ووٹ نہیں نوٹ چاہئے،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی حکومتی کوششیں


==============
یاسمین طہٰ
==================
موجودہ حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کیلئے بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ بل پی ٹی آئی کے منحرف رکن نورعالم خان کے ذریعے پیش کرایا گیا۔بل پیش کیے جانے پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ بل الیکشن اصلاحات کمیٹی میں زیر غور لایا جائیگا جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے بل الیکشن اصلاحات کمیٹی کے سپرد کردیاہے۔قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم منظور کی ہیں، جس میں تحریکِ انصاف کی گزشتہ حکومت کی اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق اور


عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی ترامیم شامل نہیں کی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِ قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل پیش کیا جس کو منظور کر لیا گیا۔وفاقی وزیر قانون نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات پر الیکشن کمیشن نے اعتراضات اٹھائے ہیں اور اب اس سے متعلق بل میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں جن کو دور کرنے کے لئے اس شق کو بھی بل سے نکال لیا گیا ہے۔الیکشن ایکٹ ترامیمی بل 2022 غور کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا، جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا اور اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق عمران خاں حکومت میں گزشتہ برس دیا گیا تھا۔ گزشتہ سال نومبر میں ا سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بابر اعوان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کی ترمیم پیش کی تھی جس کے بعد انتخابی نظام میں تبدیلی کے حوالے سے حکومت کا الیکشن ترمیمی بل 2021 منظور کیا گیا تھا۔پارلیمنٹ نے حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا بل اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بلوں کی بھی منظوری دی تھی۔ پاکستان اب تک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے کوئی واضع پالیسی تشکیل نہیں دے سکا ہے جب کہ دنیا کے نوے سے زیادہ ممالک ایسے ہیں جو بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں کو ملک میں ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیتے ہیں۔لیکن اس کیلئے کچھ شرائط لاگو ہیں لیکن موجودہ حکومت بھی شرائط کے ساتھ یہ حق دے سکتی ہے اور انھیں ملکی سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اجازت دے سکتی ہے۔موجودہ حکومت کی ایک اہم پارٹی کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ملکی حالات سے آگاہی نہیں جو غلط سوچ ہے کیوں کہ پاکستان میں مقیم شہریوں سے ذیادہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے ملک کے بارے میں باخبراور فکر مند رہتے ہیں اسلئے ان کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنا سراسر ذیادتی ہوگی کیوں کہ ہر مصیبت میں یہی پاکستانی ملک کی مالی مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں اور ان کا بھیجا ہوا زرمبادلہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کا موقف ہے کہ ہم ہر مصیبت میں وطن کی مالی مدد کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن ہمارے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ان کے ووٹ کے حق کے حوالے سے ہم نے بیرون ملک مقیم چند پاکستانیوں سے رائے مانگی۔

لندن میں مقیم حبیب جان نے اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سوائے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے دور کے اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ تمام سیاسی اور آمریت کے دور میں قائم ہونے والی حکومتوں نے زیادتیاں کی ہیں۔ بھٹو صاحب نے اوورسیز کی وزارت کے ذریعے مشرقی وسطیٰ کی تعمیر نو میں پاکستانی مزدوروں کو دو طرفہ معاہدوں کے زریعہ روزگار کا تحفظ دیتے ہوئے طویل المیعاد بنیادوں پر بھیجا۔ اور آج مشرق وسطیٰ اور بالخصوص متحدہ عرب امارات سعودی عرب کویت بحرین وغیرہ کی بلند و بالا عمارتیں پاکستان کے مزدوروں کے مرہون منت ہیں۔دوسری طرف 1974 تک یورپ اور خاص کر برطانیہ میں پاکستان کے پاسپورٹ پر آن آرئیول انٹری ویزوں کے سبب اور بعد ازاں ایجنٹوں کے تعاون سے پنجاب اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زمین مال مویشیوں کو فروخت کرکے پہنچے اور آج یہ تعداد دو ملئین تک تجاوز کرگئی ہے۔ امریکہ میں رہنے والے اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اوورسیز پاکستانیوں کو پہلی بار بھٹو شہید نے براہ راست سیاست میں شامل کرتے ہوئے پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے ایکٹؤ کیا۔ بنکوں کے زریعے مراعات جائیدادوں کی خرید و فروخت میں سہولتیں دی۔ تمام مملک میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن میں باہر رہنے والے پاکستانیوں کو نہایت تکریم دی گئی۔ گویا اس کے بعد ہر حکومت حتیٰ کہ بھٹو شہید کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ اوورسیز پاکستانیوں کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کرسکیں یا یوں کہہ لیں کہ شاہد محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو کام کرنے ہی نہیں دیا گیا۔پاکستان کی سیاست میں غالباً پہلی بار عمران خان کی صورت میں اوورسیز پاکستانیوں کی تیسری چوتھی نسل کو ایک نئی امید نظر آئی تھی۔ ماضی میں اوورسیز کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے نت نئے وعدے خاص کر الیکشن میں ووٹ کا حق اور اوورسیز نیکوپ کارڈ نیکوپ کارڈ کا تو سابقہ حکومتوں میں اجراء کردیا گیا لیکن اوورسیز یوتھ میں عمران خان کی بڑھتی مقبولیت کے سبب حکومتی سیاسی پارٹیوں نے الیکشن میں ووٹ کے حق دینے والے معاملے کو ٹال مٹول کرتے ہوئے روکے رکھا۔اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے بھی اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق دینے والے معاملہ پر زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی اور تقریباً دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد کہیں جاکر اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار کیا ہوگا. اور اسی کشمکش میں بدقسمتی سے آئینی عدم اعتماد کے زریعے عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی متحدہ اپوزیشن نے اقتدار سنبھالتے ہی عمران خان کے مضبوط پاکٹ اوورسیز پاکستانیوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے پارلیمینٹ کے زریعے ایک بار پھر پاکستانی اوورسیز کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا۔ کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں بالخصوص یوتھ میں عمران خان کی پارٹی ان کی پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے۔ہمارے خیال میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے یا نہ دینے سے اتنا بڑا فرق کوئی نہیں پڑنا تھا، لیکن اس ووٹ کے حق نے گزشتہ دو تین سالوں سے بطور پاکستانی اوورسیز کو تقسیم در تقسیم کرکے رکھ دیا تھا۔ پاکستان کی اسمبلی تحریک انصاف کے دور میں اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ قانون سازی نہیں کرسکی عمران خان صرف گفتار کے غازی بنے رہے۔ آج بھی اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت کا ایک ہی مسئلہ سرفہرست ہوتا ہے کہ گاؤں میں ہماری زمین قبضہ ہوگئی یا پھر اسلام آباد اور لاہور ائیرپورٹس پر کسٹمز اہلکار ہم اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ لوٹ مار کرتے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی عمران خان سمیت ہر حکمراں جماعت کو مشورہ دیا تھا اور آج پھر دیتے ہیں کہ آزاد کشمیر حکومت کی طرح اوورسیز پاکستانیوں کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں متناسب نمائندگی کا حق دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس ووٹ کے حق کی
جھنجھٹ سے جان چھڑا لی جائے۔

