
میرا نام نوکیا 3310 ہے
جی ہاں وہی جسے زمین پر پھینکو تو زمین کو چوٹ لگتی تھی، بیٹری نکالو تو دیوار کا رنگ اتر جاتا تھا۔
میں نے وہ دور دیکھا ہے جب موبائل رشتے جوڑتا تھا، توڑتا نہیں تھا۔ جب میری گھنٹی بجتی تھی تو دل خوش ہو جاتا تھا، آج کل موبائل بجے تو دل میں شک اور آنکھوں میں شکایت آ جاتی ہے۔
میں جتنا بھی جیا، عزت سے جیا۔
آزادی سے گرا، ہر جگہ پڑا رہا، پھر بھی کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نوکیا گندے میسجز کر رہا ہے یا کسی کا ڈیٹا لیک ہو گیا ہے۔
آج کل کے موبائل میرے پڑپوتے ہیں، مگر ان کی حرکتیں ایسی ہیں جیسے شوہر بیوی سے موبائل چھپاتا ہے، بیوی شوہر سے پاس کوڈ چھپاتی ہے!
بھائی کو کال کرنی ہو تو بہن فون ایسے دیتی ہے جیسے قرض دیا ہو، اور سامنے کھڑی رہتی ہے جیسے کوئی پولیس کی نگرانی ہو!
میرے بچوں!
مجھے پرانا مت سمجھو، میں خالی نمبر ڈائل کرتا تھا، دلوں کو تکلیف نہیں دیتا تھا۔
میرا کوئی فیس بک نہیں تھا، پھر بھی چہرے پہ خوشی رہتی تھی۔
کوئی انسٹا نہیں تھا، پھر بھی لمحے قیمتی لگتے تھے۔
کوئی اسنیپ چیٹ نہیں تھا، مگر ہر یاد پکی ہوتی تھی۔
میں تمہیں یہ سمجھانے آیا ہوں کہ موبائل تمہارے ہاتھ میں ہو، مگر تمہارے کردار پر نہ چڑھ جائے۔
تمہاری انگلیاں اسکرین پر گھومیں، مگر تمہاری نظریں کسی کی عزت پر نہ جا پہنچیں۔
یاد رکھو، ترقی وہی ہے جو اخلاق کے ساتھ ہو — ورنہ تم صرف ایک سمارٹ بےوقوف ہو۔























