لاہور(مدثر قدیر)آئی ٹی کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے تو ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالا جا سکتا ہے‘ ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت زیادہ استعداد ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے‘ ملکی آئی ٹی سیکٹرز کی برآمدات ٹیلنٹ اور استعداد کے مقابلے کافی کم ہیں‘انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، آن لائن ایجوکیشن اور سائبر سکیورٹی کو فروغ دینا ہو گا‘حکومت کی معاونت سے اس شعبے کی برآمدات 2025 تک دس ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر فیصل کامران
ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت زیادہ استعداد ہے جس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے‘ پاکستانی اینٹرپرنیورز نے آئی ٹی سیکٹر کے فروغ اور ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے،تاہم ملکی آئی ٹی سیکٹرز کی برآمدات ٹیلنٹ اور استعداد کے مقابلے کافی کم ہیں‘انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، آن لائن ایجوکیشن اور سائبر سکیورٹی کو فروغ دینا ہو گا‘انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں مختصر مدت میں پاکستان کے مالی مسائل پر قابو پانے میں مدد کی صلاحیت موجود ہے‘آئی ٹی کے شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے تو یہ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکال سکتا ہے‘ اس شعبے کو انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پالیسی کی ضرورت ہے جس میں کاروبار میں آسانی جیسے مسائل شامل ہیں‘ حکومتی معاونت سے اس شعبے کی برآمدات 2025 تک دس ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ان خیالات کا اظہارآئی ٹی یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فیصل کامران نے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔
ڈاکٹر فیصل کامران کسی روایتی تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی (ITU) میں بطورایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈیٹا سائنس لیب کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ وہ 2013 میں انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں ٹینیؤر ٹریک سسٹم (TTS)پر پروفیسر کے عہدے پر بھی اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔موجودہ طورپر وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں ڈیٹا سائنس لیب (DSL) اورکرائم انویسٹی گیشن اینڈ پریوینٹیشن لیب (CIPL) کے ہیڈ کے طور پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹر فیصل کامران ڈیٹا سائنس اور مشین لرننگ کے میدان میں ایک قابل احترام ماہر استاد مانے جاتے ہیں‘انہوں نے نیدرلینڈز سے ڈیٹا اینالیٹکس اور مشین لرننگ میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ورلڈ بینک گروپ کی جانب سے انہیں مشین لرننگ ریسرچ میں جدت کے لیے بین الاقوامی سطح پر مسابقتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ڈاکٹر فیصل کامران نے انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں بطور پرنسپل انوسٹی گیشن (PI)انہوں نے100ملین روپے سے زائد گرانٹ کے ریسرچ پراجیکٹس حاصل کئے ہیں۔ اب تک ان کے 50 سے زائد رتحقیقی مقالہ جات شائع ہو چکے ہیں اور وہ ریسرچ کے میدان میں 20ایچ۔انڈکس کے حامل ہیں۔ اس کے پاس حکومت اور کارپوریٹ اداروں کی رہنمائی کے لیے ڈیٹا اینالیٹکس سلوشنز بنانے کا 10 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر فیصل کامران ایڈو(Addo)کمپنی کے شریک بانی اور صدر بھی ہیں۔ ایڈو ایک عالمی سطح کی ڈیٹا اورمصنوعی ذہانت (AI) کے میدان میں رہنمائی فراہم کرنے والی فرم ہے جو اپنے متنوع رینج کسٹمرز جن میں فارچون 500 (امریکہ میں ریونیوپیدا کرنے والی بڑی کمپنیاں)‘سرکاری ادارے‘انسٹی ٹیوشنز جیسے اسلامک ڈویلپمنٹ بنک شامل ہیں کو مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا اینالائزز کے ذریعے مسائل کو جدید ترین حل فراہم کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ایڈو کمپنی مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا اینالیٹکس کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے گاہکوں کو درپیش پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پوری معاونت فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا حال‘ مستقبل‘معیشت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار و اہمیت‘اصلاحات‘حکومتی اقدامات کے موضوعات پر بات چیت کرنے کے لیے گزشتہ دنوں ان کے آفس میں ان سے انٹرویو کیا گیا جوقارئین کی نذر ہے۔ڈاکٹر کامران فیصل نے کہاکہ پاکستان کے پاس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت زیادہ استعداد ہے، جس قدر ٹیلنٹ اور ہنر پاکستان میں ہے اس کے مقابلے میں آئی ٹی برآمدات کافی کم ہیں جن کو بڑھانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، آن لائن ایجوکیشن اور سائبر سکیورٹی کے فروغ جبکہ سوشل میڈیا ٹولز کے مثبت استعمال کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو ملک انفارمیشن ٹیکنالوجی کو جس رفتار سے اپنائے گا اسی رفتار سے ترقی کرے گا، مصنوعی ذہانت چوتھے صنعتی انقلاب کی بنیاد اور قوموں کی ترقی کا مستقبل ہے، پاکستان میں ترقی کیلئے ٹیکنالوجی گیپ کو دور کرنے کی ضرورت ہو گی، پاکستانی ہنرمندوں کی بیرون ملک مانگ بہت زیادہ ہے، اس کو پورا کرنے کیلئے جامعات کو ورچوئل تعلیم کے ذریعے طلبا کی تعداد میں اضافہ کرناہو گا۔انہوں نے کہاکہ اس شعبہ میں زیادہ سرمایہ کاری بھی درکار نہیں کیونکہ دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے برعکس چھوٹی کمپنیاں بھی بڑی کامیاب رہی ہیں‘پاکستان میں مخصوص وجوہات اور مسائل کی وجہ سے ترقی نہیں ہو سکی تاہم اس کی صلاحیت موجودہے، اس مقصد کیلئے ٹیکنالوجی گیپ کو دور کرنے کی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ روایتی تعلیمی نظام کا مطلوبہ انفراسٹرکچر نہ ہونے کے باعث فکری سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوتا رہا ہے تاہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت لوگوں کی رسائی بڑھی ہے، پاکستانی ہنرمندوں کی بیرون ملک مانگ بہت زیادہ ہے، اس کو پورا کرنے کیلئے جامعات کو طلبا کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ ملک میں آئی ٹی کاروبار کے مساوی مواقع فراہم کرنے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایمرجنگ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کاروباری اداروں کوسازگار ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں مختصر مدت میں پاکستان کے مالی مسائل پر قابو پانے میں مدد کی صلاحیت موجود ہے۔ عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے‘ پا کستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے پیدا ہونے والے مواقع اور عالمی رابطوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے‘ہائیر ایجوکیشن کے نصاب کو باقاعدگی سے بہتر بنانے، تعلیم کی فراہمی کے جدید طریقے اختیار کرنے اور یونیورسٹیوں اور نجی شعبہ کے درمیان تعاون کے فروغ کے ذریعے تعلیمی شعبہ اور صنعت کے درمیان فرق پر قابو پا کر ہم اپنی برآمدات کو بڑھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تربیت یافتہ گریجویٹ اور ہنر مند افرادی قوت فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس کی دنیا بھر میں بہت مانگ ہے۔