پاکستان میں بدھ مت کے ماننے والے چند آخری خاندان محراب پور سندھ میں خوف کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں ؟ ان کے پاس اپنی عبادت گاہ نہیں ہے ، گھر کے اندر عبادت کرنے پر مجبور ، لوگ انہیں بدھ مت کی بجائے ہندو سمجھتے ہیں ،سرکاری اداروں میں بدھ مت کا اندراج بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے ,حکومت انسانی حقوق کے ادارے اور میڈیا ان کی آواز بن سکتا ہے،جیوے پاکستان ڈاٹ کام کی خصوصی رپورٹ

پاکستان میں بدھ مت کے ماننے والے چند آخری خاندان محراب پور سندھ میں خوف کی زندگی کیوں گزار رہے ہیں ؟ ان کے پاس اپنی عبادت گاہ نہیں ہے ، گھر کے اندر عبادت کرنے پر مجبور ، لوگ انہیں بدھ مت کی بجائے ہندو سمجھتے ہیں ،سرکاری اداروں میں بدھ مت کا اندراج بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے ،خصوصی رپورٹ۔تفصیلات کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں بانی حضرت قائد اعظم محمد علی جنا ح نے تمام اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ اپنے طور طریقوں اور مذہبی رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا اختیار دینے کا اعلان کیا تھا اور بطور پاکستانی شہری ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں بسنے والے ہر شہری کو دین اسلام اور آئین پاکستان کے مطابق تمام بنیادی مذہبی حقوق حاصل ہیں ہمارا معاشرہ مذہبی رواداری تحفظ اور انصاف پر مبنی ہے اور پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتیں محفوظ اور پرسکون ہیں ۔


پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس خطے کا قدیم ترین مذہب بدھ مت اور اس کے ماننے والے پاکستان میں آج بھی بستے ہیں زندہ ہیں اور اپنی عبادات کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں چھپے ہوئے ہیں اور ان کو عام لوگ نہیں جانتے ۔ جیوے پاکستان ڈاٹ کام کی اس خصوصی رپورٹ میں آپ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اہم معلومات تازہ ترین اپڈیٹ اور ان کے ساتھ درپیش مسائل اور ان کی زندگی کے شب و روز کے بارے میں تفصیلات جانیں گے ۔
جس طرح بہت سے لوگ نہیں جانتے تھے کہ کراچی میں یہودیوں کے قبرستان موجود ہیں اسی طرح بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہاں بدھ مت ماننے والے لوگ بھی بستے ہیں زندہ سلامت رہیں اور اپنے مذہب کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں یقینی طور پر زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ بدھ مت کا نام و نشان پاکستان سے مٹ چکا ہے اور اب یہ صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے یا مہنجو دوڑو کے آثار قدیمہ میں ، لیکن حقیقت یہ نہیں ہے سچائی یہ ہے کہ بدھ مت ماننے والے لوگ اس وقت یعنی سال 2025 کے دسمبر میں بھی زندہ سلامت ہیں پاکستان کے صوبہ سندھ میں رہ رہے ہیں صوبہ سندھ میں نوشہر و فیروز کے علاقے محراب پور

میں کچھ غریب اور مفلوق الحال خاندان بدھ مت کے ماننے والے موجود ہیں وہ اپنے گھروں میں بدھا کا مجسمہ رکھ کے اور اپنی مذہبی روایات کے مطابق عبادات کرتے ہیں لوگ نہیں جانتے کہ وہ بدھ مت ہیں علاقے میں اس پاس کے لوگ تو ان کو ہندو سمجھتے ہیں انہیں اپنی پہچان برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ دستاویزی ریکارڈ اور کاغذات میں انہوں نے اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد سرٹیفیکیٹ میں بدھ مت لکھوانے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے ایسے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی عبادت گاہ نہیں ہے جہاں پر وہ جا کر باقاعدہ عبادت کر سکیں اس لیے ان لوگوں نے اپنے گھروں میں چھوٹی چھوٹی عبادات کی جگہ بنا رکھی ہیں اور وہاں پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں اور مذہبی تہوار مناتے ہیں وہ اپنے بچوں کو اپنی مذہبی تعلیمات بھی دے رہے ہیں ان میں سے کچھ لوگ انگریزی بھی بولتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہماری مادری زبان مارواڑی ہے لیکن اب یہ سندھی اور بلوچی اردو اور انگریزی زبانی بھی بولتے ہیں ان کے گھروں میں گوتم بدھ کے سال 2024 کے کیلنڈر بھی موجود ہیں انڈیا سے لائے گئے گوتم بدھ کے چھوٹے مجسمے مورتیاں بھی موجود ہیں جو ان کے لیے مذہبی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں یہ اپنے گھروں پر ہی اپنے مذہبی عقائد اور اپنی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کم و بیش اس مذہب کے ماننے والے بہت سے لوگ سندھ میں رہتے ہیں لیکن ان کی شناخت چھپی ہوئی ہے یا لوگ ان کو ہندو سمجھتے ہیں مہنگائی اور مفلسی کی وجہ سے ان کے اکثر لوگ ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں نہیں رہ پاتے لیکن ایک دوسرے کو جانتے ہیں پہچانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم دوسرے مذاہب میں شادیاں نہیں کرتے اپنے مذہب کے اندر ہی شادی بیاہ کرتے ہیں کم تعداد ہونے کی وجہ سے یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے پاکستان میں بدھ مت کے رہنے والے محراب پور شہر میں رہتے ہیں ان کو کس نے تلاش کیا کون ہے جو ان تک پہنچا اور کس نے سب سے پہلے ان کے بارے میں ان کی تازہ ترین حالات کے حوالے سے پردہ اٹھایا ہے جیوے پاکستان ڈاٹ کام کی اس رپورٹ کے مطابق اس کا سہرا پاکستان کے ایک متحرک فعال اور مشہور یوٹیوبر عارف علی


