شہدائے کارساز — جمہوریت
کے استعارے !!!!!!
تحریر:میر چنگیز خان جمالی

(سابق صدر
پیپلز پارٹی بلوچستان)
18 اکتوبر ہماری قومی تاریخ کا وہ باب ہے جو قربانی، عزم، وفاداری اور جمہوریت کے استحکام کی روشن داستان بن کر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ دن پیپلز پارٹی کے اُن جیالوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اپنی محبوب قائد محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبال کے موقع پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی محض ایک سیاسی جماعت نہیں، بلکہ ایک نظریہ اور عوام کے حقِ حکمرانی کی علامت ہے۔
18 اکتوبر 2007 کو جب محترمہ بینظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹیں تو لاکھوں کارکن اُن کے استقبال کے لیے سمندر کی طرح سڑکوں پر اُمڈ آئے۔ مگر اسی دن دشمنانِ جمہوریت نے کراچی کی سرزمین کو لہو میں نہلا دیا۔ کارساز پر ہونے والے دہشت گرد حملے نے سینکڑوں معصوم کارکنوں کی جانیں لے لیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان جیالوں نے خوف کے سائے میں بھی وفاداری کا پرچم بلند رکھا۔ ان کے خون سے جمہوریت کی جڑیں مزید مضبوط ہوئیں اور پارٹی کے نظریے کو نئی زندگی ملی۔شہدائے کارساز نے یہ ثابت کر دیا کہ پیپلز پارٹی کا رشتہ عوام سے خلوص، جدوجہد اور قربانیوں سے بندھا ہوا ہے۔ ان کی قربانیاں اس امر کی روشن گواہی ہیں کہ آمریت کے مقابلے میں ہمیشہ پیپلز پارٹی نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا۔ چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت ہو، محترمہ بینظیر بھٹو کا عدالتی و سیاسی استحصال ہو یا کارساز کے شہداء کا خون ہر دور میں پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی شمع کو بجھنے نہیں دیا۔
آج جب ہم شہدائے کارساز کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں تو یہ صرف ماضی کی یاد نہیں بلکہ عہدِ نو کی تجدید ہے کہ جیالے آج بھی عوامی خدمت، جمہوریت کے استحکام، اور اپنے قائدین کے نظریات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے جو مشن شروع کیا تھا وہ ان شہداء کے لہو سے دوام پا چکا ہے۔ یہی وہ خون ہے جس نے آمریت کے اندھیروں کو شکست دی اور پاکستان کے سیاسی افق پر جمہوریت کا سورج طلوع کیا۔کارساز کے شہداء کا دن دراصل اُن تمام گمنام ہیروز کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنے خون سے تاریخ لکھی۔ ان کے لہو کا رنگ آج بھی پیپلز پارٹی کے پرچم میں جھلکتا ہے، اور یہی رنگ پاکستان کے جمہوری مستقبل کی ضمانت ہے۔یہ شہداء ہمارے ضمیر کی آواز ہیں، ہماری سیاست کی بنیاد ہیں، اور ہمارے نظریے کی روح ہیں۔شہدائے کارساز زندہ ہیں جب تک جمہوریت زندہ ہے۔

