انہوں نے کہا کہ 2030ء تک دنیا بھر میں سکرائبر سیکورٹی کے شعبہ میں 8 کروڑ افراد کی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دیگرعلاقائی ممالک سے مقابلہ کیلئے آئی ٹی گریجویٹس کی تعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سالانہ 27 سے 30 ہزار گریجویٹس سامنے آتے ہیں ان کی تعداد میں آن لائن ملازمتوں، تعلیم کے جدید طریقوں، نوجوانوں کو ہنر مند بنانے اور خواتین کو کم مدتی ہنر فراہم کرنے کے کورسز اور ایسوسی ا یٹ ڈگری پر وگرام کے ذریعے اضافہ کیا جا سکتاہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فیصل کامران نے کہاکہ طلبہ و طالبات کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ کامیابی اور خوشحالی کی کنجی بن سکتا ہے، گذشتہ 4 برس میں پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو نمایاں وسعت دی، 33 لاکھ مرد و خواتین کو ڈی جی اسکلز پروگرامز سے فری لانسگ کی تربیت فراہم کی، فری لانسرز نے آن لائن سروسز سے 300 ملین ڈالرز سے زائد رقم کمائی، اسٹارٹ اپ ایکوسسٹم کے تحت 2022 میں 390ملین ڈالرزکی سرمایہ کاری حاصل کی گئی۔ ہماری نوجوان نسل کی صلاحیتوں اور قابلیت کی دنیا معترف ہوتی جارہی ہے،وہ وقت دورنہیں کہ آئی ٹی ہنرمندوں کیلئے روزگاردینے والی کمپنیوں کی طویل قطار ہوگی، نوجوان اپنی تخلیقی صلاحیتوں اورآئی ٹی قابلیت کو بڑھائیں،ڈیجیٹل دنیا میں ہرروزکسی نہ کسی ایپلی کیشن، پورٹل، ویب سائٹ اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ٹیکنالوجیکل ایپس کی صورت میں ایک نیا اضافہ ہورہا ہے، پاکستانی نوجوان بھی اپنی ایجادات سے دنیا کو بتائیں یہ ملک اور اس کے لوگ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کسی سے کم نہیں، پہلے لوگ آئی ٹی کا نام جانتے تھے، اب سمجھتے بھی ہیں اور اس سے منسلک بھی ہورہے، ہر تیسرا فرد فری لانسنگ، ای کامرس اور آن لائن ورکنگ کی بات کرتا نظر آئے گا، جن سے شہروں کے ساتھ دیہی اور پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو بھی ڈیجیٹل دنیا سے منسلک ہونے کا موقع فراہم ہورہا ہے۔ اس بات کا ادراک سب کو ہے کہ ملک کی معیشت کے استحکام کیلئے آئی ٹی انڈسٹری کا فروغ ناگزیرہے‘ یونیورسٹیز کی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید کورسز کے اجراء، سمیت ڈیجیٹل پاکستان ویژن کی تکمیل کیلئے بیک وقت عالمی معیار کی تربیت،فری لانسنگ و اسٹارٹ اپس ایکو سسٹم پالیسیز، سہولیات کی فراہمی، براڈ بینڈ سروسز نیٹ ورکنگ میں توسیع، موبائل مینوفیکچرنگ سمیت بیک وقت متعدد محاذوں پر کام کی ضروت ہے اگر ہم اس ٹارگٹ کو حاصل کر لیتے ہیں تو بہت جلد پاکستان عالمی سطح پر ڈیجیٹل حب کی حیثیت سے پہچانا جائے گا۔
سائبر سکیورٹی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر فصیل کامران نے کہا کہ سائبر وار کے طور پر پاکستان میں روزانہ سینکڑوں حملے ہوتے ہیں، اس کے تدارک کیلئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے، 2030 تک دنیا کو سائبر سکیورٹی کے حوالہ سے 8 کروڑ ماہرین کی ضرورت ہو گی، پاکستان اس صورتحال میں مناسب تعلیم و تربیت کے ذریعے افرادی قوت مہیا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مصنوعی ذہانت چوتھے صنعتی انقلاب کی بنیاد اور قوموں کی ترقی کا مستقبل ہے، جس قوم نے اپنے مستقبل کو پہچان لیا اس کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔انہوں نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات ہیں، یہ شعبہ تیز رفتار ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے، پاکستانی نوجوانوں کو ان مواقع سے استفادہ کرنے کیلئے خود کو تیار کرنا چاہئے۔ڈاکٹر کامران فیصل نے کہاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے آئی ٹی تربیت حاصل کرنا لازمی قرار دی جانی چاہیے‘اس اقدام سے مزید 2 لاکھ ہنر مند افراد کا آئی ٹی صنعت میں اضافہ ممکن ہو سکے گا جس سے اس شعبے کی برآمدات میں 5 ارب ڈالر تک کا اضافہ ممکن ہو گا جس سے معیشت کی بہتری کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک کے لئے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکے گا۔
