احباب گرامی بڑھاپے کا تخیل وہ ٹائم مشین ہے جو بندے کو بٹھا کر جوانی کے سفر پر روز نکل پڑتا ہے ہر روز نیا سٹاپ جہاں آ کر زندگی کی گاڑی کچھ دیر کھڑی ہو جاتی ہے
غالباً انیس سو ستاسی کے گرمیوں کے دن تھے ہماری پوسٹنگ ان دنوں حبیب بینک تاندلیانوالہ ضلع فیصل آباد میں تھی یہ قصبہ اوکاڑہ سے کو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اوکاڑہ اور تاندلیانوالہ میں دریائے راوی پڑتا ھے ہم کبھی بس پر چلے جاتے جوانی کے دن تھےکبھی موٹر سائیکل پر روانہ ہو جاتے شام کو گھر واپسی ہو جاتی ان دنوں اوکاڑہ بابا فرید شوگر مل۔جوبن پر تھی جس کے جنرل مینجر معروف افسانہ نگار رانا شریف آرپن۔تھے انہیں دنوں جدید غزل کا اعتبار جناب ظفر اقبال ابھی لاہوریے نہیں ہوے تھے انہیں کے ہاں ایک نشست تھی تب سلسلہ یوں تھا کہ کبھی ظفر اقبال صاحب اپنے ہاں نشست رکھ لیتے جو گنتی کے احباب پر مشتمل ہوتی تو کبھی رانا شریف آرپن میز بان ہوتے ہر دو کی محبت ہم دونوں جگہ ہوتے
اب ظفر اقبال صاحب کے ہاں نشست کا نیوتا رانا شریف آ رپن۔کو دیا تو کہنے لگے آ پ کو پتہ ہے کہ آ ج کل اوکاڑہ میں ایک بہت عمدہ شاعر بسلسلہ روزگار مقیم ہیں
ہم نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوے عرض کیا رانا صاحب یہ شعبہ حضرت احمد جلیل کا ہے وہی کھوج لگاتے ہیں اس معاملے میں ان کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہےبہر حال اگر آ پ نے سراغ لگا لیا ہے تو فرمائیں
انہوں نے مخبری فرمائی کہ آ ج کل اوکاڑہ ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر محبوب ربانی بہت اچھے شاعر ہیں انہیں بھی بلا لیں رانا صاحب کی سخن شناسی پر ہمارا اعتبار کیا پورا پورا ایمان تھا اگلے دن صبح بینک جانے سے پہلے ہم کوی پونے آ ٹھ بجے میڈیکل کالونی میں ڈاکٹر محبوب ربانی صاحب کی سرکاری رہائش گاہ پر پہنچ گیے بیل دی ملازم باہر آ یا تو ہم نے مدعا بیان کیا ملازم اندر بتانے چلا گیا باہر آ کر بتایا صاحب ذرا اخبار پڑھ رہے ہیں آ تے ہیں دس منٹ بعد پھر یہی جواب اگلے دس منٹ بھی یونہی گزر گیے ہم نے نو بجے تک تاندلیانوالہ برانچ پہنچا تھا دوسرا ہمارے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا ہم نے ملازم کو کہا صاحب کو بتائیں نہ تو ہم ان کے ماتحت ہیں نہ ہمیں ان سے کوی کام ہے ہم شاعر ہیں اور ایک شاعر سے ملنے آ ے ہیں یہ تیر نشانے پر بیٹھا اور تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب باہر آ ے اور آ تے ہی ہم سے بغلگیر ہوگیے
ہم۔بھی عجلت میں تھے زیادہ وقت تو انتظار نے کھالیا سرسری تعارف کے ساتھ دعوت نامہ ڈاکٹر صاحب کے سپرد کیا ساتھ ہی نوکری
کا عذر پیش کیا اور اجازت چاہی
