
(۔01۔دسمبر2025)
پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچوئلزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، نیشنل بزنس گروپ پاکستان اورایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ معیشت میں استحکام کی جانب پیش رفت ظاہرکرتی ہے تاہم آئی ایم ایف کی حالیہ گورننس ڈائگناسٹک رپورٹ واضح پیغام دیتی ہے کہ صرف استحکام کافی نہیں بنیادی اسٹرکچرل اصلاحات ناگزیرہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پہلی بارپانچ سال بعد پہلی سہ ماہی میں 1,371 ارب روپے کے تاریخی قرض میں کمی لانے میں کامیاب رہی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے اعداد وشماربتاتے ہیں کہ مالیاتی نظم وضبط بہترہورہا ہے۔ ایف بی ارمحصولات اگرچہ ہدف سے کم رہے لیکن پھربھی 11.4 فیصد اضافے کے ساتھ 3.8 کھرب روپے تک پہنچے ہیں جبکہ بڑی صنعتوں کی پیداوار (LSM) بھی 4.4 فیصد بڑھ گئی ہے۔
میاں زاہد حسین نے خبردارکیا کہ اگرآئی ایم ایف کی رپورٹ میں نشاندہی کیے گئے اسٹرکچرل مسائل، بدعنوانی اورٹیکس نظام کی پیچیدگی کوفوری طورپردورنہ کیا گیا تویہ مثبت نتائج عارضی ثابت ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بجا طورپرکہا ہے کہ ملک میں کرپشن کا تسلسل نقصان دہ ہے جبکہ ٹیکس نظام غیرشفاف اورآلودہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرض میں کمی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن دوسری جانب آئی ایم ایف ہمیں بتا رہا ہے کہ سسٹم کے اندرونی زخم ابھی بھی رس رہے ہیں۔ “جب تک اشرافیہ کا کنٹرول، ریگولیٹری پیچیدگیاں اورکاروبار کرنےمیں رکاوٹیں ختم نہیں ہوتیں، نجی شعبہ پوری طرح سانس نہیں لے سکے گا۔”
میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف نے ٹیکس پالیسی کوانتظامی عمل سے علیحدہ کرنے کی شرط انتہائی اہم قراردی ہے۔ “ٹیکس پالیسی آفس کا قیام خوش آئند ہے مگراسے بااختیاربنا کرٹیکس کوڈ کوآسان، شفاف اورکاروباردوست بنانا بھی ضروری ہے۔ صرف موجودہ ٹیکس دہندگان کونچوڑنا مسائل کا حل نہیں۔” میاں زاہد حسین نے ترسیلاتِ زرکے 13 ارب ڈالرتک پہنچنے اور زرمبادلہ کے ذخائرکے 19.7 ارب ڈالرپرمستحکم رہنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے صرف مراعات کافی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کا نفاذ بنیادی شرط ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ آئی ایم ایف کے مطابق تمام سرمایہ کاری مراعات پوری شفافیت کے ساتھ عوام کے سامنے لائے تاکہ نظام میں کسی نئی بے ضابطگی یا بگاڑکی گنجائش نہ رہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ صنعتی سرگرمیاں بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چار ماہ میں733 ملین ڈالرتک پہنچ گیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ کاروباری لاگت کم کرنے اوربرآمدات کومسابقتی بنانے کے لیے آئی ایم ایف کی تجویزکردہ گورننس اصلاحات پرفوری عمل کیا جائے۔ “گارمنٹس اورآٹوسیکٹرمیں بہتری خوش آئند ہے مگریہ پیش رفت کسی نئے ادائیگیوں کے بحران میں تبدیل نہیں ہونی چاہیے۔” انہوں نے مزید کہا کہ وزارتِ خزانہ کی رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت نے معیشت کوآئی سی یوسے نکال لیا ہے لیکن اب معیشت کی دیرپا صحت کے لیے آئی ایم ایف کی تجویزکردہ “بڑی سرجری” یعنی گورننس اصلاحات ناگزیرہیں۔























