میری زندگی میں ایک دن | امرود فروٹ فارم | امرود کی کٹائی | واٹر پمپ کی تنصیب

میری زندگی میں ایک دن | امرود فروٹ فارم | امرود کی کٹائی | واٹر پمپ کی تنصیب

ایک دن کی کہانی: امید، محنت اور انسانیت

صبح کی روشنی پھیلتے ہی علی منور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ آج کا دن بھی عام دنوں کی طرح مصروفیت سے بھرپور تھا۔ وہ مریوا سے میرپور خاص کے لیے نکلے، جہاں انہیں کئی اہم کام نمٹانے تھے۔ سفر کے دوران انہوں نے اپنے ناظرین کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا ایک جھلک دکھانے کا فیصلہ کیا۔ موسم کچھ زیادہ ہی گرم تھا، لیکن بارش کے آثار بھی نظر آ رہے تھے۔ علی منور نے اپنے والد زید کے ساتھ بازار کا رخ کیا، جہاں انہیں ایک بیوہ خاتون کے لیے سلائی مشین خریدنے کا کام تھا۔ انہوں نے عبدالرحمان بھائی سے بات کی اور مشین کے لیے مناسب رعایت کا بندوبست کیا۔ یہ ان کی پہلی منزل تھی۔

دوسری منزل پر وہ شکرپورہ پہنچے، جہاں انہوں نے بریانی کے لیے ڈبے خریدے۔ رمضان کے دوران غریبوں میں کھانا تقسیم کرنے کا ان کا معمول تھا۔ انہوں نے دکاندار سے بات چیت کی اور مناسب قیمت پر ڈبے خریدنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کام تھے، لیکن ان کا مقصد بڑا تھا۔

تیسری منزل پر علی منور مریوا کے ایک محلے میں پہنچے، جہاں ایک لڑکی کی تعلیمی کامیابی پر انہیں تحفہ دینا تھا۔ لڑکی کے گھر والوں سے ملاقات ہوئی، لیکن لڑکی اس وقت گھر پر نہیں تھی۔ علی منور نے فیصلہ کیا کہ وہ اگلے دن اس کے اسکول جا کر ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد وہ مریوا شہر کے چند مناظر دکھانے کے لیے وہاں سے نکلے۔

راستے میں انہوں نے ایک امرود کے باغ کا رخ کیا۔ باغ میں مزدور امرود توڑ رہے تھے، اور انہیں درجہ بندی کے بعد پیک کیا جا رہا تھا۔ علی منور نے باغ کے مالک عبداللہ سے بات کی، جو ہر سال امرود کی فصل کو ٹھیکے پر لیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ امرود کی کوالٹی کے مطابق انہیں مارکیٹ میں مختلف قیمتیں ملتی ہیں۔ کبھی فائدہ ہوتا ہے، تو کبھی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ باغ میں کچھ بیر کے درخت بھی تھے، جو کافی بڑے اور پکے ہوئے تھے۔

باغ سے نکل کر علی منور ایک ایسی کالونی کی طرف روانہ ہوئے، جہاں ہینڈ پمپ لگائے جا رہے تھے۔ یہ علاقہ پانی کی شدید قلت کا شکار تھا، اور غریب لوگوں کی بستی تھی۔ علی منور نے وہاں ایک ہینڈ پمپ لگوانے کا بندوبست کیا تھا۔ انہوں نے مقامی لوگوں سے بات کی اور ان کی مشکلات سنیں۔ اسکول کی حالت دیکھ کر انہیں بہت دکھ ہوا۔ اسکول کی عمارت ٹوٹی پھوٹی تھی، اور واش روم کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ علی منور نے فیصلہ کیا کہ وہ اسکول کی مرمت کے لیے بھی کچھ اقدامات کریں گے۔

ہینڈ پمپ لگانے کے بعد علی منور نے ایک غریب خاندان کو راشن فراہم کیا۔ یہ خاندان کئی دنوں سے مشکلات کا شکار تھا۔ علی منور نے انہیں کچھ رقم بھی دی، تاکہ وہ اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کر سکیں۔ انہوں نے غریبوں میں بریانی بھی تقسیم کی، جو ان کا رمضان کے دوران کا معمول تھا۔

دن کے اختتام پر علی منور گھر واپس آئے۔ انہوں نے اپنے ناظرین کو بتایا کہ وہ اگلے دن بھی اسی طرح کے کاموں میں مصروف رہیں گے۔ انہوں نے اپنے ناظرین کا شکریہ ادا کیا اور اگلے دن ملنے کا وعدہ کیا۔