جرمنی میں مقیم عشرت معین سیما نے کہا کہ گذشتہ دور حکومت میں سابق وزیراعظم عمران خان حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بل قومی اسملی سے منظور کرایا تھا اور اسی حوالے سے گزشتہ سال نومبر میں اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بابر اعوان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کی ترمیم پیش کی تھی جس کے بعد انتخابی نظام میں تبدیلی کے حوالے سے حکومت کا الیکشن ترمیمی بل 2021 منظور کیا گیا تھا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی آمد کی خبر نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دلوں کو خوشیوں سے سرشار کردیا تھا انہوں نے حکومت کے اس فیصلے کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا تھا اور حکومت کے شکر گزار ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی خوشی و اطمنان کا اظہار کیا تھا کہ بیرون ملک بسے پاکستانی جن کے بھیجے کثیر زرمبادلہ کی پاکستان کی معیشت میں بہت اہمیت ہے، وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مذید کوشاں ہونگے اور وہ انتخابات کے دنوں میں سفری اخراجات اور دیگر معاملات سے بچتے ہوئے براہ راست اپنے ووٹ کا استعمال کر پائیں گے لیکن اب موجودہ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کے لئے جو بل پیش کردیا گیا ہے اس پر پاکستانیوں میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ حکومت پاکستان بیرون ملک بسے پاکستانیوں کو کوئی اہمیت دیتی ہے یا اْن کے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس بات پر دیگر پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی افسوس ہے کہ وطن کو برے اقتصادی حالات سے نکالنے کے لیے حکومت کی نظریں ہمیشہ بیرون ملک بسے پاکستانیوں کے زرمبادلہ پر ہوتی ہے اور ملک کی سماجی حالت سنبھالنے کے لیے کئی سماجی تنظمیں بھی دیار غیر میں بسے پاکستانیوں کی مدد کی طلبگار رہتی ہیں لیکن انہیں ووٹ کے حق سے محروم کردینے کے خلاف اب تک کوئی واضح آواز نہ ایوانوں میں سنائی دی ہے اور نہ ایوان بالا سے باہر۔۔۔ اس حوالے سے یورپ اور بیرون ملک بسے دیگر پاکستانیوں میں نہ صرف غصہ ہے بلکہ اس بات پر افسوس بھی ہے کہ حکومت اْن کی کوششوں کو سراہنے اور انہیں وطن کے ساتھ تعلق میں مضبوطی لانے کے لیے کوئی بھی عملی کوشش نہیں کر رہی بلکہ سابقہ حکومت کے ساتھ انتقامی سیاست کو ہوا دے کر بیرون ملک بسے پاکستانیوں کو وطن کی ترقی کے عوامل سے الگ کر رہی ہے۔ جرمنی میں بسے کئی تاجر اور روزگار پیشہ پاکستانیوں کا کہنا ہے وہ ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی اور سماجی بہبود کے لیے رقم خرچ کرتے ہوئے اب مذید ہوشیار ہوجائیں گے کہ آیا یہ رقم حکومت وقت سماجی بہبود کے لیے ہی استعمال کر رہی ہے یا اس رقم کا کسی کو ذاتی فائدہ پہنچ رہا ہے۔


