بلدیہ کراچی پر رحم فرمائے۔ پاکستان پر احسان عظیم ہو گا۔۔۔

سچ تو یہ ہے،

—————–

بشیر سدوزئی،
————
اب تو لوگ با آواز بلند کہنے لگے ہیں کہ پرانہ پاکستان ہی اچھا تھا ۔کون سا پرانہ پاکستان، وہ جو آمریت والا تھا، جس کا سربراہ ڈکٹیٹر تھا ۔ پاکستانی جمہوریت دانوں نے تو ” بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے اچھی ہے ” کی کہاوت اور اصول کو ناکام ثابت کر دیا ہے، پاکستان کی جمہوریت دیکھ کر ایمان کی حد تک یقین ہونے لگا ہے کہ ” بہترین جمہوریت سے بد ترین آمریت اچھی ہے ” جس میں عوام پرسکون تو یوتے ہیں۔ جس جمہوریت میں جمہوریت کے بنیادی اداروں کو دانستہ تباہ و برباد کر دیا جائے، جس جمہوریت میں، جمہوریت کی نرسری بلدیاتی اداروں میں جمہور کے نمائندوں کے لیے دروازے بند ہوں ، جس جمہوریت میں بنیادی جمہوری ادارے مفلوج اور جمہور کے دہلیز پر سیوریج پانی کھڑا ہو، دروازے پر کچرے کے ڈھیر ہوں تھوڑی سی برسات میں فٹوں پانی گھروں میں داخل ہو جائے، جس جمہوریت میں لوگ کرونا وائرس سے زیادہ آوارہ کتوں کے خوف سے گھروں میں دھک دھک بیٹھے رہیں ۔ منصور آفاق کی زمین پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ،
جہاں شہروں میں لوگ ڈرتے ہوں غول سیاہ سے،
ایسے نظام پر لعنت، ایسی جمہوریت پر تف ۔
منصور آفاق نے صحیح کہا۔
ﺷﺐِ ﻭﺻﺎﻝ ﭘﮧ ﻟﻌﻨﺖ ، ﺷﺐِ ﻗﺮﺍﺭ ﭘﮧ ﺗُﻒ
ﺗﻴﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﭘﮧ ﺗُﮭﻮ ، ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﭘﮧ ﺗُﻒ
ﺩﻝِ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﻮ ﺗُﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺴﻦِ ﻧﻈﺮ ، ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﭘﮧ ﺗُﻒ
ﺗﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﮬُﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺳﺖ، ﺗﻴﺮﮮ ﺟﯿﺴﮯ ﻏﻤﮕﺴﺎﺭ ﭘﮧ ﺗُﻒ
ﻣﻴﺮﯼ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮬﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺳﮯ
ﺍﻣﯿﺮِﺷﮩﺮ!! ﺗﯿﺮﮮ ﻋﮩﺪِ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﭘﮧ ﺗُﻒ

ﯾﮩﯽ ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ﺗﻴﺮﺍ ﺳﺎﻧﭗ ﭘﺮ ﭘﺎﺅﻥ ﺁﺋﮯ
ﮨﺰﺍﺭ ﮬﺎ ﺗﻴﺮﮮ ﮐﺮﺩﺍﺭِ ﺩﺍﻍ ﺩﺍﺭ ﭘﮧ ﺗُﻒ

