ہر صحافی کرائم رپورٹر کیوں بننا چاہتا ہے۔ تحریر: سہیل دانش
تنویر بیگ وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا لیکن ان کی دوستی اور محبت کا حصّار اتنا توانا رہا کہ ذہنوں سے ان کی شخصیت کبھی گمشدہ نہیں ہوگی۔ زندگی کا سفر تھا جو گزر گیا انھوں نے اس مسافت کو شارٹ کٹ کی طرح نہیں بلکہ انجوائے کر کے گزارا۔ کرب اور ضرب کے مابین ملاب سے پھوٹنے والی چنگاری ان کی زندگی کو سلگاتی رہی وہ کسی پگڈنڈی کر لڑ کھڑا کر چلنے کے بجائے۔ جوگنگ ٹریک پر تیز تیز قدموں سے چلتے رہے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک مخلص انسان تھے۔ من میں جو آتا کر گزرتے بے خوفی اُن کے DNA میں شامل تھی اس لئے زندگی کو کھیل تماشے کی طرح گزارا میں نے انہیں کسی کی غیبت کرتے سنا نہ ہی کبھی انہیں کسی کی کمزوریوں کو تاہیوں کو بے پردہ کرتے دیکھا وہ اپنے کام سے کام رکھنے والا بہت کی شیریں اور مخلص شخص تھا وہ ایک حوصلہ مند اور با صلاحیت رپورٹر تھے ہمیشہ دیانت داری سے حقائق کو بے نقاب کرتے اور کسی لالچ یا دباؤ کا شکار ہوئے بغیر خبر کا حقائق سے ناطہ جوڑنے میں “ڈنڈی “مارنے کے قائل نہیں تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ہم دونوں کونٹینینٹل ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب بعنوان “اردو قومی زبان یا سرکاری زبان “میں شریک تھے مجھے یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ اکثر مقررین اس موضوع پر انگریزی میں گفتگو کر رہے تھے اس وقت تنویر بیگ نے ایک ایسی بات کہی جو مجھے آج بھی یاد ہے جو میرے ذہن میں اس طرح چپک گئی جیسے چبائی ہوئی چیونگم بالوں سے الجھ کر رہ جاتی ہے۔ کہنے لگے کہ ذرائع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا کی حد تک اردو شفاف اور ملاوٹ سے پاک ہونی چاہئیے۔ انگریزی کے کسی پروگرام میں اردو کے لفظی پیوند سنائی نہیں دیتے۔ پھر یہ مجرمانہ کاروائی اردو کے ساتھ کیوں ہوتی ہے؟ اس طرح نہ جانے یہ سوال میرے ذہن میں ہمیشہ رہا اور اس کا مجھے کبھی تشفی بخش جواب نہ مل سکا کہ جو نئے نوجوان رپورٹنگ کے شعبے میں قدم رکھتے ہیں ان کی پہلی پسند کرائم رپورٹنگ کیوں ہوتی ہے بحیثیت ایڈیٹر میں ایسے متعدد نوجوانوں سے ملتا رہا ہوں۔ جو رپورٹنگ کے شعبے میں قدم رکھنے کے خواہش مند تھے۔ جب بھی میں ان سے پوچھتا آپ کا ترجیح شعبہ کونسا ہونا چاہئیے تو 80 فیصد پرجوش نواجوانوں کا جواب ہوتا کہ وہ کرائم رپورٹنگ کرنا چاہینگے۔
میں اپنے طور پر یہ نتیجہ اخذ کر چکا ہوں کہ اس شعبے میں ہر خبر کی کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ اس میں پیش آنے والے واقعات کا ایک پس منظر ہوتا ہے اس کی رپورٹنگ میں کھوج کے کئی راوئیے ہوتے ہیں اس سے تحقیقی رپورٹنگ کی ایسی بنیاد فراہم ہوتی ہے جس میں ہر کرائم رپورٹر ایک انویسٹی گیشن آفیسر کی طرح تمام پوشیدہ پردوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔ کراچی گزشتہ ۳ دہائیوں سے آگ و خون کے کھیل سے نبردآزما رہا ہے غیر معمولی طور پر اس عرصے میں رپورٹنگ کا سب سے ایکٹو شعبہ کرائم رہا۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب شہر قائد کی شاہراہوں اور گلی کوچوں میں گولیوں کی گونج انسانی چیخوں اور بہتے خون کے مناظر نہ دیکھے جاتے ہوں۔ رفتہ رفتہ کراچی جرائم کی آماجگاہ بن گیا۔ اسلحہ کی فراوانی، سیاسی قوتوں میں برتری کی لڑائی مخالفین کو تتر بتر کرنے کی کوششیں، ہر سیاسی جماعت کے مسلح ونگ، اس کے نتیجے میں آج بھی جرائم پیشہ نوجوانوں کی ایک فوج اس شہر میں دندناتی پھر رہی ہے۔ جن کے ہاتھوں میں مختلف ساخت اور برینڈ کے ہتھیار آگئے ہیں وہ ان ہتھیاروں سے شہر کے ہر علاقے اور محلے میں نہتے شہریوں کو ہراساں کرنے۔ان سے موبائل چھیننے اور نقدی سے محروم کرنے اور مزاحمت کی صورت میں سڑکوں پر خون بہاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ اس شہر کی بد بختی ہے جو ں جوں ان جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں دراز ہوتی ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس کی رٹ سکڑتی جاتی ہے۔ کراچی کا ہر شہری یہ کہتا سنائی دے رہا ہے کہ ان کاروائیوں میں پورے کرپٹ سسٹم کی تھپکی شامل ہے اس طرح جرائم پیشہ ایک مافیا کے طور پر اکھٹے ہوگئے ہیں اندرون سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں نے حکومت کی رٹ کو صفر کر کے رکھ دیا ہے اس کی مثال میں ایک سینیر پولیس آفیسر کی آبزرویشن سے دے سکتا ہوں۔ انھوں نے چند سال قبل ایک گفتگو میں کہا تھا کہ اسلحہ کی اسمگلنگ اس ملک میں سب سے زیادہ منعفت بخش کاروبار ہے ایک بار کئی سال قبل صوبہ کے گورنر نے ارشاد فرمایا تھا کہ کراچی میں پانچ لاکھ بلا لائنس کلاشنکوف موجود ہیں۔۔۔کیا کہنے۔۔۔ آج ہمارا نفس مضمون یہ نہیں لیکن صورتحال سے یہ بات کچھ کچھ سمجھ آرہی ہے کہ ایسی صورتحال میں ہر کوئی رپورٹر اور آخر کرائم رپورٹر کیوں بننا چاہتا ہے۔ یوں تو اچھے وقتوں کے درجنوں اور گزشتہ چار دہائیوں کہ پر اشوب دور کی ہزاروں کرائم اسٹوریز ذہن نشین ہیں۔
ان میں سے چند ایک دلچسپی کیلئے آپ کو سناتے ہیں یہ 1972ء کی بات ہے سمندری ساحل ہاکس بے پر مقامی کالج کی لڑکیاں پکنک منانے پہنچیں تو وہاں پہلے سے موجود منچلے نوجوانوں نے طوفان بدتمیزی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اللہ کی پناہ۔۔۔ دوسرے دن جب یہ خبر اخبارات کی شہ سرخیاں بنیں تو ملک میں طوفان آگیا۔صدر اور چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر ذولفقار علی بھٹو نے فوری پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہوا اس نے ہمارے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں وہ اس دن سہہ پہر کراچی پہنچے۔ گورنر ہاؤس میں آئی جی پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے بھٹو نے کہا۔۔۔ آفیسر Enough is Enough کوئی بھی کڑی سزا سے بچ نہ پائے۔ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن ہاکس بے اور سینڈز پٹ پر کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔
اس سے پہلے کا ایک اور واقع آپ کو سناتے ہیں سول سروس آفیسر اور نامور شاعر مصطفی زیدی کی پراسرار موت کی خبر پر جب پولیس ان کے گھر پہنچی تو وہاں خیرہ کردینے والے حسن کی مالک شہناز بیگم۔ نیم بے ہوشی کی کیفیت میں موجود تھیں۔ انہیں گرفتار کرلیا گیا عدالت میں مقدمہ چلا جب سماعت کے دن شہناز بیگم عدالت میں آتیں تو یقین جانیں عوام کا ایک جم غفیر اس ملکوتی حسن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے عدالت کے باہر اس طرح جمع ہوتا جس طرح کوئی مقبول عوامی لیڈر اپنے جانثار مداحوں کے جھرمٹ میں سے گزر رہا ہو۔کئی ماہ تک چلنے والے اس مقدمے کا نتیجہ یہ نکلا کر قرار دیا گیا کہ مصطفی زیدی کو شہناز بیگم نے کوئی زہریلی چیز کھلائی نہ پلائی بلکہ مصطفی زیدی نے خود ایسی چیز جذبوں کے تحت زیادہ کھالی۔ جس سے وہ موت کی وادی میں چلے گئے۔ 70 کی دہائی میں ماڈل اور کال گرل شبنم کے قتل کے کیس نے بڑی شہرت حاصل کی۔ قتل کے معمے کی گتھی سلجھانے والے ایک پولیس آفیسر نے بعد میں اپنی یاد داشتیں کسی اخبار کے کالم میں لکھتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ دورانِ تفتیش شبنم کے گھر آنے والوں کے حوالے سے ملنے والے ویزیٹنگ کارڈز اور بعد میں دیگر شواہد سے معلوم ہوا کہ اس کے گھر مستقل آنے والوں میں پاکستان ہاکی اور کرکٹ کے چند نامور کھلاڑی شامل تھے اس میں ایک کھلاڑی بعد میں پاکستا ن ہاکی کے کپتان بھی رہے لیکن ان کی ناموری اور اثر و رسوخ کے سبب انہیں شامل تفتیش نہیں کیا جاسکا یہ بھی کم و بیش دو دہائی قبل کا واقعہ ہے جب پولیس نے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں خیابانِ شمشیر کے ایک بنگلے میں چھاپا مارا تو وہاں موجود خواتین و حضرات نے دو سینئیر پولیس آفیسران بھی شامل تھے۔ جس چھاپہ مار ٹیم نے کاروائی میں حصہ لیا وہ پہلے ٹٹھکی پھر جھجکی اور آخر میں سلامی کے بعد پورے پروٹو کول کے ساتھ ان آفیسروں کو گھر چھوڑ آئی۔
زمانہ آگے بڑھ گیا وقت گزر گیا مجھے تنویر بھائی کی یہ بات یاد آرہی ہے کہ جب عام آدمی کو معلوم ہے تھانے کس طرح بکتے ہیں جرائم پیشہ کہاں رہتے ہیں کیسے آپریٹ کرتے ہیں انہیں کس کس کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ تو پھر کر تا دھرتاؤں کو کیوں نہیں معلوم۔ ان جرائم پیشہ افراد نے نہ تو سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی ہے نہ یہ آسمان سے آگ برساتے ہیں یہ سب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن میرے بے شمار سوالوں کی طرح آج تک کوئی اس سوال کا جواب نہیں دے سکا ہے کہ ہمارے استادوں کے استاد جناب رئیس امروہی کے سر سے پنکھا ٹکرایا تھا یا انکا سر پنکھے سے ٹکرایا تھا۔ ہزاروں واقعات ہیں جو سچ ہیں۔ قدرت ہمیں سچ بولنے، سچ کہنے اور سچ دیکھنے کی توفیق دے یا نہ دے لیکن وہ ہمیں سچ سننے کا حوصلہ ضرور دے۔ کیونکہ دنیا کہ ہر قسم کے سچ کا آغاز کانوں سے ہوتا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے انصاف کو باندھ دیا ہے اور جرم کو گلیوں میں کھلا چھوڑ دیا ہے چنانچہ نہ ہماری گلیاں بچیں اور نہ انصاف کو باندھنے والے۔ اب آپ ہی بتائیے ہمارا کرائم رپورٹر کیا کرے ہاں وہ یہ ضرور کرسکتا ہے کہ اس کی کھوج کے سبب بہت سے پوشیدہ راز منکشف ہوسکتے ہیں۔
تنویر بیگ اپنے وقت کے زبردست کرائم رپورٹر تھے میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی ذات سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا ہوگا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے بے باک اور بے غرض انسان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