ریاض میں مقیم تسنیم امجد کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں عوامی رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاکیونکہ دونوں کاایک دوسرے پر انحصار ہے،بعض اوقات اقلیت کی رائے بھی وزنی ہوتی ہے اور رائے عامہ کا درجہ دکھتی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے دل وطن کے ساتھ دھڑکتے ہیں،آن کی رائے کا احترام و شمارکیوں نہیں کیا جاتا، کیا سر حدی فاصلے انہیں قومیت سے دور کر رہے ہیں یا ان کاوجود نصف ہے-سچ تو یہ ہے کہ ان کی حب ا لوطنی کا کوئی مول نہیں،وطن سے دور ہوتے ہوئے حالات کا جائزہ یہ کھلی آنکھوں سے لیتے ہیں،وزیر قانون کا بیان سنا اور پڑھا تو بہت افسوس ہوا کہ گذشتہ حکومت نے یہ فیصلہ عجلت میں منظور کیا تھا،واہ! برسوں بیت گئے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی بنے لیکن پھر بھی سوتیلوں جیسا سلوک،یہ کولہو کے بیل کی مانند دن رات ایک کئے نہیں تھکتے،ظلم کی بھی انتہا ہوتی ہے، دوسری جانب الیکٹرانک ووٹنگ کی بھی مخالفت،چہ معنی دارد؟الیکشن کمیشن اپنی نا اہلی کا اعتراف کر رہا ہے، ابھی ہم تیار نہیں — واہ! نہ جانے وقت کب آئیگا – ایک کی بجائے دس انگوٹھوں کی عادت ہو چکی ہے شاید،سننے میں آیا ہے کہ اوورسیز اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے اور پارلیمنٹ میں بھیجیں گے،،من پسندوں کی سلیکشن اور دھاندلی – اوورسیز کی درخواست ہے کہ ان کے وجود کو تسلیم کیا جائے ورنہ ان سے پھر شکایت نہ کیجئے-


جرمنی میں مقیم سید حیدر نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں کیونکہ آئین کے مطابق ہر پاکستانی کو ووٹ کا حق حاصل ہے۔ اور آئین کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ صرف ایک پاکستانی کو جاری کیا جاتا ہے اور قومی شناختی کارڈ بھی۔موجودہ حکومت نے اس فیصلے سے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور اگر قومی اسمبلی اس کی توثیق کرتی ہے تو سپریم کورٹ کو سوموٹو لینا چاہئیے۔پاکستانی اوورسیز نے پچھلے ایک سال میں 25 ارب ڈالر پاکستان بھیجے ہیں جو قرض بھی نہیں ہے جبکہ آئی ایم ایف سخت ترین شرائط پر صرف 8 ارب ڈالر دے سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کی وجہ یہ ہے کہ وہ سارا قرضہ حکمرانوں کی جیب میں جائے گا۔ جبکہ اوورسیز اپنے اہل خانہ کی مدد کے لیے بھیجتے ہیں۔بات واضح ہے کہ یہ حکومت عوام دشمن ہے اور اسی لیے اوورسیز کے ووٹ کا حق ختم کرنا چاہتی ہے۔ریاض میں مقیم وقار وامق کا کہنا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے نمائندے اوورسیز میں مقیم پاکستانیوں سے ہی منتخب کرنے کا حق ضرور ہونا چاہیے اور قومی اسمبلی میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے نشستیں مختص ہونی چاہئیں کیونکہ اوورسیز میں رہنے والے تارکینِ وطن ہی اس تجربے کے حامل ہیں کہ اوورسیز میں پاکستانیوں کی کیا مشکلات ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ھے نیز اوورسیز میں رہتے ہوئے وہ بہتر طور پر تارکینِ وطن کے لئے دستیاب ہوں گے.
ہائی لائٹس
آزاد کشمیر حکومت کی طرح اوورسیز پاکستانیوں کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں متناسب نمائندگی کا حق دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس ووٹ کے حق کی جھنجھٹ سے جان چھڑا لی جائے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کے لئے جو بل پیش کردیا گیا ہے اس پربیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں غم و غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ حکومت پاکستان بیرون ملک بسے پاکستانیوں کو کوئی اہمیت دیتی ہے یا اْن کے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں کیونکہ آئین کے مطابق ہر پاکستانی کو ووٹ کا حق حاصل ہے۔ بات واضح ہے کہ یہ حکومت عوام دشمن ہے اور اسی لیے اوورسیز کے ووٹ کا حق ختم کرنا چاہتی ہے
اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے نمائندے اوورسیز میں مقیم پاکستانیوں سے ہی منتخب کرنے کا حق ضرور ہونا چاہیے اور قومی اسمبلی میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے نشستیں مختص ہونی چاہئیں