جس ملک میں بلدیاتی اداروں کو تباہ کر دیا جائے وہ ملک کیوں کر ترقی کر سکتا ہے نئے پاکستان کے کپتان کو نظام بناتے ڈھائی سال گزر گئے لیکن بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔ یہ تو پرانے سے بھی پرانہ پاکستان ہے۔ وہ لوگ بھی تو سب ایسا ہی کرتے تھے جیسا آج ہو رہا ہے تبدیل کیا ہوا۔رہی بات لوٹ مار کی تو وہ جانے کے بعد معلوم ہو گا کہ کسے نے کتنا ہاتھ صاف کیا۔ ۔ نواز شریف نے اس ملک کے ساتھ کوئی زیادتی کی یا اچھائی یہ الگ بحث ہے، لیکن چند چنیوٹی تاجروں کو خوش کرنے کے لئے اکٹرائے ٹیکس ختم کر کے بلدیاتی اداروں خاص طور پر بلدیہ کراچی کے ساتھ جو ظلم و ستم کیا وہ قابل مافی نہیں ۔ اس کے بعد کراچی تباہی کی طرف رواں ہوا اور وہ سفر آج بھی جاری ہے۔ جو بلدیہ سندھ کے دیگر بلدیاتی اداروں کی مالی مدد کرتی، فائر ٹینڈر عطیہ کرتی تھی اس کے پاس خود فائر ٹینڈر نہیں رہے جو باقی بچے وہ ناکارہ ہیں ۔وہ فائر مین جو آگ بجھانا جہاد اور جھلس کر شہید ہونا اعزاز سمجھتے تھے جنہوں نے اسلام آباد میں جا کر ریسکیو کیا ان کے گھروں میں فاقہ کشی ہے ۔ مئیر عبدالستار آفغانی کے زمانے میں جب بلدیہ کراچی نے اپنے ہی فنڈ سے فائر ٹینڈر خریدے تو وفاقی حکومت نے کسٹم ٹیکس معاف نہیں کیا۔ اس وقت اتنے وسائل تھے کہ بلدیہ کراچی نے لاکھوں روپے ٹیکس بھی ادا کیا اور درجنوں فائر ٹینڈر بھی خریدے، شہر کو مکمل ترقی اور صاف ستھرا رکھنے کے بعد بھی اربوں روپے محفوظ فنڈ میں موجود ہوتے تھے ۔ آج شہر کی ترقی یا شہریوں کے مسائل پر کوئی بات ہی نہیں کرتا، بلدیہ کراچی کے ملازمین کو تنخواہ اور ریٹائرڈ کو پنشن نہ ملنے کا رونا ہے ۔ بلدیہ جس نے اس شہر میں پہلا سکول قائم کیا، اس کے ریٹائرڈ اساتذہ کا نوحہ سنیں۔” کراچی میونسپل کارپوریشن سے ریٹائرڈ اساتذہ پینشن کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور۔لیاقت آباد میں قائم نجی برانچ کے باہر 60 سے 80 برس کے بزرگ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو علی الصباح بینک کے باہر پہنچ جاتے ہیں ۔ شدید گرمی، دھوپ اور کرونا وائرس کی وباء کے باوجود دھکم پیل میں کھڑے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اکاونٹ میں نہ آنے کی اطلاع پرمایوس لوٹنا پڑتا ہے ۔ہم نے چالیس سال تک کئی نسلوں کو علم سے روشناس کرایا، اب بھیک کی طرح پینشن دی جاتی ہے۔ہمیں فقیر سمجھ کر خیرات دیتے ہیں، ہم کدھر جائیں وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ سندھ اس مسئلے کو حل کر کے ہمیں عزت سے پینشن دیں” یہ تو بلدیہ کے ریٹائرڈ اساتذہ کا نوحہ تھا، یہاں اور بھی نوحہ خواں ہیں ۔ 2016، کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے کسی ملازم کو واجبات ادا نہیں ہوئے، کئی تو انتقال بھی کر گئے۔ اب اگر بقایاجات مل بھی جاتے ہیں تو کیا قبر پر کتبہ نصب کریں گے۔ جہاں ادارے مضبوط ہوں وہاں ملازمین کو تنخواہ اور پنشن کے لیے نہ انتظار کرنا پڑتا ہے اور نہ وزیر اعلی اور وزیر اعظم سے اپیل، ہمارے حکمران اگر چاتے ہیں کہ جمہوریت مضبوط اور ان کے مزے لگے رہیں تو ان کو بلدیاتی اداروں کو خود کفیل، بااختیار، خودمختار اور خود کار بنانا ہو گا ۔ لیکن یہ ہر گز ایسا نہیں کریں گے، نہ حکومت ایسا کرے گی نہ اپوزیشن یہ مطالبہ کرے گی ۔اس سے ان کا دندھا مارا جاتا ہے، جو حکومت میں ہوتا ہے اس کا جاری رہتا ہے جو اپوزیشن میں ہوتا ہے وہ باری کے انتظار میں رہتا ہے ملائی یہاں ہی تو ہے ۔ ن لیک اور پیپلز پارٹی ماضی کی بدترین سیاسی جنگ میں بھی اس بات پر متفق تھیں کہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دینے نہ انتخابات کرانے ہیں عمران خان نے بھی اس پر ان سے اتفاق کر لیا۔۔ جہاں تک تعلق ہے جمہور کا تو اب کراچی کا وہ جمہور کہاں، جس سے لرزاں تھا گردش دوراں، وہ برنس روڈ اور لیاقت آباد کے عوام زمین کے اندر چلے گئے جو صرف کراچی ہی نہیں ملک کی پالیسیاں تبدیل کراتے تھے ۔ جب وہ نکلتے تھے حکمران تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔ جب کراچی کے عوام برنس روڈ اور لیاقت آباد کے جمہور کے پیچھے نکلتے، پھر لاہور اٹھتا اور سارا پاکستان کھڑا ہو جاتا تھا حکمرانوں کی چھٹی ہو جاتی تھی خواہ وہ جمہور کے پروردہ تھے یا آمریت کی پیداوار ۔اب برنس روڈ اور لیاقت آباد والے عوام بے چارے ملکی پالیسی کیا تبدیل کرائیں گے وہ خود پالیسی کے انتظار میں ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہیں ” کیا پالیسی ہے” ۔ اب پالیسی کئی سے کئی بنتی اور باہر چلی جاتی ہے۔ اب جمہور لیاقت آباد کا ہو یا ناظم آباد کا کوئی پوچھ ہی نہیں سکتا امریکا میں کس کے کتنے پٹرول پمپ ہیں اور برطانیہ میں کتنی جائیداد۔ حتی کہ کس ،کس نے کتنی شادیاں کی اور ڈی ایچ اے میں کون کون منتقل ہوا یہ سوال بھی نہیں بنتا ۔ جہاں تک کراچی کے بلدیاتی ملازمین کا تعلق ہے ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے جو خوار و زبو ہیں، مگر زبان بند ہے کہ بھائیوں نے ایسا کرنے کو کہا ہے۔ جس ادارے کے ملازمین نے اس شہر میں اینٹ سے اینٹ جوڑ کر شہر کو تعمیر کیا، تنکا تنکا چن کر صاف کیا اور اس کو ملکہ مشرق کا نام دیا گیا۔ اس ادارے کے ملازمین ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ذلیل ہو رہے ہیں اور اکثر کے گھروں میں فاقہ کشی ہے۔ لیکن یہ مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے ادارے کا اکٹرائے ٹیکس ہی بحال کردو۔ ہم تمارے ملازمین کو بھی تنخواہ دیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اگر ان بلدیاتی ملازمین کی بھلائی کے لیے کوئی کام کرنے بھی چاہئے تو وہ خود ہی سد رہ بن جاتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن پالیسی ہے کہ ایسا ہی کرنا ہے ۔ یہ مطالبہ کون کرے کہ ہمارا سی ڈیوز سیس بحال کرو سارا پاکستان افغانستان، اور وسط ایشیا ہماری تعمیر کردہ سڑکیں استعمال کرتے ہیں ۔ انگریزوں نے اسی لئے اس شہر کی بلدیہ کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ سی ڈیوز سیس وصول کرے۔ ایک لاکھ بلدیاتی ملازمین بندر روڑ پر بیٹھ جائیں تو قائداعظم کے مزار سے ٹاور تک سڑک بھر جائے۔ اس دن یہ بین الاقوامی خبر ہو کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے بلدیاتی ملازمین فاقہ کشی کے عالم میں بچوں سمیت سڑک پر ہیں ۔نئے پاکستان کے کپتان کو یہ ٹیکس بحال کرنا پڑھ جائے۔ جب اس کو یہ معلوم ہو کہ یہ نواز شریف نے چند چنیوٹی تاجروں کے کہنے پر ختم کیا تھا تو بحالی میں اور جلدی کرے گا ۔ مگر بلدیاتی ملازمین ایسا کریں گے نہیں۔ انہیں بھائیوں سے اجازت درکار ہے، بھائیوں کا کام تو گزشتہ 30 سال سے ٹھیک ہی چل رہا ہے اور یہ چنیوٹی تاجر چندہ بھی تو دیتے ہیں ، پھر یہ سیاپہ کرنے کی کیا ضرورت ۔ نئے پاکستان والو پاکستان کے عوام سے محبت ہے تو بلدیاتی اداروں اور اکٹرائے ٹیکس کو بحال کرو۔اگر یہ نہیں کرتے تو کم از کم بلدیہ کراچی پر ہی رحم فرمائے ۔ سی ڈیوز سیس ہی بحال کر دیں ۔یہ کراچی پر احسان عظیم ہو گا۔یہ پاکستان پر احسان عظیم ہو گا۔
۔