ڈاکٹر صاحب مقررہ تاریخ اور وقت پر رانا صاحب کے ساتھ تشریف لے آ ے تب پتہ چلا کہ وہ ایک شعری مجموعہ پاگل ہوا کے خالق ہیں شاعری اتنی جاندار کہ ظفر اقبال بھی داد دینے پر مجبور ہوگیے
چند اشعار ابھی تک حافظے کے
دامن گیر ہیں
تیری یاد کا زخم امر ہے
باقی پھول تو جھڑ جاتے ہیں
کچے رنگ تمناؤں کے
آ خر پھیکے پڑ جاتے ہیں
تیرے نام پہ وہ محبوب
گہری سوچ پہ پڑ جاتے ہیں
یہی اشعار تھے جنہوں نے ظفر اقبال صاحب کو ڈاکٹر محبوب ربانی کی شاعری پر کالم لکھنے پر اکسایا
ان دنوں ڈاکٹر صاحب کی عمر کوی پچاس سے ایک آ دھ برس زیادہ ہی ہوگی رنگ کھلتا ہوا قد دراز تھوڑے سے فربہی مائل بال پیچھے کی طرف کنگھی کرتے چہرہ پھولا ہوا نقوش ذرا موٹے مگر جاذب پھر ایک نشست رانا شریف صاحب کے ہاں ہوی
وھاں ڈاکٹر صاحب ہم رانا شریف آ رپن۔صاحب اور جناب ظفر اقبال وھاں بھی ڈاکٹر صاحب نے شاعری کے انمٹ نقوش چھوڑے
بگڑ نہ جاے توازن قدم بڑھائے سے
نشیب کا ہے سفر ہاتھ میں عصا رکھنا
کسے خبر تھی یہ تقدیر گاؤں کی ہوگئ
کٹیں گے پیڑ تو تقسیم چھاؤں کی ہوگی
ڈاکٹر صاحب شعر کی ادائیگی کے وقت پوری طرح اسے خود پر طاری کر لیتے
ہم ان دنوں چھڑے چھانٹ تھے ڈاکٹر صاحب نے بھی فیملی نہیں رکھی تھی شام کو ان کے۔سرکاری گھر کے باہر خوب کچہری لگتی ان کے ڈی ایم ایس عتیق لاشاری اور کبھی کبھی چوہدری اسلم صاحب ڈی ایس پی بھی ان نشستوں میں شریک ہوتے جنرل ضیا کا دور تھا سیاسی سماجی اور معاشرتی موضوعات زیر بحث آ تے ایک دن ہمیں کہنے لگے یار میں بڑی اذیت سے گذر کر شعر کہتا ہوں تم تو بڑی سہولت سے کہہ لیتے ہو ہم نے عرض کیا محترم تخلیق کا ہر عمل اذیت سے گذر کے ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ایک دفعہ آ پ شعر کہتے ہوے اذیت سے گزریں اور دوسری دفعہ سناتے ہوے بھی اس اذیت سے گزریں ڈاکٹر صاحب کا آ بای تعلق تو گجرات کے کسی گاؤں سے تھا وہ رورل وزڈم کی چلتی پھرتی مثال تھے دیہاتی زندگی کے کمال قصے سناتے
ایک دن کہنے لگے میں تین چار سال کا تھا میرا باپ روز گار کے سلسلے میں ایران ہوتا تھا وہ سال میں ایک آ دھ بار چھٹی آ تا ہم نانا کے ہاں رہتے تھے میرے نانا کی آ ٹے کی چکی تھی مگر پھر بھی میرے نانا میری ماں سے ہاتھ والی چکی پر گندم پسواتے گھر کا سارا کام بھی میری ماں کرتی جبکہ میری ممانیاں نہا دھو کر اجلے کپڑے پہن کر سجتی سنورتی رات کو میری ماں بے سدھ ہوکر کر چار پای پر گر جاتی یہ سب دیکھ کر میرے چھوٹے سے ذہن میں نانا کے خلاف نفرت پھلنے پھولنے لگی جسکا اندازہ کچھ کچھ میرے نانا کو بھی ہوگیا وہ مجھے بانہوں میں لے کر کہتے اوے تیری ماں میری دھی ہے میرا باپ چھٹی آ یا میرے لیے کھلونے بھی لایا میں نے اپنے والد سے ایک ہی ضد پکڑی ہم نے اپنے گھر جانا ہے مگر میرا باپ ایک مہینے بعد واپس ایران چلا گیا۔اور ہم وہیں نانا کے ہاں ڈاکٹر صاحب کہتے مجھے بڑے ہو کر پتہ چلا میری ماں جوان تھی میرا باپ ایران تھا
