سلیم حبیب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شکیل اے خان کی جیوے پاکستان ڈاٹ کام سے خصوصی گفتگو ۔ملاقات محمد وحید جنگ


سلیم حبیب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شکیل اے خان کی جیوے پاکستان ڈاٹ کام سے خصوصی گفتگو ۔ملاقات محمد وحید جنگ

تفصیلات کے مطابق اس خصوصی نشست کے دوران سلیم حبیب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شکیل اے خان نے جیوے پاکستان کے استفسار پر بتایا کہ بنیادی طور پر یونیورسٹی کا چارٹر 2015 میں ملا تھا ابتدا میں اس یونیورسٹی کا نام بیرٹ ہڈسن انٹرنیشنل یونیورسٹی رکھا گیا تھا لیکن اسے قائم کرنے والی اصل شخصیت ہمارے چیئرمین ڈاکٹر سلیم حبیب ہیں یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز نے کہا کہ ہم کب تک لوگوں کو ان کی زندگی کے بعد خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے ان کی کاوشوں اور خدمات کا اعتراف زندگی میں بھی ہونا چاہیے لہذا یونیورسٹی کا نام سلیم حبیب یونیورسٹی رکھنے کا فیصلہ ہوا شروع شروع میں چیئرمین اس سے متفق نہیں تھے لیکن بورڈ آف گورنرز کے اصرار پر وہ راضی ہوگئےتب دوبارہ اسمبلی میں یونیورسٹی کے نام کی تبدیلی کے لیے گئے اور پھر یونیورسٹی کا نام تبدیل کرکے سلیم حبیب یونیورسٹی کر دیا ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ہمیں اجازت 2017 میں ملی اس کے بعد یونیورسٹی میں داخلوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔

دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر سلیم حبیب نے ایک ایجوکیشن فاؤنڈیشن 2008 میں قائم کی تھی جس کے تحت ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دو اسکول اور دو کالج لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے قائم کیے گئے تھے اور اب یونیورسٹی کراچی میں قائم کی گئی ہے ۔پہلے یونیورسٹی کے نام کے ساتھ انٹرنیشنل الفظ لکھا گیا تھا پھر یہ بات سمجھ گئی کہ ہر یونیورسٹی انٹرنیشنل ہوتی ہے لہذا لفظ انٹرنیشنل ہٹا دیا جائے ۔اسمبلی سے نام کی تبدیلی کی منظوری کے بعد ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی جس میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی تشریف لائے ۔ یونیورسٹی کو بنیادی طور پر چارٹر تو 2015 میں ملا ہائر ایجوکیشن کمیشن سے اجازت 2017 میں ملیں یونیورسٹی کا پہلا بیچ صرف 17 سٹوڈنٹ پر مشتمل تھا آج الحمدللہ بارہ سو اسٹوڈنٹس ہیں پانچ فیکلٹیز میں بہترین تعلیم دی جارہی ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپیوٹر سائنس کے شعبوں میں آگے چل کر ایم فل اور پی ایچ ڈی پر وگرام پر تیاری ہو رہی ہے اس کے علاوہ بائیو سائنس کا شعبہ ہے فارم ڈی کا شعبہ ہے انجینئرنگ اور مینجمنٹ سائنسز کے شعبوں پر توجہ دے رہے ہیں


ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ فارمیسی کونسل نے پہلے ہمیں 120 داخلے کی اجازت دے دی تھی بعد میں کہا گیا کہ آپ سو سے زیادہ داخلے نہیں دے سکتے اگلے سال سے سو سے زیادہ داخلے نہیں دیے جائیں گے ۔
اسٹوڈنٹ میں تعلیم کے بجائے ان کو بڑھانے اور بہتر سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پڑھائی کا شوق خود اسٹوڈنٹ میں ہونا چاہیے ہمارے دور میں جامعہ کراچی میں آخری پوائنٹ ساڑھے نو بجے چلا کرتا تھا تب تک اسٹوڈنٹس وہاں بیٹھ کر مہنگی اور نہ ہی آپ کی کتابوں سے استفادہ کیا کرتے تھے جب وہ کتابیں ہماری دسترس سے باہر تھی خریدی نہیں سکتے تھے اس لیے لائبریری میں پڑھتے تھے آج انٹرنیٹ پر اسٹوڈنٹ کے لئے سب کچھ دستیاب ہیں لیکن علم دوستی اور کتابوں سے دوستی ختم ہوگئی ہے جو بچے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ان کی ہم بھرپور سپورٹ کرتے ہیں کوئی بھی بچہ پڑھائی میں اچھا ہوں تو چاہے اس کے حالات کیسے ہیں ہو ہم اس کی مدد کرتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹس کی غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جاتا ہے تاکہ ان میں صحت مندانہ سرگرمیوں کا رجحان پروان چڑھے یونیورسٹی میں ڈیٹنگ سوسائٹی موجود ہے اس کے علاوہ سپلیمنٹ کے اپنی سوسائٹی ہے جو کافی سرگرمیاں پلان کرتے ہیں جمعرات کے دن ہم دو بجے کے بعد کوئی پڑھائی کا پیریڈ نہیں رکھتے تاکہ یہ بچے اپنی سرگرمیوں کو ٹائم دے سکیں ۔
===================================

================================