میں ایک بڑی جھیل وجود میں آگئی اس خوبصورت وادی میں تقریبا چھ سے سات چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے ان گاؤں میں رہنے والوں کو اتنی مہلت بھی نہ مل سکی کہ وہ پانی سے اپنا بچاؤ کر سکیں اور اچانک پانی اکھٹا ھونے سے وادی کے سارے گاوں جھیل میں ڈوب گئے جس سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ھوا ۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً تین ھزار لوگ اپنی جانوں سے محروم ہوگئے
سدھن گلی باغ سے زلزلہ جھیل تک کی مین مظفر آباد روڈ بھی نہایت خراب اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھے اس کی مرمت کا کام جاری ھے زلزلہ جھیل سٹاپ سے اگئے مظفر اباد تک نئی سڑک بنی ھے
زلزلہ جھیل جیسی خوبصورت تفریحی مقام میں ٹورسٹ کے لیے کوئی بنیادی سہولیات موجود نہیں ھیں سیاحوں کے لیے کوئی ریسٹ ھاؤس ،ریسٹورنٹ، کھانے پینے کی ہوٹل ،چائے خانہ ،باتھ رومز وغیرہ تک نہیں ھیں اور نہ ھی کوئی مناسب راستہ موجود ھے جس کے ذریعے سیاح بآسانی نیچے جھیل تک جا سکیں صرف پہاڑی راستے یا پگڈنڈیاں ھیں جن پر مقامی لوگ تو بآسانی سفر کر سکتے ہیں مگر ان پہاڑی راستوں پر سیاحوں کے لیے سفر بڑا دشوار ھے مگر بھی کچھ لوگ ھمت کر کے نیچے جھیل تک پہنچ جاتے ہیں اور قدرت کے خوبصورت مناظر کو قریب سے دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے ھیں
پاکستان کی یہی بد قسمتی ھے کہ ھم زلزلہ جھیل جیسے دیگر خوبصورت تفریحی مقامات میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان دل فریب تفریحی مقامات کی پروموشن کے لیے کچھ نہیں کرتے صرف جمع خرچ کرتے ھیں اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں سے اربوں روپوں کے قرضے لیتے ھیں ان قرضوں کو کسی مفید منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے صرف اپنی ذاتی عیاشیوں پر برباد کر دیتے ھیں
زلزلہ جھیل کی سیر کے لیے مقامی افراد نے ایک موٹر کشتی بنا رکھی ھے جس کی مدد سے زلزلہ جھیل دیکھنے والے جھیل کی سیر کرتے ھیں کوئی سیفٹی جیکٹیں دستیاب نہیں ھیں صرف اللہ کے بھروسے پر ھی آپ 150 فٹ گہری جھیل کی سیر کر سکتے ھیں اس خوبصورت جھیل کو دیکھنے کے لیے بہت کم لوگوں آتے ھیں اس کی بنیادی وجہ یہ ھے کہ زلزلہ جھیل جیسے اور بہت سے خوبصورت ترین تفریحی مقامات لوگوں کی نظروں سے اوجھل ھے
زلزلہ جھیل جیسے خوبصورت علاقے کو دیکھ کر احساس ھوتا ھے کہ ازاد کشمیر گورنمنٹ اور مقامی انتظامیہ نے کبھی بھی کوشش نہیں کی کہ اس زلزلہ جھیل کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور نہ ھی وھاں کوئی بنیادی سہولیات فراھم کی ھیں جس کی وجہ سے بہت کم سیاح زلزلہ جھیل کے بارے جانتے ھیں
قدرت نے پاکستان کو سینکڑوں خوبصورت ترین تفریحی مقامات دے رکھے ھیں مگر ھم نے صرف مری نتھیاگلی ایبٹ آباد کاغان ناران وغیرہ کی طرف ھی توجہ دے رکھی ھے
ھمارے ترقیاتی ادارے ایسے بے کار اور بے فایدہ منصوبے یا پراجیکٹ بناتے ھیں جن سے صرف اپنا کھانا پینا چلتا رھے اور اپنے استعمال کے لیے نئی نئی گاڑیاں خریدتے ھیں پہلے سے موجود دفاتر کی آرائش پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ھیں ھماری افسر شاھی سارا سارا دن فائلوں کے چکروں میں ھی مصروف رہتی ھے یا آرام دے دفاتر میں ھی بیٹھ کر میٹنگ میٹنگ کھیلتے رہتے ھیں
سیر و تفریح سکون اور قدرت کے نظاروں دیکھنے اور لطف اندوز ھونے کے لیے کی جاتی ھے مگر پاکستانی حکومتوں اور انتظامیہ کی نااہلوں کی وجہ سے ھر سال لوگ مری جیسے گنجان علاقوں میں سیر و تفریح کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ذلیل و خوار ھو کر اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ھیں
حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کو چاھیے کہ زلزلہ جھیل جیسے خوبصورت سیاحتی مرکز میں بنیادی سہولیات فراھم کرے
مین سڑک سے تقریباً 5000 ھزار فٹ نیچے زلزلہ جھیل تک انے جانے کے لیے مناسب راستہ بنایا جائے اگر ھو سکے تو وھاں پر چیئر لفٹ لگائی جائے جس سے سیاح بآسانی نیچے جھیل تک سفر کر سکیں
جھیل کے کنارے ریسٹ ھاؤس ریسٹورنٹ بچوں کے لئے جھولے وغیرہ بھی بنائے جائیں اور جھیل کے بارے الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے ذریعے تعارفی مہم چلائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی سیاح خوبصورت تفریحی مقام پر آئیں اور قدرت کے انمول خزانوں سے لطف اندوز ھو سکے
آزاد کشمیر ایک ایسی جنت نظیر جگہ ھے جس میں بہت سی نہریں ہیں ، لاتعداد جھیلیں ہیں ، اور بہت سی جنگلی حیات موجود ھیں پاکستان کا یہ خوبصورت حصہ اپنی سرسبز وادیوں ، طاقتور آبی گزرگاہوں ، خوبصورت جھیلوں اور حیرت انگیز زندگی کے لیے دنیا بھر میں جانا جاتا ھے ایک بات طے ھے کہ پاکستانی و آزاد کشمیر حکومت زلزلہ جھیل جیسے تفریحی مقامات سے سالانہ کروڑوں روپے کما سکتی ھیں
مگر بات ھے ذرا سوچنے کی جو ھماری حکومتوں اور انتظامیہ کے پاس نہیں ھے وہ تو صرف ڈنگا ٹپاو پالیسوں یا حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق ھی کام کرتے ہیں
========================================