زندگی ایک عجیب سفر ہے — خوشیوں، غموں، امیدوں اور مایوسیوں سے بھرا ہوا۔ کبھی یہ راستہ ہموار محسوس ہوتا ہے، تو کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہر موڑ پر کوئی نئی آزمائش ہمارا انتظار کر رہی ہو۔ اکثر لوگ ان اتار چڑھاؤ کو سمجھنے کے بجائے ان سے الجھتے رہتے ہیں، اور اپنی زندگی کے روشن پہلو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں — جیسے اشفاق احمد۔
اشفاق احمد کی کتاب “زاویہ” میں وہ زندگی کے انہی چھپے ہوئے پہلوؤں کو بے حد سادگی اور گہرائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں نہ صرف سوچ بدل دیتی ہیں بلکہ دل کو چھو جاتی ہیں۔
اسی کتاب میں ایک واقعہ ہے —
اشفاق احمد ایک بار ٹرین کے سفر پر تھے، لاہور جا رہے تھے۔ ان کے ڈبے میں ایک بوڑھا آدمی بھی بیٹھا تھا۔ داڑھی بڑھی ہوئی، کپڑے میلے کچیلے اور جسم سے پسینے کی ایک عجیب سی بو آ رہی تھی۔ لگتا تھا جیسے وہ سارا دن مشقت کے کام کرتا رہا ہو۔
طبیعت کچھ ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھی، مگر اشفاق احمد کی عادت تھی کہ لوگوں سے بات کر لیا کرتے تھے۔ تجسس غالب آیا، اور انہوں نے پوچھا:
“بابا، کہاں جا رہے ہو؟”
بوڑھا مسکرایا اور بولا، “گھر۔”
یہ مختصر جواب اتنا بھرپور تھا کہ اشفاق احمد چونک گئے۔ انہیں لگا جیسے اس ایک لفظ میں کئی جہان چھپے ہوں۔
انہوں نے اگلا سوال کیا: “بابا، جوانی اچھی ہوتی ہے یا بڑھاپا؟”
بوڑھا مسکرا کر بولا:
“جوانوں کے لیے بڑھاپا، اور بوڑھوں کے لیے جوانی۔”
اشفاق احمد حیران ہوئے، “یہ کیسے؟”
بوڑھا بولا:
“اگر بوڑھے دوبارہ جوان ہو جائیں تو وہ اپنی پہلی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ اور اگر جوان، بوڑھوں کے تجربے سے سیکھ لیں، تو ان کی جوانی بے داغ گزرے گی۔”
اس عام سے دکھنے والے بزرگ نے ایک ایسی بات کہی جو بڑے بڑے فلسفی بھی شاید اتنے سادہ انداز میں نہ کہہ پاتے۔
یہی تو اشفاق احمد کی “زاویہ” کا حسن ہے — روزمرہ کی چھوٹی باتوں میں چھپے بڑے سبق۔























