
کراچی (28اکتوبر2025)آج حصار فائونڈیشن کے زیر اہتمام کراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ میں دو روزہ ساتویں کراچی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس (کے آئی ڈبلیو سی) کا آغاز ہوا جس کا عنوان تھا’’پانی‘ عوام ‘ صحت‘ سیلاب سے نمٹنا۔‘‘کانفرنس میں پانی کے تحفظ، صحتِ عامہ اور موسمیاتی مطابقت کے حوالے سے اجتماعی فکری و عملی حل تلاش کے لئے حکومتی نمائندے، بین الاقوامی ماہرین، سول سوسائٹی کے رہنما، نجی شعبے کے نمائندے، ماہرین تعلیم اور نوجوان شریک ہوئے ۔
افتتاحی سیشن میں پانی، خوراک اور معاش کے شعبوں کے مؤثر استعمال میں بطور ایک اہم تنظیم حصار فاونڈیشن کے کردار اور ارتقاء پر روشنی ڈالی گئی۔ اپنے کلیدی خطاب میں حصار فاونڈیشن کی بانی اور چیئرپرسن سیمی کمال نے کہا”یہ کانفرنس ایک ایسے نازک موڑ پر منعقد کی جارہی ہے ‘ جب فطرت پر مبنی حل کی طرف واپسی پر سنجیدہ غور ناگزیر ہو چکا ہے۔سیمی کمال نے “تھنک گلوبل‘ ایکٹ لوکل” سے “تھنک لوکل‘ ایکٹ گلوبل” کی مثالی تبدیلی کے بارے میں بھی بات کی ۔
بعد ازاں پنجوانی چیریٹیبل فاؤنڈیشن اینڈ ٹرسٹس کی بانی اور منیجنگ ٹرسٹی نادرہ پنجوانی نے پنجوانی حصار واٹر انسٹی ٹیوٹ کو پاکستان کی سب سے بڑی واٹر ریسرچ سہولت میں تبدیل کرنے پر روشنی ڈالی۔حصار فاؤنڈیشن کے سابق چیئرمین اشرف کپاڈیا نے فاؤنڈیشن کے دو دہائیوں کے سفر پر روشنی ڈالی۔
اجلاس کے اختتام پر خارچہ تعلقات کی ڈائریکٹر ثنا کوثر نے 2013 میں کراچی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس کے آغاز سے لے کر آج تک کے سفر پر روشنی ڈالی اور سیمی کمال نے ساتویں کے آئی ڈبلیو سی ایجنڈے ‘ اس کے موضوع ‘ ساخت اور سیشنز کے تسلسل کی تفصیلی وضاحت پیش کی ۔ 
دوسرا عمومی اجلاس “سیلاب سے متعلق شہریوں کا کمیشن: پانی، لوگوں اور صحت پر اثرات” کے عنوان سے منعقد ہواجس کی صدارت سینیٹر مشاہد حسین نے کی۔ یہ پراثر سیشن نوجوانوں کے خیالات اور آواز کو سننے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا تاکہ کانفرنس کے مرکزی موضوع “پانی، لوگ اور صحت” کی اہمیت اور اس کی پاکستان اور وسیع تر خطے سے وابستگی کو اجاگر کیا جا سکے۔



اس اجلاس کو ’’سوسائٹی کے خلاف ایک چارج شیٹ‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا جس کا آغاز ایک ویڈیو سے ہوا جس میں یہ سوال دراز کیا گیا “آپ ہمارے لیے کیسی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟”
اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے اجاگر کرتے ہوئے اور ان کے منفی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے احسان لغاری‘ رافع عالم‘ یاسمین قاضی‘ نعمان احمد‘ عافیہ سلام‘ حماداین خان اور سیدہ ملائکہ زہرہ نے اظہارِ خیال کیا۔اجلاس کے اختتام پر کمیشن کے اراکین سینیٹر جاوید جبار` سینیٹر مشاہد حسین اور سیمی کمال نے گفتگو کو سمیٹا۔جاوید جبار نے اس بات پر زور دیا کہ مقامی حکومت کو اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔


مشاہد حسین نے نشاندہی کی کہ پاکستان ہر قدرتی آفت کے بعد تین سی کے ساتھ ہمیشہ ایک ہی طرزِ عمل اختیار کرتا ہے یعنی
Condolence (تعزیت)
Compensation (معاوضہ)
Commitment (غیر ملکی امدادی اداروں کے وعدے)
انہوں نے کہا کہ ملک اب تک یہ سبق نہیں سیکھ سکا کہ طویل مدت میں یہ طرزِ عمل ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
علاوہ ازیں “پانی برائے عوام‘پانی برائے صحت اور پانی میں انصاف” کے موضوعات پر مختلف سیشنز منعقد ہوئے۔ ان نشستوں میں زیر بحث آنے والے موضوعات میں صحت اور غذائی تحفظ‘نجی شعبے کا کردار برائے پانی‘ پانی سے پھیلنے والی بیماریاںاور سندھ طاس معاہدہ اور پانی کی تقسیم کا معاہدہ شامل تھے ۔ان نشستوں کے نمایاں مقررین میں ڈاکٹر پرویز امیر‘ ڈاکٹر اولاد حسین‘ ڈاکٹر اقصی بحری‘ جوہان گیلی‘ ڈاکٹر فضیلدہ نبیل‘ ڈاکٹر محمد اشرف‘ ڈاکٹر جے داس‘ بشیر انجم‘ فرح ناز‘ محمود نواز شاہ‘ ڈاکٹر سونیا مرشد‘ علی توقیر شیخ‘ فواد سومرو‘ نازش شیخا‘ عامر مسعود‘ وقار حسین‘ عمران اسلم‘ عائشہ عزیز‘ شاہ رخ ندیم‘ ثمین آخوند‘ ڈاکٹر ڈی ایس اکرام‘ شازینہ مسعود‘ ڈاکٹر عافیہ ظفر‘ ڈاکٹر ظاہر گل‘ ڈاکٹر عابد امان برکی‘ ڈاکٹر لبنیٰ ناز‘ ڈاکٹر سید عزیزالرب‘ ناصر پنہور ‘رشیدہ دوحاد اور فیض کاکڑشامل تھے ۔
Load/Hide Comments