کے سر جاتا ہے جو یوٹیوب پر دیسی ٹریولر کے نام سے اپنا مشہور چینل چلاتے ہیں ان کے تین لاکھ کے لگ بھگ سبسکرائبرز ہیں اور ان کی بے شمار ویڈیوز دنیا بھر میں بے حد مقبول ہوئی ہیں وہ پاکستان اور دیگر ملکوں کے دورے کر کے مختلف حالات و واقعات شخصیات مقامات دلچسپ اور حیرت انگیز معلومات لوگوں تک پہنچاتے ہیں پاکستان کے شہر محراب پور میں بدھ مت کے ماننے والوں تک سب سے پہلے وہ پہنچے وہ خود اپنی ویڈیو میں بتاتے ہیں کہ اس کے لیے انہیں مہینوں لگے بہت سی معلومات اکٹھی کرنی پڑی بہت ریسرچ کرنی پڑی بہت سی کتابوں اور دستاویزات کو کھنگالا تب کہیں جا کر انہیں پتہ چلا کہ پاکستان میں بدھ مت کے ماننے والے موجود ہیں اور پھر انہوں نے محراب پور کے علاقے میں ان لوگوں کو ڈھونڈ نکالا ان کے گھروں تک پہنچ گئے اور گھر کے اندر ان کی عبادات کو فلم بند کیا ان کے لوگوں سے بات چیت کی ان کے انٹرویوز کیے اور ایک بہت ہی مفصل اور بہت ہی معلوماتی اور حیرت انگیز ویڈیو اپلوڈ کی یقینی طور پر یہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے انہوں نے پاکستان میں بدھ مت کے ماننے والے اخری خاندانوں کو نہ صرف ڈھونڈ نکالا بلکہ ان کی زندگی کے مسائل اور چیلنجوں کو بھی اجاگر کر دیا جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے انتظامیہ اپنی اور اپنے غیرین کی جانب سے دیسی ٹریولر کے عارف علی کو اس شاندار کام پر مبارکباد پیش کرتی ہے اور ان کی مزید کامیابیوں اور نیک کامی کے لیے دعا گو ہے اس رپورٹ کے ذریعے پہلی مرتبہ یہ پتہ چلا کہ پاکستان میں نہ صرف بدھ مت کے ماننے والے لوگ موجود ہیں بلکہ وہ خوف کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں اپنی پہچان کے چیلنج کا سامنا ہے ان کا ایک درینہ مطالبہ اور سب سے بڑا مسئلہ ان کی عبادت گاہ کا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کی عبادت گاہ ہو جہاں وہ جا کر عبادت کر سکیں جس طرح دیگر مذاہب کے لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جا کر عبادت کرتے ہیں محراب پور میں رہنے والے یہ چند لوگ جو بدھ مت کو مانتے ہیں یہ اپنی عبادات اپنے گھروں تک ہی محدود رکھے ہوئے ہیں زیارت لوگ ان کو ہندو سمجھتے ہیں اور ان کو ہندو مذہب کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جبکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہم الگ مذہب ہیں اور ہم سب سے پرانا مذہب ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم کسی اور مذہب کو چھوڑ کر اس مذہب میں نہیں ائے بلکہ ہمارے مذہب کو چھوڑ کر لوگ دوسرے مذاہب میں گئے وہ کسی اور کو کچھ نہیں کہتے لیکن اپنے مذہب کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اپنی مذہبی روایات تعلیمات اور عقائد کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں انہیں اپنے لیے ایک عبادت گاہ کی ضرورت ہے ان کے مالی حالات بھی اچھے نہیں ہیں اور یقینی طور پر ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود سے سب کچھ کر سکیں پاکستان میں اقلیتی برادری یا اقلیتی نمائندگی کرنے والے منتخب اور سرکردہ رہنماؤں کو بھی ان کی جانب توجہ دینی چاہیے اور حکومت پاکستان کے متعلقہ وزارت محکمے کے لوگوں کو بھی ان کی جانب توجہ دینی چاہیے اور ان کے مسائل حل کرنے چاہیے اور ان کو تحفظ اور ضروری مالی تعاون فراہم کرنا چاہیے پاکستان میں اقلیتوں کے بہت حقوق ہیں پاکستان میں اقلیتوں کے لیے سرکاری سطح پر بہت کچھ کیا جاتا ہے اتنے سارے اقدامات ہوتے ہیں ان کے تہوار منائے جاتے ہیں پاکستان کے سربراہ مملکت صدر مملکت اصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف بھی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کرنے اور ان کو مکمل تحفظ فراہم کرنے اور ان کی عبادت گاہوں کو محفوظ رکھنے اور ان کی فلاح و بہبود کے اقدامات پر زور دیتے ہیں اور اس حوالے سے اقلیتی برادری کی مختلف تقاریب اور پروگراموں میں شرکت بھی کرتے ہیں بدھ مت کے لوگوں کی بھی یقینی طور پر یہی خواہش ہے کہ ان کی بھی عبادت گاہ ہو اور ان کے بھی تہواروں میں سرکاری شخصیات شریک ہوں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلی سید مراد علی شاہ خود بھی اقلیتوں کے مذہبی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور ان کے تحفظ اور ان کی فلاح بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے اور اقدامات کیے بھی جاتے ہیں سندھ میں اقلیتی امور کے حوالے سے اقلیتی برادری کے رہنماؤں کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے اور محراب پور میں بسنے والے ان بدھ مت کے اخری خاندانوں کی فلاؤ بہبود کے منصوبے شروع کرنے چاہیے اور ان کو سرکاری سطح پر ہر طرح کی سرپرستی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں کو ہیومن رائٹس اف پاکستان جیسے ادارے کو اس مذہب بدھ مت کے ماننے والوں کے مسائل کو سننا چاہیے سمجھنا چاہیے اور ان کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے
پاکستان میں میڈیا بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے میڈیا کے دوست بھی اپنے اپنے اداروں اور اپنے اپنے انفرادی پلیٹ فارم سے بھی اقلیتی برادری بالخصوص بدھ مت کے ماننے والے ان چند خاندانوں کی آواز بن سکتے ہیں

By Salik Majeed editor jeeveypakistan.com Karachi

=======================