خبر دینے والے خود خبر بن گئے

عزیز سنگھور

گزشتہ روز بول نیوز سے وابستہ سینئر صحافی اور شاعر زاہد حسین کے انتقال کی خبر نے پاکستان کے صحافتی حلقوں کو گہرے دکھ اور صدمے میں مبتلا کر دیا۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کے صدر طاہر حسن خان، جنرل سیکریٹری سردار لیاقت کشمیری اور مجلسِ عاملہ نے اپنے تعزیتی بیان میں مرحوم کے اہلِ خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “بول نیوز میں کام کرنے والے ملازمین کی زندگی اور ذہنی صحت مذاق بن چکی ہے۔”

زاہد حسین کا تعلق کراچی کے علاقے ملیر سے تھا۔ وہ نرم گفتار، سنجیدہ مزاج اور اندر سے گہرے دکھوں کے شاعر تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات تقریباً گیارہ سال قبل ہوئی تھی، جب ہم ایک ہی ادارے میں کام کر رہے تھے۔ ان سے میرا تعارف معروف شاعر و مصنف خالد معین نے کروایا۔ زاہد حسین صحافت کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی ایک الگ شناخت رکھتے تھے۔
انہیں پیپلز پارٹی کے شہید رہنما عبداللہ مراد سے گہری عقیدت تھی۔ وہ ان کے قریبی دوستوں میں شامل تھے، اور جب عبداللہ مراد کو قتل کیا گیا تو زاہد نے ایک نظم لکھی۔ ایک ایسی نظم جو صرف ایک شخص کے قتل پر نوحہ نہیں تھی بلکہ اس سیاسی اور سماجی ناانصافی کے خلاف احتجاج تھی جو آج بھی ہمارے نظام کا حصہ ہے۔

زاہد حسین چند ماہ قبل اپنی فیملی کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد شفٹ ہوئے تھے۔ وہ بول نیوز کے اسلام آباد بیورو میں کام کر رہے تھے۔ مگر انہیں تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا سامنا تھا۔ وہی مسئلہ جس نے سینکڑوں میڈیا ورکرز کو ذہنی اور معاشی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تنخواہیں مہینوں تک رکی رہیں، بلوں کا دباؤ، کرایہ، بچوں کے تعلیمی اخراجات، یہ سب ان کے ذہن پر بوجھ بن گئے۔
اتوار کی شام اچانک انہیں ہارٹ اٹیک ہوا۔ اہل خانہ انہیں پمز اسپتال لے گئے مگر وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔

زاہد حسین کا جانا صرف ایک فرد کا نقصان نہیں، یہ پورے میڈیا پیشے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ نظام اتنا ظالم ہو چکا ہے کہ خبر دینے والے خود خبر بن جائیں؟
آج پاکستان کے نیوز رومز، جو کبھی آزادیِ اظہار کے قلعے سمجھے جاتے تھے، بیگار کیمپ بن چکے ہیں۔ صحافی دن رات کام کرتے ہیں، مگر مہینوں تنخواہیں نہیں ملتیں۔ وہی ہاتھ جو دوسروں کے دکھ لکھتے ہیں، اپنی محرومیوں کے خلاف لب نہیں کھول سکتے کیونکہ ہر طرف “نوکری جانے” کا خوف منڈلا رہا ہے۔

یہ المیہ صرف بول نیوز تک محدود نہیں۔ متعدد چینلز اور اخبارات میں صحافی برسوں سے اپنے واجبات کے منتظر ہیں۔ میڈیا مالکان کروڑوں کے اشتہارات لیتے ہیں، سیاسی جماعتوں کے جلسوں کی کوریج پر وسائل لٹاتے ہیں، مگر اپنے کارکنوں کی محنت کی قیمت ادا نہیں کرتے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ حکومتیں بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جب کوئی صحافی ڈپریشن، غربت یا بیماری سے دم توڑ دیتا ہے تو صرف تعزیتی بیانات جاری ہوتے ہیں۔ کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ اگر صحافت کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے تو اس ستون کو سہارا دینے والے انسان ہیں، مشینیں نہیں ہیں۔

حکومت وقت کو اب صرف “میڈیا پالیسی” بنانے سے آگے بڑھ کر میڈیا ورکرز کے حقوق کی ضمانت دینی ہوگی۔

صحافیوں کی کم از کم تنخواہ کے لیے قانون سازی کی جائے۔
میڈیا اداروں کے خلاف کارروائی ہو جو واجبات روک کر کارکنوں کو ذہنی مریض بنا رہے ہیں۔
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (PID) اور وزارتِ اطلاعات کو اشتہارات صرف ان اداروں کو دینے چاہئیں جو اپنے ملازمین کو بروقت ادائیگی کرتے ہیں۔میڈیا ورکرز کے لیے ہیلتھ انشورنس اور ورک اسٹریس ریلیف فنڈ قائم کیا جائے تاکہ کوئی زاہد حسین محض تنخواہ کی تاخیر کے باعث جان نہ گنوائے۔ زاہد حسین کی موت ایک شاعرانہ دل کا ٹوٹنا تھی۔ لیکن دراصل یہ پورے نظام کی بے حسی کا ماتم ہے۔
وہ چلے گئے، مگر پیچھے ایک سوال چھوڑ گئے ہیں:
“کیا ہم نے اس پیشے کو عزت کے ساتھ جینے کا ذریعہ بنایا یا صرف مرنے کا بہانہ؟”

https://www.youtube.com/watch?v=hQrgXHyloa0

https://www.youtube.com/watch?v=3TYKCHHyWLE

https://www.youtube.com/watch?v=Og1oCCN140c

https://www.youtube.com/watch?v=WQhlhKgdnoc

https://www.youtube.com/watch?v=zF992qgrdRg