جہاں دیدہ نانا روزمرہ کے کاموں میں میری ماں کو تھکا ہی اتنا دیتا کہ چارپای پر گر کے اسے اور کسی چیز کی ہوش ہی نہیں رہتی تھی
آرائیوں اور شیخ برادری کے بڑے مداح تھے کہتے محنتی اور سمجھدار ہیں آ خر میں یہی رہ جائیں گے باقی تو فصل بعد میں اٹھاتے ہیں کورٹ کچہری کے خرچ پہلے شروع ہو جاتے ہیں
ایک دن ہنسے ہوے کہنے لگے یار مسعود میری ماں ہم بہن بھائیوں کو پاس بٹھا کر کہتی پڑھو پڑھو اگر غلطی ہوی تو ٹانگیں توڑ دونگی ہمیں بہت دیر بعد پتہ چلا ہماری تو ماں ہی ان پڑھ ہے
قصے ان کے پاس سنانے کو بہت ہوتے اور داستاں گو بھی کمال کے تھے
اپنے علاقے کے ایک بزرگ کا احوال بیان کرنے لگے کہ ہمارے علاقے کا ایک بزرگ بلا کا بلا نوش تھا ہر وقت نشے میں دھت رہتا مرتے وقت تک نہ چھوڑی بیٹوں کو بلا کر کہنے لگا میری تدفین کے بعد دختر انگور کا ترونکا میری ڈھیری پر لگانا اور میرے افسوس کے لیے آ نے والوں کی سیوہ بھی اسی سے کرنا
وہ بڑا غفور رحیم ہے پالن ہار ہے میں کوی اس کی رحمت سے مایوس تھوڑی ہوں
شام کو ادب پر بات ہو نہ ہو سیاست پر بات ضرور ہوتی تھی ایک دن بیٹھے بیٹھے کہنے لگے
نا کی دا ناکی دا ان کا تکیہ کلام تھا جونیجو گیا محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے وہ تازہ تازہ جنیوا اکارڈ کرکے وطن لوٹے تھے اور پورے گلوب پر ان کی واہ واہ ہورہی تھی ظاہر ہے ہم نے ان سے اختلاف کیا کہ بہتر ہے میڈیکل اور شاعری تک خود کو محدود رکھیں سیاست آ پکا میدان نہیں مسکرا دیے وہی ہوا جنرل ضیا نے کچھ دن بعد جونیجو کی حکومت برخواست کردی
ایک دن پھر بیٹھے بیٹھے کہنے لگے ضیا گیا ہم نے پھر اختلاف کیا کہ جنرل نے چلتی چلتی حکومت چلتی کی کوی رد عمل نہیں ہوا وہ مضبوط ہے کچھ دن بعد ہم اور میاں ظفر اقبال صاحب ان کے دفتر بیٹھے تھے میاں صاحب آٹھ گیے ہمیں کہنے لگے ابھی بیٹھو تھوڑی دیر بعد میدیکل آ فیسر مہر ارشاد ایم ایس کے دفتر کے دروازے پر آ ے اور اطلاع دی ضیا الحق کا طیارہ نہیں مل رہا ڈاکٹر صاحب ڈپٹی کمشنر
آ فس روانہ ہوگیے کاشف مرتضیٰ تب ڈی سی اوکاڑہ تھے خاصی ادب نواز شخصیت
اور ہم پیدل گھرکی طرف رستے میں جگہ جگہ ٹی وی پر قرآنی آیات کی تلاوت ہورہی تھی
پتہ چلا جنرل ضیا الحق کا طیارہ بستی لال کمال خیر پور ٹامیوالی گر کر تباہ ہوگیا ہے
