آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ادبی کمیٹی (شعرو سخن ) کے زیر اہتمام ”یوم لیاقت“ پر تقریب کا انعقاد

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ادبی کمیٹی (شعرو سخن ) کے زیر اہتمام ”یوم لیاقت“ پر تقریب کا انعقاد

لیاقت علی خان اچھے مذاکرات کرانے کے ماہر تھے، محفوظ النبی خان

ہمیں نوجوانوں کو اپنے ہیروز کے ساتھ جوڑنا ہوگا، کشور زہرا

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ادبی کمیٹی (شعرو سخن ) کے زیر اہتمام ”یوم لیاقت“ کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد گل رنگ ہال میں کیاگیا، جس میں محفوظ النبی خان نے صدارت کی جبکہ اظہارِ خیال کرنے والوں میں خواجہ رضی حیدر ، اقبال یوسف ،کشور زہرا، ڈاکٹر نوشین وصی اور انیس شیخ شامل تھے، نظامت کے فرائض فائز علی خان دیے۔ تقریب میں علمی و ادبی شخصیات کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ محفوظ النبی خان نے صدارتی خطبے میں کہاکہ کوئی بھی سیاست دان ہو اس پر تنقید کی جاتی ہے مگر لیاقت علی خاں بہت اچھی طرح مذاکرات کرتے تھے، آج لیاقت علی خاں کی شہادت کا دن ہے، میں تمام آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں،نواز شریف کے دور میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں نو تعمیر اسلام آباد ائیرپورٹ کو لیا قت علی خاں کا نام دینے کی اجازت دی گئی، کوئی بھی انسٹیٹیوٹ ہو ان کا نام پاکستان کے ان لوگوں کو جاتا ہے جو متحدہ پاکستان کے کسی منصب پر فائز ہوں۔ سیاسی رہنما کشور زہرا نے کہاکہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے لیے بہت قربانیاں دی ہیںاگر ان کی خدمات کا موازنہ کریں تو ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، تحریک پاکستان کی تاریخ کے اوپر ایک دھند ہے ، میں لاہور کے ایک میوزم گئی وہاں ہجرت کرنیوالے لوگوں کے حوالے سے بہت کچھ تھا مگر قومی ہیروز کی تصاویر نظر نہیں آئیں۔ ہمیں نوجوانوں کو اپنے ہیروز کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ نوشین وصی نے کہاکہ اہل علم کی محفلوں میں بہت ساری ایڈیشن نہیں ہوتی ، ہمارے ہاں تعلیم کو کمانے کا ذریعہ بنا دیا گیا، قائد اعظم اور لیاقت علی خان ایک زمانہ ہے ، اب وہ ریاست تبدیل ہو گئی، ہم ٹی وی پر مخصوص چیزیں دکھاتے ہیں، تاریخ سے سبق سیکھ کر موجودہ حالات کو بہتر کیا جائے ، ہمیں آگے بڑھنے کے بارے میں سوچنا ہوگا تاکہ ملک کو کچھ فائدہ پہنچ سکے۔اقبال یوسف نے کہاکہ شہید ملت لیاقت علی خان نے 11 اگست 1947ءکو پاکستانی پرچم متعارف کروایا اور یہ وعدہ کیاکہ ہم عالم اسلام کی نمائندگی کریں گے ، امن او رخوشحالی کے ساتھ رہیں گے ، ہم اس ملک میں پاکستانی، پنجابی، بلوچ سمیت قومیت میں بٹ کر رہ گئے ہیں، ہم شرمندہ ہیں جو نظامِ انہوں نے بنایا اس پر ہم ایک فیصد بھی عمل نہیں کر سکے ۔ ہم اپنے بچوں کو کونسا پاکستان دے کر جا رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں ہمیں شہید ملت کی قربانی کو نہیں بھولنا چاہیے۔ انیس شیخ نے کہاکہ ایک ایسی نسل ہے جو جانتی ہے ہندوستان کی تقسیم اور ہجرت کیسے ہوئی؟ لیاقت علی خاں کا کردار کیا تھا؟ اور ایک نسل جین زی ہے جن کو کسی کا کچھ معلوم نہیں ، لیاقت علی خاں پر آخری کتاب 1970میں لکھی گئی، تمام ادیبوں کو ان پر جدید طریقے سے کتاب لکھنی چاہیے ، سندھ میں لیاقت علی خاں پر پروگرامز منعقد ہورہے ہیں ، میری آرٹس کونسل سے گزارش ہے کہ نوجوانوں کو تقریب کا حصہ بنائیں تاکہ انہیں ہمارے قومی ہیروز کے بارے میں پتا ہو۔