محکمہ صحت میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو حکومت بڑی کامیابی جبکہ تنقید کرنے والے بڑا ڈاکہ قرار دیتے ہیں حقیقت کیا ہے ؟
کراچی سے لے کر پشاور تک اگر آپ ماہرین صحت سے معلوم کریں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ علاج معالجہ کی جدید سہولتوں ، بہترین طبی ماہرین کی دستیابی ، مہنگے سے مہنگے علاج کی مفت فراہمی ، ہسپتالوں پر مریضوں کا زبردست دباؤ ، جدید طبی مشینری کا استعمال اور دیگر اہم امور میں سندھ دیگر صوبوں سے بہت آگے ہے محکمہ صحت میں جو سہولتیں اور جو طبی خدمات حکومت سندھ کا محکمہ صحت ادا کر رہا ہے وہ کوئی اور نہیں کر رہا اس حوالے سے متعدد منصوبوں کے نام لیے جا سکتے ہیں مختلف ہسپتالوں کے قیام اور ان کی توسیع سے لے کر مہنگے سے مہنگا علاج مفت فراہم کرنے تک سندھ حکومت کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا ۔ حکومت سندھ کے مختلف اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی تعداد کا اگر اعداد و شمار کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہیں ملکوں کی ابادی سے زیادہ ہے لہذا کسی بھی طرح حکومت سندھ کے محکمہ صحت پر مریضوں کا جو دباؤ ہے وہ معمولی نہیں اس کی ہینڈلنگ بھی آسان نہیں اور سب مریضوں اور ان کے عزیزوں کو مطمئن کرنا بھی ممکن نہیں اس کے باوجود حکومت سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے بھرپور اور حت الامکان کوششیں کی جاتی ہیں جو واقعی قابل تعریف اور قابل ستائش ہے ۔
سندھ حکومت کی جانب سے محکمہ صحت میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے منصوبوں کو بہت بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے اس حوالے سے بہت سے منصوبوں کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور دیگر صوبے بھی ان تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں ان منصوبوں میں بہت سی کامیابی کی داستان رقم کی گئی ہیں اور بہت سے اچھے ماڈل پیش کیے گئے ہیں جنہیں عالمی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے اور ان کی اچھی ساکھ کی وجہ سے عالمی ڈونرز ادارے سندھ حکومت کے محکمہ صحت کے ساتھ مزید معاہدے کر کے ان کو ڈونیشن دے رہے ہیں قرضوں کی بنیاد بھی اچھی ساکھ ہے ۔
دوسری طرف تنقید کرنے والے حکومت کے دعوت سے متفق نظر نہیں آتے ان کا کہنا ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایک فراڈ ہے اور سرکاری وسائل پر کھلا ڈاکہ ہے وہ بھی چند لاکھ یا کروڑوں کا نہیں بلکہ اربوں روپے کا ۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟
اس بارے میں تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ہسپتال سرکار کے ہیں عملہ سرکار کا ہے بجلی پانی گیس ہر چیز سرکار کی ہے خدمات سرکار نے فراہم کر رکھی ہیں ادویات بھی سرکار دیتی ہے ہر چیز اور مہارت ایکسپرٹیز سب سرکار کی دین ہے لیکن نام کما رہا ہے پرائیویٹ شعبہ اور بلنگ بھی بہت ہو رہی ہے دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ یہ پوری دال کالی ہے ۔ اس کی غیر جانبدارانہ اور ازادانہ تحقیقات اگر کرائی جائے گی تو بہت سے گھپلے فراڈ اور ڈاکے سامنے آجائیں گے یہ ایک بہت بڑا فراڈ ہے ڈرامہ ہے اور اس میں نہ صرف لوگوں کو نوازا جا رہا ہے بلکہ جیبیں گرم کی جا رہی ہیں اور عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے ۔ تنقید کرنے والے الزامات تو لگاتے ہیں لیکن اپنے الزامات کے حق میں کوئی ٹھوس دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کی زبانی تنقید کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ اگرچہ وہ لوگوں کے ذہن میں کچھ شکوک و شبہات ضرور پیدا کر دیتے ہیں سوالات ضرور اٹھا دیتے ہیں لیکن دوسری جانب حکومت پورے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اور فنڈز کے درست استعمال کے حوالے سے جو موقف رکھتی ہے وہ نہ صرف صوبائی اور قومی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے بلکہ بین الاقوامی ڈونرز اور مالیاتی ادارے بھی ان پر یقین کرتے ہیں اسی لیے مزید مواہدے اور مزید سروسز فراہم کی جا رہی ہیں ۔
سندھ کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ خود بی بینکر رہ چکے ہیں وہ خود بتاتے ہیں کہ دنیا کے پاس جب اپ کسی کام کے لیے قرضہ مانگ لیں یا ڈونیشن لینے جاتے ہیں تو کوئی بھی آپ کو فوری طور پر قرضہ یا ڈونیشن دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا آپ کو اپنا کیس تیار کرنا پڑتا ہے اور سندھ حکومت نے ہر مرتبہ اپنا کیس بہت عمدگی سے پورے ہوم ورک کے ساتھ تیار کر کے عالمی مالیاتی اداروں اور ڈونر ارگنائزیشن سے رابطہ کیا اور سندھ کے عوام کی بہتری کے لیے مفید کامیابیاں حاصل کی اس حوالے سے وہ 2022 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی بحالی اور 21 لاکھ مکانات کی تعمیر کے منصوبے کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کے لیے دنیا نے ساڑھے پانچ ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا اور اس میں سے بہت سی رقم حکومت سے ان کو ملی جس سے بہت سے منصوبے آگے بڑھائے جا رہے ہیں اور ابھی یہ رقم انا باقی ہے اور اس پر مزید کام جاری ہے لہذا کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے کہ یہ رقم کوئی کیوں اتنی اسانی سے دے رہا ہوگا یقینی طور پر وہ حساب کتاب بھی مانگتا ہوگا یا اس کے سامنے ایسا کیس پیش کیا جاتا ہوگا کہ وہ اس سے متفق ہو جاتا ہوگا جب تک مالیاتی ادارے کے کرتا دھرتا لوگ کنونس نہ ہوں وہ کوئی رقم دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہ تو سب جانتے ہیں ۔لہذا سندھ حکومت کی اس حوالے سے کامیابی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
جہاں تک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے مختلف منصوبوں کو مزید بہتر نتائج دینے کے معاملے کی بات ہے تو اس پر بات ہو سکتی ہے اور اس پر حکومت بھی توجہ دے سکتی ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ تمام منصوبے مطلوبہ اہداف حاصل کر رہے ہوں اور وہاں پر زیرو گڑبڑ ہو ۔ جہاں جہاں شکایات سامنے اتی ہیں وہاں یقینی طور پر الیکشن بھی ہوتا ہے لیکن چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے یا چند منصوبوں کی چند خرابیوں کی وجہ سے پوری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی ایکسرسائز کو غلط قرار دینا بھی غلط ہے ۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بہت سے مفید نتائج حاصل کیے جا رہے ہیں وسائل کا بہتر استعمال ہو رہا ہے گھپلوں میں کرپشن میں اور فراڈ میں کمی ائی ہے اور اس سے بہتر نتائج حاصل کیے جا رہے ہیں تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اگر فراڈ ہو رہا ہے ڈاکے مارے جا رہے ہیں تو اس کے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ معاملات سامنے لانے چاہیے وہ بھی ایک بڑی قومی خدمت ہوگی ۔