تحریر: سہیل دانش
===========
استاد محترم کی شخصیت سے وابستہ یادیں میرے دِل و دماغ کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ وہ اس دنیا سے چلے گئے اُن کے ہزاروں شاگرد اُن کے ساتھ گزرے لمحات کی یادوں کی یلغار کو سمیٹ رہے ہیں اُن کے ایک ہونہار شاگرد برادرم اخلاق احمد نے 45 سال قبل اپنی مجبوری کے دنوں میں ایک شفیق استاد کی مہربانیوں اور عنایت کا تذکرہ کرکے اُن کے چاہنے والے بے شمار لوگوں کو حیران ضرور کیا ہوگا لیکن مجھ جیسے لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ پروفیسر ذکریا ساجد ایک استاد کی حیثیت سے جہاں زمانے اور وقت کی تہ داریوں اور فکرواظہار کا رشتہ مستعدی سے استوار کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ اُنہیں نہ صرف اظہار و بیان کے ضابطوں کی پاسداری آتی تھی، بلکہ غیر معمولی شخصی صلاحیت، اخلاقی اقدار بے غرض و بے لوث ہمدردی اور اپنے حلقہ احباب کا ہاتھ تھامے رکھنا اُن کے DNAمیں شامل تھا۔ اِس لئے دوسروں کے ساتھ محبتوں کی مہک سے استوار رشتوں کو وہ زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے اپنے اندر زندگی کی خواہش کو مرنے نہیں دِیا ایک ایسے مشفق اِنسان جو اپنے اردگرد اپنے لئے عزت و احترام سمیٹے ہجوم میں ہر عمر کے لوگوں میں یکساں مقبول تھے۔ اُنہوں نے زندگی بھر محبتیں بھی بانٹیں اور دُعائیں بھی سمیتیں۔ ایک ایسا ہر دلعزیز شخص جو اپنے بے شمار طالب علموں کے لئے اپنے دِل اور احساس کے دریچوں میں محبتوں کے چراغ جلائے رکھتا تھا وہ ان نوجوانوں کے لئے انساپئریشن کی علامت تھے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ تمہاری کوئی بڑی محرومی کیا ہے تو میں بلا تزبذب کہوں گا کہ شاید یہ کہ میں نے پروفیسر ذکریا ساجد کی کلاس میں نہیں پڑھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں پُرتاثیر شخصیت جاذب طرز تکلم اور بے پایاں علم سے نوازا تھا جس کے لئے انہوں نے امریکہ کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی تک کا سفر کیا جس کا شمار دنیا کی دس اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ اُن سے گفتگو کرکے اندازہ ہوتا تھا کہ بیسویں صدی میں آنکھ کھولنے والا یہ صاحب نظر اکیسویں صدی کے دماغ سے واقف ہے اُنہیں معلوم تھا کس سے کس لہجے اور فریکوئنسی میں بات کرنی ہے۔ چہرے پر شفیق مسکراہٹ اور اپنے شاگردوں کے ساتھ اُن کا حسن سلوک ایسا جیسے کوئی باپ اپنے شریر بچوں کو دیکھ کر زیرِ لب مسکراتا ہے یہ میری خوش قسمتی رہی کہ اپنی ذات میں ایسے مدھم میٹھے اور والہانہ انداز کو سمیٹے پروفیسر صاحب سے تین دھائی قبل پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی نے دفتر میں اپنے سامنے براجمان سادہ وضع قطع کی شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر صاحب نے اپنے فارغ التحصیل دو طالب علموں کے لئے سفارش کی ہے آپ اُن سے مل کر مجھے رپورٹ دیدیں۔ ہاتھ ملاتے ہوئے اُنہوں نے مجھ سے صرف یہ دریافت کیا کہ آپ کہاں سے پڑھے ہیں میں نے کہا سر۔ میں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ تھوڑی دیر میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ پروفیسر ذکریا ساجد صاحب اپنے شاگردوں کے لئے کتنا بڑا سائبان ہیں۔ ہمارے چیف رپورٹر یوسف خان جو خود بھی پروفیسر صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے۔ اُنہوں نے انکشاف کیا کہ نوائے وقت میں 70 فیصد عامل صحافیوں کی انٹری ذکریا صاحب کی پرچی پر ہوئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ نوائے وقت ہی نہیں تمام اخبارات، نیوز ایجنسیوں اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ بے شمار میڈیا پرسن کے لئے اِن اداروں کے دروازے کھلنے کا محرک محترم پروفیسر ہیں۔ وہ نہ صرف پڑھاتے ہیں بلکہ اپنے شاگردوں کو حتی المقدور کوششوں سے ملازمتیں بھی دلواتے ہیں پھر یہ اتفاق رہا کہ ہمارے دوست برادرم خالد رشید نے گلشن اقبال میں اپنا نیا گھر بنایا اور ہم نے طارق روڈ سے منتقل ہوکر اُن کے گھر کی بالائی منزل پر رہائش اختیار کرلی۔ خالد رشید پروفیسر صاحب کے نہ صرف انتہائی فرمانبردار شاگرد تھے۔ بلکہ ذکریا ساجد صاحب کا ہر ہفتے میں دوبار اُن کے گھر آنا ضرور ہوتا۔ یہاں پروفیسر صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب وہ کبھی کبھار ہمارے گھر بھی تشریف لے آتے اور یوں محبت اور احترام کا یہ رشتہ گزرتے دنوں کے ساتھ اور گہرا ہوتا چلاگیا۔ جب بھی تشریف لاتے عموماً رات کے کھانے میں ہمیں میزبانی کا شرف بخشتے اور یہ بھی اتفاق تھا کہ میری اہلیہ بھی یونیورسٹی میں اُن کی شاگرد رہی تھیں یوں سمجھ لیجئے کہ وہ محبت و شفقت کا پیکر تھے۔ سچ پوچھیں تو اُنہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ درسگاہیں بھی کیسی خوش قسمت ہوتی ہیں جنہیں خدا انتہائی فراخدلی سے ایسے ایسے جوہر قابل سے نوازتا ہے۔ یہ درسگاہیں ہمیں حوصلہ دیتی ہیں کہ ہمارے دِن مقدر اور منظر بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ اِن درسگاہوں کا کرشمہ ہی ہے۔ جہاں سے ہر سو علم کی روشنی بکھیرنے والے ایک سے بڑھ کر ایک ایسے اساتذہ موجود ہیں آج ذکریا ساجد صاحب کی جدائی پر ہم سب مغموم ہیں وہاں مجھے استاد اپنے رہنما اور مرشد جناب غلام مصطفےٰ خان صاحب یاد آرہے ہیں۔ جامشورو میں اپنی یونیورسٹی کے چھ سالہ دور میں ہر جمعرات اور جمعہ کو حیدرآباد اولڈ یونیورسٹی کیمپس کے عقب میں اُن کی رہائش کے دالان میں مجھے یاد نہیں کہ عصر اور مغرب کی نماز اُن کی امامت میں پڑھنے کی سعادت سے کبھی محروم رہا وہ دوباتیں بڑی یکسوئی اور تسلسل سے کہتے تھے، اگر تم غربت موت اور ذلت کے خوف سے آزاد ہونا چاہتے ہو تو دِن میں پانچ بار چپ چاپ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوجایا کرو، دوسری بات یہ کہ اپنے استاد کی عزت و تعظیم بھی اُسی جذبے سے کرو جس طرح اپنے والد کی کرتے ہو۔ پروفیسر ذکریا ساجد سچ مُچ ایسے ہی استاد تھے۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ وہ ایسے شفیق اور باکمال انسان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ آمین
Load/Hide Comments