سچی بات ہے ہمیں ڈاکٹر محبوب ربانی سے خوف آ نے لگا دل میں کی بار سوچا ہونہ۔ہو ڈاکٹر صاحب سی آ ی اے یا کے جی بی کے ایجنٹ ہیں اگلی ملاقات میں وہ ہماری پریشانی بھانپ گیے کہنے لگے بھائی یہ قیافہ شناسی تھی اخبار غور سے پڑھ کر سب سمجھ آ جاتا ہے ضرورت غور کی ہے پہلے سنو امریکہ چاہتا تھا جنیوا کا معاہدہ کسی جمہوری حکومت کے توسط سے ہو بھلے لولی لنگڑی ہو معاہدہ ہوگیا تو جونیجو کا کردار ختم اب آ جاؤ ضیا الحق پر ضیا بضد تھا امریکہ کے افغانستان سے نکلنے پر اسلام پسند دائیں بازو کی حکومت بنے جبکہ امریکہ ایسا نہیں چاہتا تھا اس لیے انہوں نے اپنا سفیر بھی مروادیا ایک دن دفتر میں ہمیں خاصی دیر بٹھایا آ خر کھلا کہ آ ج پی ایم کا کھانا ہسپتال میں ہے ہم نے کچھ مزاحمت کی کہ انتہائی غیر مناسب ہے یوں ڈاکٹروں کے کھانے میں شامل ہونا کہنے لگے یار اتنے ڈاکٹروں میں ایک شاعر بھی کھا لے گا تو کیا ہوا خیر ہم کھانے میں شریک ہوے اور پہلی دفعہ ادراک ہوا دوسروں کو احتیاط کی تلقین کرنے والے کھانے کے ساتھ خود کیا کرتے ہیں ڈاکٹر تو ڈاکٹر لیڈی ڈاکٹرز بھی
انہیں دنوں ہماری شادی تھی شادی والے دن وہ حجرہ ایک انکوائری پر گیے بہت ضروری تھی مگر وھاں سے سیدھے ہمارے سسرال بارات میں شرکت کے لیے پہنچے داڑھ میں شدید درد کھانا بھی نہ کھا سکے پھر اوکاڑہ سے ملتان ڈائریکٹر ہیلتھ جا لگے لاہور واپس جاتے ہوے کچھ دیر اوکاڑہ ہمارے ہاں رکتے مریدوں کا میلہ لگ جاتا اوکاڑہ کے سماجی سرکل میں دو نوجوانوں سے ان کے اچھے مراسم تھے ایک چوہدری فیاض الحق ایم این اے چوہدری ریاض الحق کے بھای اور ایک محمد جاوید ہمیں لے کر ایک دو دفعہ ان کے ہاں گیے بھی دونوں تب جوان تھے اور ڈاکٹر صاحب کی بہت عزت کرتے تھے پھر گنگا رام کے ایم ایس رہے وہ اس نظام کے لیے مس فٹ تھے دھیلے کی کرپشن نہیں کرتے تھے اور کرنے بھی نہیں دیتے تھے گنگا رام کے بعد پولیس کے سرجن جنرل لگا دیے گیے ہم لاہور گیے پاکستان وسیم اکرم کی قیادت میں ورلڈکپ کا کواٹر فائنل ہارا تھا سٹاف کے لوگ ہمیں جانتے تھے کہا نہ جائیں صاحب بڑے غصے میں ہیں خیر ہم دفتر میں چلے گیے پوچھا تو پتہ چلا کہ رات کھلاڑی چرس پیتے رہے ہیں انہوں نے میچ بیچا ہے ہم نے عرض کی بھای صاحب کھیل کو کھیل رہنے دیں حرز جاں نہ بنائیں
دفتر کی گاڑی دفتر کھڑی رکھتے ویگن پر گھر جاتے وھاں سے انہیں اس قومی لیبارٹری کا ہیڈ لگا دیا جہاں نمونوں کا ٹیسٹ ہوتا ہے وھاں لاکھوں کی دیہاڑیاں لگتی تھیں ایسے بندے کو کون برداشت کرتا ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ دیر یونیسکو کے ایک ہیلتھ پروگرام کا حصہ رہے
ہمارے چھوٹے بھای حق مغفرت فرمائے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں مسلہ تھا سردیوں میں ان کے پاؤں میں زخم ہوجاتا سوجن ہو جاتی پاؤں میں ریشہ بھر جاتا ایک دن ہم اور ڈاکٹر صاحب اسے سردیوں کی صبح گنگا رام لے گیے ڈاکٹر صاحب نے شلوار قمیض پہنی اوپر کھیسی کی بکل ماری ہم ہسپتال میں کھڑے تھے نوجوان ڈاکٹر بھائی کے گرد کھڑے ہوگے ڈاکٹر صاحب کو طرح طرح کی راے دینے لگے بابا جی یہ کرلو یہ کرلو ہم کڑھ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب تعارف کیوں نہیں کرواتے وہ ہمارا ہاتھ دبا رہے تھے ا چانک ہسپتال کے ایک سینئر رجسٹرار وھاں سے گزرے انہوں نے رک کر ڈاکٹر صاحب کو سلام کیا اور نوجوانوں سے تعارف کروایا ڈاکٹر محبوب ربانی ہمارے سابقہ میڈیکل سپرنٹینڈنٹ جونیئرز کا سننا تھا وہ رفو چکر ہوگے تب ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بتا بعض اوقات جو بات سینرز کی سمجھ نہیں آ تی کسی نوجوان کے ذھن میں آ جاتی ہے اگر میں اپنا تعارف کروا دیتا تو ان لڑکوں نے کھل کر راے نہیں دینی تھی ڈاکٹر صاحب مہینے میں ایک آ دھ چکر اوکاڑہ ضرور لگاتے ہمارے بھائی بھی ان کے نیاز مند تھے کچھ شاعر احباب آ جاتے خوب رونق لگتی
خوراک بہت سادہ اور معمولی پوری ایک روٹی میں نے انہیں بہت کم ہی کھاتے دیکھا
چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلی تھے ایل ڈی اے نے ہاؤسنگ کی ایک سکیم متعارف کروائی ہم نے اس سکیم کے بارے پوچھا تو کہنے لگے میں بھی گجرات سے ہوں چوہدری کوی ایسا کام کرتے ہی نہیں جس میں انکی بجائے عوام کا فایدہ ہو یہی احساسات ان کے شریفوں کے بارے میں تھے
ہماری رہائش گورئمنٹ کالونی والے گھر میں تھی تشریف لائے تو تین چار دن یہیں تھے جو ان کے معمول کے خلاف تھا ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا بھائی صاحب بھابھی سے ناراضگی تو نہیں کہنے لگے نہیں اوے ہم ایک دفعہ پھر پوچھا تو مان گیے آ ہو پتہ چلا کہ اہلیہ کی بھانجی کی شادی ہے ڈاکٹر صاحب نے دس ہزار دیے جو ان کی اہلیہ نے پھینک دیے کہنے لگے میرا ہم زلف پٹواری تھا اب نائب تحصیلدار ہے بیوی کہتی ہے پٹواری کی بیوی پچاس ہزار دے اور ڈائریکٹر ہیلتھ کی بیوی صرف دس ہزار تمہیں پتہ ہے ساری عمر میں نے رزق حلال پر گزارا کیا ہے اور اب تو ریٹائر ہوگیا ہوں خیر پچاس ہزار کا چیک تو میں دے آ یا ہوں مگر خود آ گیا ہوں موبائل تو تب تھے نہیں سمجھا بجھا کے واپس بھیجا ایک ڈیڑھ ماہ گزرا تھا اچانک غیر شعوری پر ایک نمبر مل گیا اٹینڈ ہوا تو ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ ہماری بھابھی تھیں ڈاکٹر صاحب کا پوچھا تو انہوں نے گلوگیر آ واز میں بتایا مہینہ ہوگیا ان کا تو انتقال ہوگیا
صاحبو ہماری زندگی میں دو آ دمی ایسے تھے جب کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو ہمارا دل چاہتا نیت باندھ کے چپ چاپ انہیں سنتے رہیں ایک ڈاکٹر صاحب اور ایک
پروفیسر علی ارشد میر ان کا ذکر یار زندہ صحبت باقی علی ارشد میر بھی کیا آ دمی تھے
ڈاکٹر صاحب کا ہی شعر پھر دوبارہ
تیری یاد کا زخم امر ہے
باقی پھول تو جھڑ جاتے ہیں