آواری ایکسپریس ہوٹل ہی ملتان میں بہترین انتخاب ہے۔- پیارا سفر پیاروں کے لیے ۔۔۔۔۔ قسط نمبر 2

اتوار کا دن ہم نے ملتان شہر کی سیر کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ لمبے سفر کا پہلا قیام ملتان میں رکھا ہی اس لیے تھا ورنہ ماضی میں ہم رحیم یار خان کے فاران ہوٹل میں نائٹ اسٹے کر لیا کرتے تھے جبکہ ملتان میں آواری ایکسپریس ہوٹل ہی بہترین انتخاب ہے اور ہم نے دوسری مرتبہ ملتان کے اس ہوٹل میں اسٹے کیا دونوں مرتبہ یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ پچھلی مرتبہ کرونا کا وقت تھا اس لیے ہوٹل کے مہمان اپنے اپنے کمروں تک محدود تھے اس مرتبہ ہوٹل کی رونق اپنے عروچ پر تھی

ہوٹل میں زیادہ تر کمرے ایئر لائنز کے کریو کے لیے مخصوص ہیں مختلف فلائٹس پر آنے والے عملے کی وجہ سے ہوٹل میں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے اس کے علاوہ مختلف کمپنیز کے اور پرائیویٹ ٹریول گروپس کے مہمان بھی ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں بریک فاسٹ ہو یا لنچ یا ڈنر ہر وقت ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں کافی گہما گہمی ہوتی ہے یہ ہوٹل شہر کے بہت بار ونق علاقے میں واقع ہے ہوٹل کا اسٹاف بہت تربیت یافتہ اور شاندار سروس دینے میں مہارت رکھتا ہے ریسٹورنٹ میں بوفے کا عالی شان انتظام ہوتا ہے یہاں پر پیش کیا جانے والا فوڈ اپنی ورائٹی کوالٹی اور ذائقے کے لحاظ سے بہترین اور بے مثال ہے ۔ ہوٹل کے کمرے بہت پرسکون آرام دہ کشادہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں آپ کے استعمال اور ضرورت کی ہر شے دستیاب اور آپ اس کے علاوہ جو مانگیں وہ پلک جھبکتے روم سروس والے پیش کر دیتے ہیں۔ ہوٹل کی تیز رفتار لفٹس ہیں اور انڈر گرائونڈ وسیع پارکنگ سہولت ہے جہاں پر ہم نے اپنی گاڑی آرام سے پارک کردی۔ مجموعی طور پر ہمارا قیام یہاں انتہائی پرسکون آرام دہ اور یادگار رہا۔

ملتان شہر پہنچنے سے پہلے عامر بھائی نے بتایا تھا کہ وہاں کہ توشے ضرور کھائیے گا یہ وہاں کی لاجواب سوغات ہے ۔ ہم لوگ ملتان شہر میں گرمی کی پرواہ کیے بغیر پہلے تو ملتان کے گھنٹہ گھر پہنچے جس کے سامنے اس وقت ناشتے کا ماحول تھا ایک طرف پھل فروش تھے اور دوسری طرف ٹریفک وارڈنز ۔ عین گھنٹہ گھر کے سامنے گاڑی روکی سب نے وہاں اتر کر گھنٹہ گھر کے ساتھ اپنی تصاویر بنوائی اتوار کی وجہ سے گھنٹہ گھر کے اندر جانے کا راستہ اور دفتر بند تھا وہاں تالا لگا ہوا تھا اگر کھلا ہوا ملتا تو پھر ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جا کر پرانا گھنٹہ گھر اندر سے دیکھتے جس کے بارے میں ایک ویڈیو میں دیکھا تھا کہ اب اس سے جدید ٹیکنالوجی سے راستہ کر کے گھڑیال کو چلایا جاتا ہے اور آج بھی لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں ۔
گھنٹہ گھر کے سامنے سیلفیاں تصاویر اور ویڈیو بنانے کے بعد ہم لوگ قریب ہی واقعہ بزرگان دین کے مزارات کی طرف روانہ ہوئے

۔ قدرے بلندی کی طرف جاتے ہوئے گاڑی ایک طرف محفوظ جگہ پر پارک کی اور پیدل چل دیے ۔ حضرت بہاؤدین ذکریا اور شاہ رکن عالم کے مزارات پر حاضری دی وہاں بہت خلقت تھی کافی دور دور سے عقیدت مند یہاں آئے ہوئے تھے ۔ مزارات کے اندر بزرگان دین کی خدمات اور ان کے بارے میں تفصیلی معلومات درج تھی جسے پڑھ کر یہاں پہلی مرتبہ آنے والوں کو کافی اہم معلومات ملتی ہے مزارات کے ساتھ ساتھ پبلک پارکس بھی بنا دیے گئے ہیں