کسی بھی شعبے میں ترقی کیلئے ضروری ہے کہ آپ اس کی بنیاد، اس کے انفراسٹرکچر اور اس کے مسائل سے مکمل آگاہی رکھتے ہوئے اس میں بہتری کے لیے اقدامات کریں۔ انھوں نے کہا پاکستان میں آئی ٹی ایکسپورٹ کو ماضی میں کوئی خاص اہمیت نہیں گئی یا یوں کہہ لیں کہ اسے منافع بخش شعبہ سمجھا ہی نہیں گیا۔پاکستان سستی لیبر، آئی ٹی ایکسپرٹس، انگلش بول چال، ٹائم زون اور ہنر مندی کے لحاظ سے دنیا کے ٹاپ فائیو میں شمار ہوتا ہے لیکن اپنی اس خوبی کو دنیا میں کبھی مارکیٹ نہیں کیا گیا مگر اب ایسا کیا جا رہا ہے جس کے اثرات بھی سب کے سامنے ہیں۔رواں برس حکومت پاکستان نے آئی ٹی برآمدات میں اضافے کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی آئی ٹی برآمدات کا حجم 635 ملین ڈالر یعنی 63.50 کروڑ ڈالر رہا۔آئی ٹی مصنوعات کا موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کا حجم گذشتہ سال کی پہلی سہ ماہی کے حجم سے 42 فیصد زیادہ ہے‘ مگر اس شعبے سے منسلک برآمدات میں اضافے کے باوجود اس شعبے سے منسلک افراد کچھ مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں سب سے بڑا مسئلہ ہنرمند افرادی قوت کی کمی ہے۔اس شعبے سے منسلک ماہرین کے مطابق تعلیمی اداروں سے نکلنے والے ہنرمند آئی ٹی افراد کی تعداد طلب کے مقابلے میں کم ہے تو اس کے ساتھ ان میں سے اکثریت اس استعداد سے عاری نظر آتی ہے جو عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کے لیے ضروری ہے۔
ڈاکٹر فیصل کامران نے کہاکہ اگر صرف انڈیا کی آئی ٹی برآمدات کو لیا جائے تو گذشتہ برس اس کا حجم 200 ارب ڈالر تک رہا۔ انھوں نے کہا اگرچہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈیا اس شعبے میں پاکستان سے بہت پہلے داخل ہوا اور نوے کی دہائی کے شروع میں ہی انڈیا میں اس شعبے کے فروغ کے لیے کام شروع ہو چکا تھا مگر دوسری جانب پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں کام میں اضافہ سنہ 2000 کے بعد نظر آیا۔ اس وقت ملک میں تین ہزار سے زائد کمپنیاں لارج، میڈیم اور سمال سطح پر اس شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا ان میں سے صرف 200 سے 300 کمپنیاں ہی اُن کی ایسوسی ایشن کی رکن ہیں۔اس شعبے کو سب سے بڑا مسئلہ سپلائی سائیڈ کا ہے۔ انھوں نیکہا آئی ٹی کی خدمات کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہے کہ ہم اسے پورا ہی نہیں کر پا رہے، پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ آئی ٹی گریجویٹس کی ضرورت ہے لیکن تعلیمی اداروں سے صرف 25 ہزار لوگ ہی نکل رہے ہیں۔ اگر 25 ہزار طلبا تعلیمی اداروں سے پاس آوٹ ہو بھی رہے ہیں تو ان میں سے صرف 2500 ایسے ہیں کہ جن کے اندر وہ مہارت اور ہنر ہے جو کہ آئی ٹی کے شعبے میں درکار ہوتی ہے۔اس شعبے میں طلب اتنی زیادہ ہے کہ ایک لاکھ قابل گریجویٹس دو مہینوں میں ملازمتوں پر لگے ہوں گے۔انھوں نے کہا اگر اس شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے تو یہ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نکال سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس شعبے کو انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پالیسی کی ضرورت ہے جس میں کاروبار میں آسانی جیسے مسائل شامل ہیں‘انھوں نے کہا اگر حکومت کی جانب سے موجودہ پالیسی جاری رہتی ہے اور مزید معاونت ملتی ہے تو اس شعبے کی برآمدات 2025 تک دس ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کو مزید افرادی قوت کی ضرورت ہے‘ صنعتی، کاروباری، تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کے لیے آئی ٹی کو فروغ دے کر ترقی کے زینے طے کیے جاسکتے ہیں۔آئی ٹی سیکٹر کے فروغ سے برآمدات بڑھانے کے مواقعے ملیں گے، جب کہ آئی ٹی میں پالیسیوں کے تسلسل سے برآمدات بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ صنعتی کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے اور خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کے لیے آئی ٹی سلوشنز کے لیے مستند اداروں کے قیام سے مجموعی ترقی کی سمت مثبت پیشرفت ہے،۔آج دنیا بھر میں 26 ہزار سے زائد کمپنیاں اینڈرائیڈ کا سافٹ ویئر استعمال کر رہی ہیں۔ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے کارپوریٹ ماحول میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) تبدیلی کی ایک اہم سہولت کار ہے۔آئی ٹی انقلاب کے نتیجے میں پوری دنیا میں لوگوں کا طرز زندگی بدل گیا ہے۔ دنیا میں چوتھا صنعتی انقلاب جاری ہے، جس میں روبوٹس، مصنوعی ذہانت، نینو ٹیکنالوجی، کوانٹم کمپیوٹنگ، بائیوٹیکنالوجی، انٹرنیٹ آف تھنگز، (آئی او ٹی) 3D پرنٹنگ، اور خود مختارگاڑیاں جیسے شعبوں میں ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی روزگار کی اگلی لہر ہے۔
ڈاکٹر فیصل کامران نے کہاکہ حال ہی میں نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کے شعبے کے حوالے سے جائزہ اجلاس میں آئی ٹی برآمدات بڑھانے کے عزم کا اظہا ر کر چکے ہیں‘اس سے قبل وزیر آئی ٹی وٹیلی کام بھی آئی ٹی برآمدات کو 10 ارب ڈالرتک بڑھانے کاعزم کر چکے ہیں‘یہ امرخوش آئند ہے کہ کہ موجودہ ملکی قیادت آئی ٹی کے شعبے کی اہمیت اور اس کے فروغ کی خواہش مند ہے۔گزشتہ حکومت کی طرف سے بھی دعوے سامنے آئے لیکن انہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا جس کے نتیجہ میں گزشتہ مالی سال کے دوران آئی کی خدمات کی برآمدات 2.3 ارب ڈالر تک محدودرہیں جبکہ اس دوران بھارت کی آئی ٹی برآمدات کا حجم 178 ارب ڈالر سے زائد رہا۔موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دورہ ہے‘دنیا میں آئی ٹی سے منسلک سروسز اور اشیاء کی مانگ بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں عدم توجہی کی وجہ سے اس شعبے سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کئے جا رہے۔آئی ٹی سیکٹر کے ذمہ داران اور وزارت ٹیکنالوجی کو چاہیے کہ آئی ٹی کو ایک بڑی برآمدی صنعت بنانے کے لیے مل کر کام کریں۔حکومت اس شعبے اور فری لانسرز کو مرعات اورٹیکس کی چھوٹ دے‘پاکستان کی معیشت کو سہار ادینے کے لیے برآمدات کو بڑھانا ناگزیر ہے‘آس ضمن میں آئی ٹی کی صنعت اہم کردا ر ادا کر سکتی ہے‘اگر حکومت اور متعلقہ شعبہ جات اس جانب توجہ دیں تو آئی ٹی کی ملکی برآمدات میں اضافہ ممکن ہے۔انہوں نے کہاکہ نگران وزیر برائے سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن ڈاکٹر عمر سیف بھی اس حوالے سے اعادہ کر چکے ہیں کہ حکومت سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کوشاں ہے، حکومت زراعت اور دیگر شعبوں میں صنعت و اسمارٹ ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کے لیے پرعزم ہے‘ان کا کہنا تھا کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس نے تمام شعبوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں، آئی ٹی کی تعلیم کو اسکول کی سطح پر متعارف کرایا جا نا ہو گا تاکہ بچے اپنی پڑھائی میں ترقی کرتے ہوئے اس میں ماہر بنیں۔ڈاکٹر عمر سیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت ٹیکنالوجی کے شعبے کی ترقی اور نوجوانوں کو ہنر سے آراستہ کرنے، معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ زرعی صنعت کو ٹیکنالوجی کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی نہ صرف وقت کی بچت اور کام کے معیار کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی بلکہ ملک کی معیشت کو بھی بہتر بنائے گی۔نگران وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی جانب سے آئی ٹی سیکٹر کو اس کی برآمدات میں اضافے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ایک بہترین اقدام ہے۔ اس شعبے کو انفرا اسٹرکچر کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پالیسی کی ضرورت ہے جس میں کاروبار میں آسانی جیسے مسائل شامل ہیں، اگر حکومت کی جانب سے موجودہ پالیسی جاری رہتی ہے اور مزید معاونت ملتی ہے تو اس شعبے کی برآمدات 2025 تک مطلوبہ اہداف تک پہنچ سکتی ہیں۔
====================
https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC