اب سندھ میں کسی بھی بچے کو ایمرجنسی ہو تو ہسپتال ایک گھنٹے سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے ، چائلڈ لائف کے حوالے سے محکمہ صحت حکومت سندھ کے اقدامات لائق تحسین ہیں ۔


اب سندھ میں کسی بھی بچے کو ایمرجنسی ہو تو ہسپتال ایک گھنٹے سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے ، چائلڈ لائف کے حوالے سے محکمہ صحت حکومت سندھ کے اقدامات لائق تحسین ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق صوبائی حکومت نے اپنا ہدف بنایا تھا کہ سندھ میں اگر کسی بھی بچے کو ایمرجنسی ہو تو ہسپتال ایک گھنٹے سے زیادہ فاصلے کی مسافت پر نہیں ہونا چاہیے اس حوالے سے صوبائی حکومت کی ہدایت پر محکمہ صحت سندھ نے خصوصی اقدامات اٹھائے اور اس بات پر یقینی بنایا گیا سب سے پہلی ترجیح یہ تھی کہ چائلڈ لائف کو بچایا جائے اس حوالے سے جو بھی خطرات ہیں تحفظات ہیں یا مسائل اور مشکلات ہیں ان پر قابو پایا جائے اس شعبے پر خصوصی توجہ دینے کے نتیجے میں حالات کچھ سال پہلے کی نسبت اب بہت بہتر ہو چکے ہیں بلکہ کافی تسلی بخش ہیں لیکن ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے شعور اگاہی بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے ڈاکٹر بھی زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں طبی سہولتوں کی فراہمی اور ان کو اپگریڈ کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے اگر ہسپتال ایک گھنٹے کی مسافت پر ہو تو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بچے کو علاج فراہم کیا جا سکتا ہے اور جان بچائی جا سکتی ہے چنانچہ یہ حکمت عملی اختیار کی گئی اور اس کے کافی مفید اور بہتر نتائج سامنے ائے اس سلسلے میں نو ایمرجنسی رومز ہسپتال بنائے گئے یہ سلسلہ کراچی سے شروع ہوا اور مختلف اضلاع میں اس کو بڑھایا گیا پانچ کراچی میں بنائے گئے ایک لاڑکانہ میں ایک سکھر میں اور ایک حیدرآناد اور ایک حیدراباد میں بنایا گیا میں

یہ سرجری کے حوالے سے اسپیشلائز سینٹرز ہیں ۔صوبائی حکومت کو دو مسائل کا سامنا تھا ایک بروقت بچے تک پہنچنا دوسرا ہیومن ریسورس ۔ لہذا 106 تعلقوں میں ہر جگہ ایمرجنسی رومز بنائے گئے وہاں ڈیلی میڈیسن اور ڈاکٹرز کی موجودگی کو دستیاب بنایا اور کام اگے بڑھا کراچی میں اگر کوئی بچہ اتا ہے تو ڈاکٹر فوری طور پر اس کو دیکھتے ہیں کسی بھی سینٹر میں جب کوئی بچہ اتا ہے تو کراچی میں بیٹھے ڈاکٹرز اس کی ویڈیو دیکھتے ہیں اور اس کو وہیں پر رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے یہاں 24 گھنٹے کراچی میں ڈاکٹرز موجود رہتے ہیں یہاں سے گائیڈ لائن فراہم کی جاتی ہے کون سی دوا دینی ہے کون سا علاج کرنا ہے تاکہ بچے کی حالت مستحکم ہو سکے ان اقدامات سے کافی فرق پڑا ہے اور صورتحال میں بہتری ائی ہے

ان اقدامات کے نتیجے میں کیا بہتری ائی ہے اس کو سمجھنے کے لیے کچھ اعداد و شمار پر نظر ڈالنی پڑتی ہے مثال کے طور پر 2018 میں ہر ہزار نوزائیدہ بچوں میں سے 45 اپنی جان گنوا بیٹھتے تھے یا یہ سمجھ لیں کہ زندگی کی بازی ہار جاتے تھے اس وقت پاکستان کا ایوریج 61 سے زیادہ تھا اور پانچ سالوں میں صوبائی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے سندھ میں ہر ہزار نوزائیدہ بچوں میں مرنے کی شرح اب 29 پر اگئی ہے باقی تینوں صوبوں کی صورتحال بالکل برعکس ہے پاکستان کا ریٹ اج بھی زیادہ ہے جبکہ سندھ نے کافی قابو پا لیا ہے پاکستان میں اب شرح 54 فیصد پر ہے جبکہ سندھ میں 29 فیصد پر