جامعہ کراچی: شعبہ بائیوکیمسٹری کے زیر اہتمام ای-پوسٹر مقابلہ بعنوان ”آئیے صحت مند بنیں: آگاہی سے عملی اقدامات تک“
ہمیں خودفریبی سے نکل کر عملی دنیا کی حقیقتوں کا سامنا کرنا چاہیئے،حقیقت سے انکار کے بجائے اسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ ہمارے معاشرے کی ایک بڑی تعداد بدقسمتی سے آج بھی سائنسی حقائق کو نظر انداز کرتی ہے اور بیماریوں کی بروقت تشخیص کو اہمیت نہیں دیتی، جس کے نتیجے میں کئی جان لیوا امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے کہ ہم اکثر اس وقت کسی بیماری کی تشخیص کرواتے ہیں جب وہ ناقابلِ علاج مرحلے میں داخل ہوچکی ہوتی ہے۔اس حوالے سے معاشرے میں آگاہی کے فروغ کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ لوگوں کو صحت کے بنیادی اصولوں اور سائنس کی اہمیت سے آگاہ کیا جاسکے۔ان خیالات کا اظہارانہوں شعبہ بائیوکیمسٹری جامعہ کراچی کے زیر اہتمام آڈیوویژول سینٹر جامعہ کراچی میں منعقدہ سیمینار اور ای-پوسٹر مقابلہ بعنوان ”آئیے صحت مند بنیں: آگاہی سے عملی اقدامات تک“سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر خالد عراقی نے نوجوان طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خودفریبی سے نکل کر عملی دنیا کی حقیقتوں کا سامنا کرنا چاہیئے، جہاں سائنسی تحقیق، ٹیکنالوجی اور آگاہی ہی ترقی کا راستہ ہیں۔ تعلیمی اداروں کو چاہیئے کہ وہ نہ صرف تعلیم بلکہ صحت عامہ، سائنسی شعور اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ہمیں حقیقت سے انکار کے بجائے اسے تسلیم کرنے اور اس کے مطابق اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انڈس اسپتال کے کنسلٹنٹ نیوٹریشنسٹ ڈاکٹر انیس عالم نے ”ذہنی دباؤ کا انتظام: ایک فلاحی طرزِ زندگی کا نقط? نظر” کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو ذہنی دباؤ سے نجات کے لیے خود کی دیکھ بھال کو ترجیح دینی چاہیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ متوازن اور غذائیت سے بھرپور خوراک نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی صحت کے لیے بھی ازحد ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ورزش اور یوگا ذہنی دباؤ اور بے چینی کو کم کرنے میں نہایت مؤثر ہیں، جب کہ یوگا سائنس کی مشقیں جسم و ذہن کو سکون فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مثبت سوچ، بھرپور نیند اور روزمرہ کی جسمانی سرگرمیاں ذہنی صحت کو مستحکم بنانے کے بنیادی عوامل ہیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ بائیوکیمسٹری کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عریشہ سلیمان نے ”دائمی بیماریوں کا علاج ممکن ہے: حقیقت یا فسانہ؟” کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے اس غلط فہمی کو رد کیا کہ دائمی امراض ناقابل علاج ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مناسب علاج، متوازن غذائیت، اور معدنیات کی درست مقدار سے ان بیماریوں پر مؤثر انداز میں قابو پایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عریشہ نے عالمی سطح پر صحت کے بوجھ اور متعلقہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ معدنی کمی اور زہریلے مادے کئی دائمی بیماریوں کی بنیادی وجوہات ہیں، لہٰذا صحت مند غذائی عادات اپنانا نہایت ضروری ہے۔
سیدہ ادیبہ رضوان نے جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ جذباتی ذہانت ذاتی نشوونما، بہتر فیصلہ سازی اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صلاحیت فرد کو اپنے جذبات کو سمجھنے، کنٹرول کرنے اور دوسروں کے ساتھ مؤثر انداز میں روابط قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔قبل ازیں صدرشعبہ بائیوکیمسٹری جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شمیم اختر قریشی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی صحت کو فعال اور متحرک رکھنا ہر فرد کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے سست طرزِ زندگی سے اجتناب، روزانہ کی جسمانی سرگرمی، ذہنی دباؤ میں کمی، نیند کی مکمل مقدار (7 تا 8 گھنٹے)، اور خون میں شوگر، کولیسٹرول و ٹرائی گلسرائیڈ کی سطح کو قابو میں رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے صحت مند غذا، وزن پر قابو، اور تمباکو نوشی سے پرہیز کی بھی سختی سے تاکید کی۔
مارننگ پروگرام میں فائنل ایئر کی طالبات زمائشہ، عامر، حریم ارشد، اور جوتی بائی شرمین محمود کو تھیلیسیمیا کے موضوع پر بہترین ای-پوسٹنگ پیش کرنے پر کیش انعامات سے نوازا گیاجبکہ ایوننگ پروگرام میں فائنل ایئر کی ہونہار طالبات جویریہ عبدالرشید، عمارہ مرتضیٰ، سیدہ منیظہ، اور نمرہ اکرام کو ”لنگز کارسینوما” اور ”برونکوجینک کارسینوما” جیسے اہم موضوعات پر شاندار ای-پوسٹنگ اور عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے پر کیش پرائز دیے گئے۔























