پانی کی کمی کو حل کرنے کا واحد ذریعہ ڈیم نہیں ہیں

تحریر ۔۔شہزاد بھٹہ

—————–


پانی کی کمی کو حل کرنے کا واحد ذریعہ ڈیم نہیں ہیں۔
بھائی ڈیم بنانے میں ذیادہ پیسے لگتے ہیں تو فوری طور پر ڈیم مت بناو لیکن ہر بڑے قصبے اور چھوٹے شہر کے باہر بڑے بڑے کچے تالاب ضرور بنا دیں ۔ انگریز کی بری باتیں اپنی جگہ لیکن وہ کمال کا معاملہ ساز تھا۔ ہر چھوٹے بڑے شہر /گاوں میں اتنے بڑے بڑے تالاب اور جوہڑ بنائے کہ شہر یا گاوں اور قصبہ جات کی آدھی سے ذیادہ آبادی کی ضروریات وھی سے پوری ہوتی تھیں۔ یہ بارشی پانی کے بہت سے فوائد کا ایک پہلو تھا۔ اس کا بہت بڑا مخفی پہلو یہ تھا کہ پانی کی زیر زمین سطح اتنی بلند رہتی تھی کہ بعض اوقات صرف دس فٹ پر صاف اور پینے کا پانی نکل آتا تھا۔ اب بھی ہمیں ہر شہر کے نواح میں بڑے بڑے تالابوں کی ضرورت ہے جو بارشی اور سیلابی پانی کو اپنے اندر ذخیرہ کرلیں کیونکہ برسات کے موسم میں بارشیں تو ھونی ھیں کسی زمانے میں سڑکوں کے ساتھ برساتی پانی کے نکاس کے لیے نالیاں بنائی جاتی تھیں جن کے ذریعے بارش کا پانی دریاوں ندی نالوں میں چلا جاتا۔ اج کل ھم صرف سڑکیں بناتے ھیں نکاسی اب کا بندوبست نہیں ۔جس سے بارش کا پانی سڑکوں پارکوں میں ھی ضائع ھو جاتا ھے اگر برساتی نالوں میں جھیلیں یا تالاب بنا دیں تو یہ پانی ان تالابوں یا جھیلوں میں محفوظ کیا جاسکتا ھے جو کاشتکاری کے کام آئے گا ۔ ان تالابوں کی وجہ سے سیلاب روکنے میں مدد ملے گی اور زیرزمین پانی کی سطح بلند رہے گی۔ اور فضا میں گرمی کی شدت کو کم کرنے میں مدد دیں گے اور شدید گرمی کے موسم میں بادل بنانے میں مدد دیں گے۔ یہ ماحول کی شدت کو کم کریں گے اور ضائع جانے والے پانی کو روکنے میں معاون ہوں گے۔ اور انکا خرچہ چند ہزار روپے فی تالاب / گڑھا سے ذیادہ نہیں ہو گا۔ اس پر کسی صوبے شہر آبادی کو کوئی اختلاف نہیں ہو گا۔ اس عمل سے گورنمنٹ کی زمین پر ناجائز قبضہ کو بھی روکا جا سکے گا۔ اس عمل سے آپ کے ماحول میں موجود پرندوں چرندوں کے لیے گھروں کی چھتوں پر برتن نہیں رکھنے پڑیں گے۔ جن علاقوں میں پانی کڑوا ہو رہا ہے وہاں پانی میٹھا ہو جائے گا۔
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئے تو اسکو پھیلا دیں تا کہ یہ کام شروع ہو سکے۔ ڈیم نہیں بن سکتا نا سہی علاقائی پانی کے ذخیرے تو موجود ہوں گے۔ اور سیلابوں سے لاکھوں کیوسک ضائع ھونے والا قیمتی پانی بھی محفوظ ھو جائے گا