”بدعنوانی؛ اخلاقی اقدار پر ضربِ کاری“

”بدعنوانی؛ اخلاقی اقدار پر ضربِ کاری“
الطاف شکور: چیئرمین، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی
(0302-8270662)

بدعنوانی کا نقصان عوام کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ صرف عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے جبکہ اشرافیہ کے لیے ”بدعنوان نظام“ آکسیجن سلنڈر کا کام کرتا ہے۔پاکستان میں اس وقت عوام اور اشرافیہ کے درمیان انتہائی اہم میچ کھیلا جارہا ہے۔جس میں فی الحال اشرافیہ کا پلا بھاری ہے مگر سوشل میڈیا نے جس طرح عوامی شعورکو بیدار کیا ہے، اس کو مدنظر رکھا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ معاشی ناانصافی کا سورج جلد غروب ہونے والا ہے۔آئی ایم ایف کے بارے میں ایک عام پاکستانی کی سوچ کچھ اچھی نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ بدعنوان عناصر نے آئی ایم ایف سے اربوں کھربوں ڈالر کے قرضے بھی لیے اور سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت آئی ایم ایف کے بارے میں ایک شیطانی قوت اور دشمن کا تصور paintکیا گیا تاکہ بدعنوانی کے خلاف عوامی غیض و غضب کا رُخ بدعنوان حکمران اور انتظامیہ کی بجائے سُودی نظام کے خلاف نفرت کی صورت میں آئی ایم ایف کی طرف موڑا جا سکے۔ بے شک مسلسل سُودی قرضہ معیشت کی موت ثابت ہو رہا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قرضہ کیوں لیا گیا اور کیوں لیا جارہا ہے؟ کہاں خرچ کیا گیا؟ ۔ بھاری بھرکم قرضوں کے باوجود ترقی و خوشحالی کی بجائے غربت کیوں پروان چڑھتی رہی اور معیشت زبوں حالی کا شکار کیوں ہوئی ہے؟۔ آئی ایم ایف کی بدعنوانی سے متعلق حالیہ رپورٹ کے بعد ارباب اختیار کے لیے صرف آنکھیں کھولنے کا نہیں بلکہ بدعنوان عناصر کے خلاف ایکشن لینے کا وقت آگیا ہے۔
بدعنوانی ملک کو صرف معاشی طور پر ہی نقصان نہیں پہنچارہی ہے بلکہ یہ اخلاقی اقدار پر ضربِ کاری ثابت ہورہی ہے اور ملک کی سرحدیں بھی کھوکھلی کر رہی ہے،یہ صرف قومی خزانے کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی ہے بلکہ سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بھی بنتی ہے۔ کمزور گورننس اور غیر مو¿ثر سرکاری اخراجات کی وجہ سے معیشت کو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ متعلقہ اداروں کو اس سنگین صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ میں بدعنوانی کو مسلسل مسئلہ قرار دیا ہے۔آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق بجٹ سازی، رپورٹنگ، شفافیت، سرکاری خریداری اور ریاستی اداروں میں گورننس کی شدید خامیاں پائی جاتی ہیں۔ سیاسی مداخلت، غیر شفاف تقرریاں اور کمزور نگرانی بدعنوانی کے خطرات کو بڑھاتی ہے۔ ٹیکس کا پیچیدہ نظام، ایف بی آر کے کمزور کنٹرول، عدلیہ کے مسائل، مقدمات کے انبار، پرانے قوانین اور کمزور عملدرآمد ملک میں قانونی اور معاشی بے یقینی کو جنم دیتے ہیں۔
احتسابی اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے اور سیاسی اثر و رسوخ ان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ آئی ایم ایف نے اینٹی کرپشن اداروں میں میرٹ اور شفاف تقرریوں اور آڈیٹر جنرل کے دفتر کو مزید بااختیار بنانے کی سفارش کی ہے۔ ملک کی سیاسی اشرافیہ، بشمول حکمران، بدعنوانیوں میں ملوث ہے۔ ”عمر بھر کااستثنیٰ“ کا تصور قانون کی حکمرانی کے منافی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگر پاکستان گورننس اور شفافیت کے ذریعے کرپشن پر قابو پا لے تو اگلے پانچ سالوں میں جی ڈی پی میں 5 سے6.5 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔آئی ایم ایف نے بااثر طبقے کو پاکستان میں بدعنوانی کا مرکزی محرک قرار دیا ہے، جہاں سیاسی و معاشی اشرافیہ اپنی پسند کی پالیسیاں بنواتی ہے۔2019 میں چینی برآمد کرنے کی اجازت کا فیصلہ سیاسی طور پر جڑے مل مالکان کے فائدے میں تھا۔ آج بھی چینی مافیا ملک میں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور چینی200 روپے فی کلو سے زائد میں فروخت ہو رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ 50روپے سے زیادہ فی کلو ناجائز منافع کمایا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق ٹیکس کا نظام پیچیدہ، رعایتوں سے بھرا ہوا اور ایف بی آر کے اندرونی کنٹرول کمزور ہیں۔ عدلیہ کو انتظامی طور پر پیچیدہ قرار دیا گیا ہے، جہاں مقدمات کے انبار، پرانے قوانین، اور ججوں کی شفافیت پر سوالات موجود ہیں، جس کے سبب معاہدوں اور املاک کے حقوق کا مو¿ثر تحفظ ممکن نہیں۔ منی لانڈرنگ وسیع ہے، اور اصلاحات کے باوجود عملی نفاذ کمزور ہے، جبکہ سزا پانے والے کیسز انتہائی کم ہیں۔ آئی ایم ایف اس صورتحال کو کرپشن کے خطرات میں اضافہ قرار دیتا ہے۔ احتساب کے اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ مختلف ریگولیٹری اور نگرانی کے اداروں کے پاس مضبوط عملی خود مختاری نہیں۔ اینٹی کرپشن ادارے (جیسے نیب) سیاسی اثر و رسوخ کا شکار ہیں۔ آئی ایم ایف نے شفاف، میرٹ پر مبنی تقرریوں کی سفارش کی ہے۔ آڈیٹر جنرل کے دفتر کو مزید بااختیار اور آزاد بنایا جانا ضروری ہے تاکہ شفافیت بڑھے اور نگرانی کے خلا ختم ہوں۔ ہمارا سیاسی طبقہ، بشمول حکمران، بدعنوان ہے۔ عمر بھر کی استثنیٰ کا تصور قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔ جو لوگ پاکستان کو مضبوط ریاست بنانا چاہتے ہیں، وہ اس گہری اور وسیع بدعنوانی کے خلاف آہنی ہاتھوں سے کارروائی کریں تاکہ ملک معاشی اور ادارہ جاتی تباہی سے بچ سکے۔
مسلسل بڑھتی بدعنوانی نے ہماری اخلاقی اقدار پر بھی ضربِ کاری لگائی ہے۔ قومی غیرت ماضی کا قصہ معلوم ہوتی ہے۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی قیدناحق کو 23سال مکمل ہونے والے ہیں۔اگر ملک میں کوئی منصفانہ نظام قائم ہوتا تو ہرگزہر گز ڈاکٹر عافیہ اب تک قیدناحق میں نہ ہوتی کیونکہ ان کی بے گناہی کے ثبوت پر ثبوت ملتے جارہے ہیںمگر حکمرانوں اور سرکاری حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے کیونکہ انہیں احتساب کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ اب یہ ڈر پیدا کرنا ہوگا۔