جہاں جھولے بھی ہیں اور کھانے پینے کے سٹال بھی اور یہاں آنے والوں کو کافی سہولت ہو جاتی ہے ایک جانب کافی بڑے احاطے میں سولر پینل بھی لگا دیے گئے ہیں ایک حصے میں آرٹ گیلری بھی موجود ہے سیکیورٹی کا انتظام بھی ہے اور مختلف کاموں کے پرائیویٹ ٹھیکے دار بھی متحرک نظر آتے ہیں ۔

وہاں سے واپس آئے تو ملتان بازار کی سیر بھی کی توشے بھی کھائے واقعی ذائقہ بہت عمدہ تھا۔
دوپہر کو بچوں کو ہوٹل میں چھوڑ کر پھر میں گاڑی کے مکینک کو ڈھونڈنے گیا ہوٹل سے ذرا پانچ منٹ کی مسافت پر ہی ایک آٹو مارکیٹ ہے وہاں کافی گہما گہمی تھی اور اتوار کی وجہ سے کافی لوگ گاڑیوں کا کام کروانے آرہے تھے جلد ہی ایک آٹو الیکٹریشن ورک شاپ مل گیا اور وہاں پر ڈیڑھ دو گھنٹے میں گاڑی کا تسلی بخش کام کروا لیا ۔
اتوار کی رات ہم نے ملتان ہوٹل میں ہی قیام کیا اگلے دن ناشتے کے بعد ہمیں پھر سفر کرنا تھا ملتان سے ہماری اگلی منزل منڈی بہاوالدین تھی 9 ستمبر پیر کے روز ہم لوگ ایک مرتبہ پھر ملتان موٹروے سے سفر کرتے ہوئے براستہ سیال اپنی منزل کی جانب گامزن تھے

سیال کا ریسٹ ایریا بہت بڑا ہے اور یہاں پر ہر طرح کے برانڈز اور ریسٹورنٹس ہیں موٹروے پر یہ اس سفر کے دوران ہمارا آخری قیام تھا اس کے بعد ہم موٹروے سے نیچے اتر گئے اور گجرات پھالیہ روڈ کے ذریعے منڈی بہاولدین کی طرف روانہ ہوئے یہ سڑک بہت عمدہ بنا دی گئی ہے اس پر زیادہ ٹریفک نہیں تھا لیکن سڑک کے دونوں جانب ہریالی ہی ہریالی ہے راستے میں جگہ جگہ بانس کی فصل اگائی گئی تھی اس کے علاوہ مختلف فصلیں اور کاشت کاری نظر ْرہی تھی ۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں اور وہاں کی رونق پنجاب کی روایتی اور دیہاتی زندگی کو نمایاں کرتی رہی ۔ موسم صاف تھا سورج چمک رہا تھا بادل نہیں تھے ۔ اسی سڑک پر سفر کے دوران پہلے اچانک ایک نیولا سڑک پار کرتے ہوئے گاڑی کے نیچے سے گزرا اور پھر اتفاق کی بات ہے کہ تھوڑی مسافت پر ہی گاڑی کے سامنے روڈ پر ایک چھوٹا سانپ بھی نظر ایا لیکن وہ بھی گاڑی قریب آتے ہی اچانک غائب ہو گیا ۔ منڈی بہاولدین پہنچے تو سات سرا چوک اب نئی شکل کے ساتھ سامنے کھڑا تھا وہاں صوفی سٹی والوں نے کلاک ٹاور بنوا دیا ہے اس کے آس پاس نئی بیکریاں اور سویٹ شاپس بن گئی ہیں حافظ سویٹ سے ملاقات کی اور پھر نوید بھائی کے گھر کی جانب روانہ ہو گئے ۔ گاڑی گھر کے قریب پہنچی تو نوید بھائی باہرآ چکے تھے انہوں نے سب کا استقبال کیا اور اب منڈی بہاولدین میں نوید بھائی کے گھر میں رونق ہی رونق تھی دونوں فیملیز ایک دوسرے کو مل کر بہت خوش اور جذباتی تھیں زبردست گرم جوشی اور پرتپاک استقبال ۔
(جاری ہے )