بھارتی کپاس کی درآمد منسوخ کرنے سے ٹیکسٹائل سیکٹر بے چین : میاں زاہد حسین

سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والاٹیکسٹائل کا شعبہ پریشانی کا شکار ہو گیا
وزراء اہم اقتصادی معاملات میں ایک پیج پر نہیں۔ میاں زاہد حسین
ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بھارت سے کپاس اور دھاگے کی درآمد کے فیصلے کو منسوخ کرنے سے سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے اور کروڑوں افراد کو روزگار فراہم کرنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کے مستقبل کے متعلق سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں بے چینی اور عدم استحکام پھیل گیا ہے جبکہ اس فیصلے سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے اکنامک کو آرڈینیشن کونسل کے فیصلے کو مسترد کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدیداراہم معاملات میں ایک پیچ پر نہیں ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اور ٹیکسٹائل سیکٹر کی جانب سے بھارت سے کپاس اور دھاگے کی درآمد کی سفارش وقت کا تقاضہ ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا ہے جس کا نقصان ملکی معیشت کو پہنچے گا۔ اس فیصلے سے اقتصادی ماہرین اور اپوزیشن کے بیانیہ کو تقویت ملے گی۔ حکومت کے پاس اقتصادی بحالی کا کوئی پلان ہے نہ معیشت کی کوئی سمت متعین کی گئی ہے جو رہی سہی سرمایہ کاری کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ حالیہ فیصلے سے نہ صرف ذخیرہ اندوذوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور مقامی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہو گا بلکہ ٹیکسٹائل سیکٹر اور برآمدات کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا ہو گا، ایکسپورٹ آرڈر کی تکمیل نہ ہونے سے ملکی ساکھ خراب ہو گی اور بند ہونے والی ٹیکسٹائل ملز کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ سکتی ہے۔ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور پاکستانی ٹیکسٹائل کے خریداروں کو منفی پیغام ملے گا اور وہ اس ملک سے کاروبار نہیں کریں گے جہاں صنعت کو کپاس اور دھاگہ نہ مل رہا ہو جبکہ کپاس کی پیداوار میں 15-2014 کے مقابلہ میں پچاس فیصد کمی آ چکی ہو۔ میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ مہنگی کپاس اور مہنگی توانائی کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر ایکسپورٹ سیکٹرز کی برآمدات کو خریدار تک پہنچانے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ جہازا ور کنٹینر زکے کرایوں میں اضافہ کے باعثسمندر کے راستے تجارت سات سو فیصد مہنگی ہو چکی ہے جبکہ ترسیل کا وقت بھی پچیس دن سے بڑھ کر ایک سو پانچ دن ہو چکا ہے۔ بھارت سے تجارت نہ کرتے ہوئے ملک سے کپاس اور دھاگے کی برآمدات کو جاری رکھنے سے قلت اور قیمت میں اضافہ ہی ہو گا اسی لئے ویلیو ایڈڈ سیکٹر کپاس اور دھاگے کی برآمدات پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ سابقہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی حفیظ شیخ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی پالیسیوں کی کوئی سمت نہیں ہے جبکہ ڈالر کو غیر ضروری طور پر مہنگا کیا گیا ہے جس سے قرضے بڑھ گئے اور معیشت کونقصان پہنچا۔