کیا وہ جانتے ہیں؟

وسائل کی اہمیت سے کو ن ہوش مند انکار کر سکتا ہے۔ طاقت مگر ایک نفسیاتی چیز ہے۔ ایک ذہنی کیفیت۔ محمد علی جناح جانتے تھے، ہم نہیں جانتے۔ ہمارے آج کے حاکم نہیں جانتے۔ ایک تازہ پیغام میں خان صاحب نے بھارت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ کلیدی جملہ اس میں یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ پاکستان امن کا خواہشمند ہے، باقی روایتی تفصیلات۔ برسوں کے بعد کنٹرول لائن پہ آگ بجھ گئی ہے۔ جنگ کوئی ایسی چیز نہیں، جس کی تمنا کی جائے۔ فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا: میں چاہتا ہوں کہ ایران اور عرب کے درمیان آگ کی ایک دیوار حائل ہو جائے۔ تقدیر کا لکھا مگر کون ٹال سکتا۔جنگ برپا ہوئی اور برسوں برپا رہی۔ ساتھ ہی روم سے معرکہ درپیش ہوا۔ جناب خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا گیا کہ نہاوند سے فوراً بلاد شام پہنچیں۔ یہاں اتنی بڑی رومی سپاہ سے ان کا واسطہ پڑا کہ اس عہد میں جنگِ قادسیہ کے سوا شاید ہی اس کی کوئی دوسری مثال ہو۔ سینکڑوں میل کی بے آب و گیاہ مسافت، جس میں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ 1300برس بعد پہلی عالمگیر جنگ تک کوئی بڑی سے بڑی فوج اسے عبور کرنے کا خواب نہ دیکھ سکی۔ جو معرکہ شام میں برپا ہوا، فسانہ لگتا ہے۔ 9کلومیٹر تک پھیلا ہوا آٹھ دس گنا بڑا لشکر۔ آرمینیا تک کے منجھے ہوئے جنرل اس میں شامل تھے۔ تین روزہ خوں ریز جنگ کے بعد مسلمانوں نے فتح پائی۔ معرکہ سر ہوتے ہی آٹھ ہزار سپاہ کے ساتھ خالد بن ولیدؓ دمشق کو لپکے۔ ان میں چار ہزار زخم آلود تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں برس پرانے شہر کو تسخیر کر لیا۔ ایران کے بعد روم کی پسپائی کاآغاز۔ آئندہ عشروں میں مسلمان آذربائیجان، چین،افریقہ اور یورپ میں داخل ہوگئے۔ قصے کہانیوں کی بات دوسری ہے، طارق بن زیادہ کو ہسپانیہ کی فتح کی ذمہ داری سونپی نہیں گئی تھی۔ پتلی آبادی کے ساحل پر ایک عسکری ٹھکانہ تشکیل دینا تھا۔ جواں سال کمانڈر نے مگر کشتیاں ہی جلا دیں۔اس کے زیرِ سایہ جہاندیدہ کمانڈر حیران کہ یہ کہاں کی دانائی ہے۔یہ ایک بنیادی عسکری اصول ہے کہ واپسی کا راستہ کھلا رکھا جاتاہے۔ انہیں تو اور بھی احتیاط کی ضرورت تھی کہ سپاہ کی تعداد معمولی تھی۔ تشویشناک اطلاعات سمندر پار پہنچیں کہ زیتون اور انار کے باغات سے بھری سرزمین کا بڑا حصہ طارق نے پامال کر ڈالا ہے، رسد کا نظام تشکیل دیے بغیر۔ایک بڑے لشکر کے ساتھ سپریم کمانڈر موسیٰ بن نصیر نے آبنائے پار کی۔سینکڑوں کوس کی مسافت طے کرتے ہوئے اپنے ماتحت کو اس نے طلب کیا اور پوچھا کہ اس حماقت کا ارتکاب اس نے کیوں کیا۔ طارق نے ایسی دانائی کا مظاہرہ کیا کہ باید و شاید۔ عظیم جنگوں کا تجربہ نہ تھا مگر کمال کا ہوش مند۔عملیت اور رومان پسندی کے امتزاج کا ایک نادر نمونہ۔جذباتی اعتدال کی ایک حیرت انگیز مثال۔ کمال ادب کے ساتھ وہ سپریم کمانڈر کے سامنے جھکا اور غلطی کا اعتراف کر لیا۔ معاہدے پر دستخط طارق نہیں بلکہ موسیٰ بن نصیر نے کیے۔ بات چیت کا آغاز سورج غروب ہونے کے کچھ دیر بعد ہوا۔ اتنی عجلت میں عرب سالار نے طویل مسافت طے کی تھی کہ خضاب بھی نہ لگا سکا۔ چہرے پر تھکن کے آثار۔ گفتگو ناتمام رہی۔ اگلی صبح سو کر وہ اٹھا۔بال ترشوائے، خضاب لگایا، ڈھنگ کا لباس پہنا اور چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ مکالمے کا آغاز کیا۔ بدامنی میں مبتلا سرزمین کے وفد میں جو دانا شریک تھے، ان میں سے ایک نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی: ان لوگوں سے کون لڑ سکتاہے۔ کل شب یہ آدمی بوڑھا دکھائی دیتا تھا۔ اب جوان نظر آتا ہے۔ یہ آدمی ہے یا جن۔کچھ دیر میں معاہدے پر فریقین کے دستخط ثبت ہو گئے۔خراج کی رقم اور دوسری شرائط کا تعین کر لیا گیا۔ 1492ء تک مسلمان ہری بھری اس زمین پر حکومت کر تے رہے، جس کا موسم معتدل اور جس کے باغات بے نظیر تھے۔ سرزمینِ فرانس کا کچھ حصہ بھی اس میں شامل تھا۔مسلمانوں سے جو نفرت فرانس کے خمیر میں پائی جاتی ہے، اس کا ایک سبب یہ بھی ہے۔کتنی ہی صدیاں خوف کے عالم میں اہلِ فرانس نے بسر کیں کہ مسلمان آج آئے کہ کل آئے۔ ان آٹھ صدیوں میں سرزمینِ ہسپانیہ نے خوشحالی کے خیرہ کن مناظر دیکھے۔ چراغوں سے چمکتی گلیاں، آبِ رواں، ایک ایک شہر میں ہزاروں حمام اور سینکڑوں لائبریریاں۔ زمین سونا اگل رہی تھی اور آسمان سے نعمتوں کی بارش۔پھر عرب اور بربرقبائل تعصبات اور محلاتی سازشوں کی نذر ہونے لگے۔ پرسوں ایک سردار حکمران تھا، کل دوسرا چڑھ آیا اور آج تیسرا۔ ہر نیا کپتان گزشتہ کو چور، لٹیرا اور ڈاکو قرار دیتا۔ ادھر دمشق میں سلیمان بن عبد الملک سریر آرائے تخت ہوا۔ ایک نیم پاگل آدمی۔ دسترخوان پہ بیٹھتا تو کھاتا ہی چلا جاتا۔تفصیلات لکھی جائیں تو اودھ کے نواب اور نواز شریف جیسے کردار معصوم دکھائی دیں۔ بہت سا گوشت نگل چکتا تو کسی دوسرے طعام پہ ہاتھ صاف کرتا۔ طاقت کے خمار میں مبتلا، ایک بار اس نے اپنا موازنہ خلفائے راشدین کے ساتھ کیا۔کہا: بجا کہ ابو بکرؓ صدیق تھے، بجا کہ عمرؓ ابن خطاب فاروقِ اعظم، سچ ہے جنابِ عثمانؓ غنی تھے اور علی ابن ابی طالبؓ شیرِ خدا لیکن میں بھی تو جوان بادشاہ ہوں۔ خدا کی قسم میں قسطنطنیہ فتح کروں گا یا شہید ہو جاؤں گا۔ قسطنطنیہ کا قصد وہ کیا کرتا، شہید وہ کیا ہوتا، نزع کے وقت بچوں کی طرح رو یا: میرے بعد میری اولاد کا کیا ہوگا۔ عم زاد عمر بن عبد العزیزؓ نے کہا: جس پروردگار نے تجھے حکمرانی عطا کی، کیا وہ تیرے بچوں کو رزق بھی نہیں دے گا؟ کہا جاتاہے کہ امویوں کے زوال کا آغاز سلمان سے ہوا؛ اگرچہ بعد میں بھی ایک کے بعد دوسرا چھچھورا برسرِ اقتدار آیا۔ جناب عمر بن عبد العزیزؓ ایک استثنیٰ تھے ورنہ امویوں کی اکثریت ایسی پست تھی کہ سیدنا علی ابن ابی طالبؓکے خاندان پہ تبریٰ کرتے۔وہ خاندان، جیسا کہ کبھی تاریخ نے دیکھا ہی نہ تھا اور کبھی نہ دیکھے گی۔ وحشی سلیمان نے محمد بن قاسم اور سپین سے موسیٰ بن نصیر کو دمشق طلب کیا۔ ایسا سلوک ان سے کیا کہ خدا کی پناہ۔ فتوحات کا سلسلہ تو رکنا ہی تھا۔ تاریخ کاسبق یہ ہے کہ اقلیت ہمیشہ اکثریت پہ حکومت نہیں کر سکتی۔ معاشرے کا اخلاقی پیرہن بھی برباد ہوتا چلا گیا۔ گھن لگا اور بڑھتا گیا۔ صلح سے اچھی چیز کیا مگر بھارت پاکستان کے ساتھ صلح کا آرزومندہی نہیں۔ کرونا اور چین کی یلغار میں اس نے وقت ٹالنے کا فیصلہ کیا۔ دھڑا دھڑ اسلحہ وہ خرید رہا ہے۔ اس حماقت میں بھارتی مبتلا ہیں کہ چند برس کے بعد پھر سے وہ پاکستان پہ یلغار اور چین کا سامنا کرنے کے قابل ہوں گے۔ دلّی اور واشنگٹن کے ہاتھ سے وقت پھسل رہا ہے، جیسے مٹھی سے ریت۔کیا امریکی دباؤ کی شکار پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ادراک ہے؟ ہے یا نہیں ہے؟ وسائل کی اہمیت سے کو ن ہوش مند انکار کر سکتا ہے۔ طاقت مگر ایک نفسیاتی چیز ہے۔ ایک ذہنی کیفیت۔ محمد علی جناح جانتے تھے، ہم نہیں جانتے۔ ہمارے آج کے حاکم نہیں جانتے

Courtesy 92 news