پاکستان میں یوریا پروڈکشن سے لیکر اسمگلنگ تک بڑے پلیئرز کون ہیں ؟ یوریا اسمگلنگ میں 400 ارب روپے کمانے والے مرکزی کردار کون ؟
تفصیلات کے مطابق ساری دنیا میں یوریا کی شارٹیج کی وجہ سے قیمت آسمان پر ہے جبکہ رواں سال بھی پاکستان میں قیمتوں کے لحاظ سے صورتحال باقی دنیا سے مختلف ہے کسانوں کو سستی یوریا دستیاب بنانے کے لیے حکومت پاکستان یوریا پروڈکشن پلانٹس کو سبسڈی پر گیس دیتی ہے جس کی وجہ سے دس ہزار کی پوری دو ہزار روپے میں کسان کو ملنی چاہیے عالمی مارکیٹ میں
اور پاکستان حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں میں تقریبا آٹھ سے نو ہزار روپے کا فرق بتایا جاتا ہے اس لیے پاکستان میں سبسڈی پر دی جانے والی گیس کے نتیجے میں تیار ہونے والی یوریا سستی ہے اور اسے پابندی کے باوجود بعض عناصر افغانستان اسمگل کرنے میں مصروف رہتے ہیں کسٹمز حکام نے کچھ کوششیں ناکام بنائیں اور یوریا پکڑی گئی مگر بارڈر پر جانے والے ٹرک مختلف سامان خصوصی چاول کے نام پر یوریا کی بوری اسمگل کرتے ہوئے پکڑے جا چکے ہیں ۔گزشتہ سال 2021 میں بھی اس بحران نے سر اٹھایا تھا لیکن حکومت نے بروقت اقدامات نہیں کئے تھے
جس کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے پچھلے تین سال کے دوران اوسط سالانہ ڈیمانڈ پاکستان میں چھ لاکھ میٹرک ٹن بتائی جاتی ہے اور حکومت کی جانب سے پلانٹس کو بلا تعطل گیس فراہم کی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے مطلوبہ پروڈکشن حاصل ہوتی رہی
لیکن گزشتہ سال پر الیکشن ہونے کے باوجود گندم کی کاشت کے موقع پر ملک بھر میں کاشتکاروں کو یوریا کی شارٹیج کا سامنا کرنا پڑا ۔ ویڈیو رپورٹ کے مطابق 50 کلوگرام کے بیک پر جو سترہ سو پچاس روپے کا ریٹ تھا کسان بھائیوں نے ایک ہزار روپیہ زیادہ ا دا کرکے اسے خریدا ۔ اس بلیک مارکیٹنگ میں کافی لوگوں نے پیسہ بنایا ۔
افراتفری مچی اور خریداری بڑھ گئی تو کچھ لوگوں نے پیسہ پھینکا اور مال ذخیرہ کر لیا ۔ ذخیرہ اندوزی سے زیادہ منافع کمانے کا لالچ لوگوں کے ذہن میں تھا لہذا مصنوعی قلت پیدا کر کے گولیاں مہنگے داموں بیچنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔
اکتوبر 2001 اس میں حکومت نے ایک لاکھ ٹن یوریا امپورٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن کسی نے ٹینڈر کا جواب نہیں دیا بالآخر دنیا میں کیمیکل یا کے سب سے بڑے ایکسپورٹر چین نے ہماری مشکلات سے ہمیں باہر نکالنے کا فیصلہ کیا اور مارکیٹ ریٹ سے 600 ڈالر فی ٹن مزید سستا ریٹ دے کر ہماری مشکلات میں کمی پیدا کی 50 ہزار ٹن آم کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ نے کے حوالے سے اندازہ لگایا گیا تھا کہ فروری 2022 میں پاکستان میں چار عشاریہ چار ملین ٹن سرپلس ہو جائے گا اور مارچ میں 8.2 ملین ٹن ہو جائے گا ۔
لیکن اس کے باوجود مشکلات میں کمی نہیں آ سکی اور مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں
اب تازہ اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر بڑے پیمانے پر یا بیرون ملک سے خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ جس پر مقامی پروڈکشن پلانٹ سے وابستہ شخصیات اور ملکی ضروریات اور پروڈکشن کے تناسب پر گہری نظر رکھنے والے حیران ہیں کہ آخر حکومت امپورٹ کی طرف کیوں جا رہی ہے ۔ جب پروڈکشن ملک کی ضرورت کے مطابق بلکہ زیادہ ہے تو پھر امپورٹ کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ؟
یوریا پروڈکشن اور کھپت سے وابستہ شخصیات کا بتانا ہے کہ اس کی اور کوئی وجہ سامنے نہیں آئی سوائے اس کے کہ یوریا آپ کے ملک سے کہیں اور اسمگل ہو رہی ہے اور اس کا سب سے بڑا راستہ افغانستان ہے یا تو یہ یوریا افغانستان کے لیے اسمگل ہوگی یا افغانستان سے بھی اور آگے جائے گی ۔ انٹرنیشنل مارکیٹ اور پاکستان کی مقامی سبسڈی کی قیمت کی وجہ سے یوریا کی قیمتوں میں جو نمایاں فرق ہے وہ اسمگلنگ کی بڑی وجہ بن رہا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یوریا کی پروڈکشن سے لے کر اسمگلنگ تک بڑے پلیئرز کو ن ہیں ؟ یوریا بارڈر پار کیسے چلی جاتی ہے ؟ اسمگلنگ روکنا کس کا کام ہے ؟ پچھلے سال پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر صوبائی حکومت سندھ پر الزام لگاتے رہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت وفاق سے تعاون نہیں کر رہی ۔ حالانکہ وفاقی وزراء یہ بات بھول گئے کہ بارڈر پر وفاق کا کنٹرول ہوتا ہے ۔
طورخم بارڈر پر کسٹم حکام نے اطلاع ملنے پر ایک ٹرک سے 39 ٹن کے سات سو اسی بیگ برآمد کیے ۔ کنسائنمنٹ کا مالک اجمل خان اور ڈرائیور انور 29 افغان باشندے تھے یوریا چاول کے نام پر افغانستان اسمگل کی جا رہی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ طورخم سے پہلے جمرود میں اس گاڑی کو این ایل سی نے الیکٹرونک اسکرینگ میں کلیئر کر دیا تھا ۔
پاکستان میں یوریا کے بڑے پروڈکشن پلیئرز میں اینگرو فاطمہ اور فوجی فرٹیلائزر نمایاں نام ہیں مینوفیکچرز کو حیران ہیں کہ حکومت اسمگلنگ روکنے پر توجہ دینے کی بجائے امپورٹ پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مارکیٹ کے لوگوں کا بتانا ہے کہ یوریا کا ایک ٹرک اگر یوریا اسمگل کر کے افغانستان پہنچ جاتا ہے تو 80 لاکھ روپے کا فائدہ ہوتا ہے ۔اب آپ خود سوچیں ہے کہ کتنے ٹرک جاتے ہیں ؟
مارکیٹ کے لوگوں کا اندازہ ہے کہ تین لاکھ 43 ہزار ٹن یوریا افغانستان اسمگل کی جا چکی ہے ۔
مارکیٹ کے لوگوں کا اندازہ ہے کہ چار سو ارب روپے کمائے گئے ہیں اتنی بڑی کمائی میں مرکزی کردار کون ہیں اور ان کے حوالے سے کون ایکشن لے گا ؟
(جاری ہے )
==============================================