55 سال بعد گمشدہ بچی کے اہلِ خانہ کی خاموشی ٹوٹ گئی

آسٹریلیا میں 55 سال قبل لاپتہ ہونے والی برطانوی نژاد تین سالہ بچی کے اہلِ خانہ نے طویل خاموشی کے بعد بالآخر لب کشائی کر لی ہے۔ اہلِ خانہ نے مشتبہ شخص کو دوٹوک الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر اس نے بدھ کی رات تک سچائی بیان نہ کی تو اس کا نام عوام کے سامنے لایا جائے گا۔

برطانوی میڈیا کے مطابق، 1970 میں تین سالہ شیریل گرمر اپنی والدہ اور تین بھائیوں کے ہمراہ آسٹریلیا کے ایک ساحلی علاقے میں سیر کے لیے گئی تھی، جہاں سے وہ اچانک لاپتہ ہو گئی۔ کئی دہائیوں کی تفتیش کے باوجود نہ تو اس کی لاش ملی اور نہ ہی کوئی حتمی سراغ۔

ابتدائی تحقیقات کے دوران پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو اغوا اور قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا، تاہم 2019 میں ناکافی شواہد کی بنا پر کیس بند کر دیا گیا۔
ملزم مرکری نے اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ واقعے کے وقت وہ نابالغ تھا۔

دوسری جانب مغوی بچی کے بھائی رِکی نیش کا کہنا ہے کہ اب مزید انتظار ممکن نہیں، “ہم نے بہت صبر کر لیا، اب سچ سامنے آنا چاہیے۔”
ان کے مطابق، اگر مرکری وضاحت نہیں دیتا کہ اسے پولیس کے بیان میں شامل اہم تفصیلات کیسے معلوم تھیں، تو خاندان خود حقیقت عوام کے سامنے لائے گا۔

شیریل کے اہلِ خانہ نے پولیس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات میں سنگین غفلت برتی گئی۔
ان کے بقول، “پچاس برس سے زیادہ گزر گئے، مگر ہمیں صرف جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ کیس دوبارہ کھولا جا رہا ہے، اور کبھی ایسی معلومات پر وقت ضائع کیا جاتا ہے جن کا کوئی مقصد نہیں۔”

اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ شیریل گرمر کی گمشدگی کا اصل راز کھلے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