ادب دوست مشاعرہ ۔۔ علیم گاہ میں لفظوں کی گونج
بشیر سدوزئی
گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین، بلاک ایم نارتھ ناظم آباد میں ادب دوست تنظیم کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والا مشاعرہ، اور اس میں سیکڑوں نوجوان طالبات کی گہری دلچسپی اور شاعروں کی بھرپور پذیرائی، محض ایک ادبی نشست نہیں تھی بلکہ اس حقیقت کا واضح اعلان تھا کہ اردو ادب، بالخصوص شعر و سخن، آج بھی نوجوان نسل کے دل کی دھڑکن ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ شعر معیاری ہوں تب کم معروف شعرا بھی بھرپور قبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں مشاعروں کی بھرمار ضرور ہے، مگر تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کے درمیان مشاعروں کا انعقاد نہ صرف اس روایت کو زندہ رکھنے بلکہ اسے پروان چڑھانے اور تقویت دینے کی ایک بامعنی اور کامیاب کوشش ہے۔ ادب دوست تنظیم اس ذمے داری کو نہایت حسن و خوبی سے نبھا رہی ہے۔ ان مشاعروں میں اگرچہ شعرا کی تعداد درجن بھر ہوتی ہے، مگر سامعین اور حاضرین کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ادب آج بھی دلوں کو اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ادب دوست تنظیم کے زیرِ اہتمام ہونے والے اس مشاعرے نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ اگر لفظوں کو احترام، اساتذہ کو اعتماد اور طالبات کو اظہار کا موقع دیا جائے تو تعلیمی ادارے محض علم ہی نہیں بلکہ شعور بھی پیدا کرتے ہیں۔ تنظیم کی روحِ رواں گل آفشاں اور سیکریٹری شاہ فہد نے نوجوانوں کو شاعری کا اعتماد دینے کا جو عزم کر رکھا ہے، وہ قابلِ تحسین ہے۔ محترم پروفیسر سحر انصاری کی سرپرستی میں ادب و فن کا یہ قافلہ تعلیمی اداروں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، کیونکہ اگر فنِ شاعری کو زندہ رکھنا ہے تو نوجوانوں کو اس سفر میں شامل کرنا ناگزیر ہے۔ حالیہ دنوں میں محترم افتخار ملک ایڈوکیٹ کی سرپرستی سے اس قافلے کی رفتار مزید تیز ہو گئی ہے، اور اب آئے روز کسی نہ کسی کالج، یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے میں مشاعرہ منعقد ہو رہا ہے۔
گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین، بلاک ایم نارتھ ناظم آباد کے اس بامقصد مشاعرے کی صدارت طنز و مزاح کے نامور شاعر خالد عرفان نے کی۔ ان کی موجودگی خود اس بات کی ضمانت تھی کہ محفل محض رسمی نہ ہوگی بلکہ فکری اور فنی سطح پر بھی بھرپور رہے گی۔ خالد عرفان نے اپنی شاعری کے ذریعے طنز و مزاح کے سنجیدہ سماجی کردار کو اجاگر کیا اور طالبات کو یہ پیغام دیا کہ ہنسانا آسان ہے، مگر سوچنے پر مجبور کرنا اصل فن ہے۔
مہمانِ خصوصی افتخار ملک ایڈوکیٹ نے اپنے خطاب میں اردو زبان، طالبات اور تعلیمی اداروں کے باہمی رشتے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ زبانیں محض بولنے سے زندہ نہیں رہتیں، بلکہ انہیں سننے والے، سمجھنے والے اور آگے بڑھانے والے درکار ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبات کی اتنی بڑی تعداد میں مشاعرے میں شرکت اس بات کی علامت ہے کہ ہماری نئی نسل محض ڈگری نہیں بلکہ اپنی شناخت بھی چاہتی ہے۔
مہمانِ خصوصی پروفیسر رضیہ سبحان تھیں، جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فیاض شاہین نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیے۔ شعرا میں شازیہ شہناز (لیکچرر)، پروگرام کی منتظمہ عظمیٰ عباسی (ایسوسی ایٹ پروفیسر)، سامیہ ناز، شاہ فہد، شازیہ عالم شازی، گل آفشاں، ہدایت سحر، شبیر نازش اور دیگر شامل تھے، جنہوں نے اپنے کلام سے محفل کو چار چاند لگا دیے۔
کالج کی پرنسپل رضوانہ صدیقی اس ادبی تقریب کی روحِ رواں رہیں۔ ان کی فکری رہنمائی اور ادبی ذوق نے اس پروگرام کو محض ایک تقریب کے بجائے ایک یادگار تجربہ بنا دیا۔ ان کی کاوش اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر تعلیمی اداروں کی قیادت ادب دوست ہو تو کلاس روم کے در و دیوار بھی تخلیقی ہو جاتے ہیں۔
تقریب کا سب سے روشن پہلو یہ تھا کہ 3500 سے زائد طالبات نے اس اردو مشاعرے کو نہ صرف سنا بلکہ دل سے سراہا۔ یہ محض ہجوم نہیں تھا بلکہ ایک زندہ سامعین تھے، جو ہر شعر پر داد بھی دے رہے تھے اور ہر خیال کو اپنے اندر جذب بھی کر رہے تھے۔ یہ منظر اُن تمام خدشات کی تردید تھا جو یہ کہہ کر ظاہر کیے جاتے ہیں کہ نوجوان نسل اردو سے دور ہو چکی ہے۔
آج جب تعلیمی ادارے اکثر نمبروں، فائلوں اور رسمی سرگرمیوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، ایسے میں گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین نارتھ ناظم آباد کا یہ اقدام ایک خوش آئند مثال ہے۔ یہ مشاعرہ اس بات کا اعلان تھا کہ ادب اب بھی زندہ ہے، اور جب ادب زندہ ہو تو معاشرہ بھی زندہ رہتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے پروگرام محض ایک دن کی سرگرمی نہ ہوں بلکہ تعلیمی نظام کا مستقل حصہ بنیں، تاکہ طالبات کتاب سے نکل کر زندگی کو پڑھنا سیکھیں اور لفظوں کے ذریعے اپنے معاشرے سے بامعنی مکالمہ کر سکیں۔
زبردست، گل افشاں اور زبردست شاہ فہد، بڑھتے چلو۔



























