بھارت سے ایک خط

اب اذان سے پریشانی
———————-
معصوم مرادآبادی
————————


الہ آباد یونیورسٹی کی خاتون وائس چانسلر پروفیسر سنگیتا سریواستو کے اعتراض کے بعد الہ آباد کی لال مسجد کے لاؤڈاسپیکروں کی آواز کم کرکے ان کارخ دوسری طرف موڑ دیا گیا ہے۔امید کی جانی چاہئے کہ اب وائس چانسلر صاحبہ صبح کی نیند سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوسکیں گی۔معاملہ صرف یہیں تک ہوتا تو شاید ہمیں یہ مضمون لکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، لیکن اس کارروائی کے بعد فرقہ پرستوں کے خیموں میں پروفیسر سنگیتا سریواستو کی قدرومنزلت میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے اوراسی نے ہمیں آپ کی سمع خراشی پر مجبور کیا ہے۔ اس واقعہ سے تحریک پاکروشوہندوپریشد کی فائر برانڈ لیڈر سادھوی پراچی نے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے مطالبہ کیا ہے کہ ”پورے صوبے کی مسجدوں میں لاؤڈاسپیکر وں کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے۔“
دراصل الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے سینئر افسران کو خط لکھ کر اس بات کی طرف متوجہ کیا تھا کہ ”اذان کی اواز سے ان کی نیند میں خلل واقع ہورہا ہے۔ ہرصبح ساڑھے پانچ بجے مائک پر دی جانے والی اذان سے ان کی نیند کھل جاتی ہے اوردن بھر ان کے سر میں شدید درد رہتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے کام کا حرج ہوتا ہے۔“ اپنا بچاؤ کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”میں کسی مذہب، ذات یا فرقہ کی مخالف نہیں ہوں، لیکن وہ مائک کے بغیر بھی اذان دے سکتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ پریشان نہ ہوں۔ یہاں تک کہ وہ رمضان میں سحری کا اعلان صبح چار بجے شروع کردیتے ہیں۔ اس عمل سے بھی دوسروں کو پریشانی ہوتی ہے۔“ وائس چانسلر صاحبہ نے اپنے خط میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں کہا گیا تھاکہ”ہوسکتا ہے کہ اذان اسلام کا ایک لازمی حصہ ہو،لیکن مائک اور لاؤڈاسپیکر کو اسلام کا لازمی جز قرار نہیں دیا جاسکتا۔“
وائس چانسلر سنگیتا سریواستو نے اپنے اس خط کی کاپی پریاگ راج(رینج)کے آئی جی، ایس ایس پی اور ڈیویژنل کمشنر کو بھی روانہ کی تھی تاکہ ان کی آواز دور تک سنائی دے۔یہی ہوا بھی کہ ان کے خط پر اتنی تیزی کے ساتھ کارروائی ہوئی کہ اس کی اشاعت کے اگلے ہی روزکلائیو روڈ پر واقع تاریخی لال مسجد کے منتظمین نے لاؤڈاسپیکروں کی آواز کم کردی اور ان کا رخ وی سی کی رہائش گاہ کی طرف سے ہٹا دیا۔ مسجد کے متولی کلیم الرحمن کا کہنا ہے کہ ”ہماری منتظمہ کمیٹی نے آواز کم کرنے اور لاؤڈاسپیکروں کا رخ موڑنے کا فیصلہ ازخود لیا ہے تاکہ وائس چانسلر کو کوئی پریشانی نہ ہو۔“اس دوران پریاگ راج زون کے آئی جی مسٹر کے پی سنگھ کا ایک خط سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جو پروفیسر سنگیتا تیواری کے مذکورہ خط کے بعد زون کے چاروں اضلاع پریاگ راج، پرتاپ گڑھ، کوشامبی اور فتح پور کے اعلیٰ افسران کو بھیجا گیا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں لاؤڈ اسپیکروں کا استعمال رات دس بجے تا صبح چھ بجے نہ ہونے دیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ فجر کی اذان کو نیند میں خلل ڈالنے والا قرار دے کر مسجدکے لاؤڈاسپیکروں کی آوازکم کی گئی ہے یا اس کا رخ تبدیل کیا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے کئی بار ایسا ہوچکا ہے اور ہر بار یہی دلیل دی جاتی ہے کہ نماز کے لیے اذان تو ضروری ہے،لیکن اس کے لیے لاؤڈاسپیکر کا استعمال ضروری نہیں ہے۔ پچھلے دنوں ممبئی میں مقیم گلوکار سونو نگم نے بھی اسی انداز میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اوروہ بھی اسی طرح فرقہ پرستوں کے نورنظر بن گئے تھے جس طرح آج کل وائس چانسلر صاحبہ بنی ہوئی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی مسلم شناخت پر حملہ آور ہوتا ہے تو وہ راتوں رات فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کا ہیروبن جاتا ہے۔ یہ اچانک ہونے والا عمل ہے یاسب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اس مسئلہ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ جب بھی صوتی آلودگی کا مسئلہ اٹھتا ہے تو مسجد کے میناروں سے بلند ہونے والی فجر کی اذان ہی سب سے پہلے اس کی زد میں آتی ہے۔ اس موقع پر شادی بیاہ اور دیگر مذہبی تقریبات میں بجنے والے ڈی جے اور شور شرابے پر کسی کی نگاہ نہیں جاتی۔
جہاں تک فضائی آلودگی پھیلانے کا سوال ہے تو ہر لاؤڈاسپیکر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے۔ خواہ وہ مسجد کے مینار پر ہویا پھر مند رکے کلش پر، وہ گرودوارے پر ہو یا کلیسا پر یا پھر شادی بیاہ کے مقام پر۔ جب ہائی کورٹ نے یہ حکم دے رکھا ہے کہ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک لاؤڈاسپیکر کا استعمال ممنوع ہے تو پھر شادی کی تقریبات میں ساری رات کان پھاڑنے والی آوازوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟۔پچھلے کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کانوڑ یاترائیں ڈی جے کے زبردست شورشرابے کے ساتھ نکالی جارہی ہیں اور ان پر کوئی اعتراض درج کرانے والا نہیں ہے۔اس کے علاوہ دیگر مذہبی جلوسوں اور تقریبات پر بھی کان میں شگاف ڈالنے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یہ پروگرام چوبیس گھنٹوں جاری رہتے ہیں، لیکن آج تک کسی کو انھیں بند کراتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ ہاں جب کوئی کسی مسجد کے لاؤڈاسپیکر پر نکتہ چینی کرتا ہے تو انتظامیہ اس تیزی کے ساتھ حرکت میں آجاتا ہے کہ ساری آلودگی اذان سے ہی پھیل رہی ہے۔
دہلی میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے بنائے گئے نیشنل گرین ٹریبونل(این جی ٹی)نے کئی مسجدوں کے لاؤڈاسپیکر اتروادئیے ہیں اور کئی دیگر مسجدیں اس کے نشانے پر ہیں۔این جی ٹی نے ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اس کام کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکروں کو آلودگی پھیلانے کے لیے ذمہ دار پایا۔آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ برس لاک ڈاؤن کے دوران کچھ پولیس والے ایک مسلم علاقہ میں آدھمکے اور وہاں ایک مسجد میں لگے ہوئے لاؤڈاسپیکر کو اتارنے کا حکم دیا۔ اس کارروائی کے لیے دہلی کے لیفٹنٹ گورنر کے کسی حکم کو بہانہ بنایا گیا، جب مقامی لوگوں نے پولیس والوں سے تحریری حکم نامہ دکھانے کو کہا تو وہ بہانے بازی کرنے لگے۔بعد کو جب اس معاملے نے طول پکڑا تو پولیس کو یہ وضاحت کرنی پڑی کہ لاک ڈاؤن کے دوران اذان تو این جی ٹی کے ضابطوں کے مطابق جاری رہے گی، لیکن نماز گھر پر ہی ادا کی جائے گی۔
دوسال قبل اکھنڈ بھارت مورچہ نام کی ایک این جی او نے دہلی گرین ٹریبونل میں ایک عرضی داخل کرکے کہا تھاکہ ”دہلی کی بعض مسجدوں کی سرگرمیاں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ایکٹ مجریہ 1986کی خلاف ورزی کررہی ہیں اور صوتی آلودگی پھیلارہی ہیں۔“ اس عرضی پر این جی ٹی کے چیئر پرسن جسٹس جواد رحیم نے وزارت داخلہ اور دہلی پالوشن کنٹرول کمیٹی کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا تھا۔ اس عرضی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مسجدوں میں لاؤڈاسپیکروں کا غیرقانونی استعمال اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کی صحت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔اس کے بعد این جی ٹی نے دہلی کی کئی مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹوائے تھے۔یہاں سوال یہ ہے کہ جب بھی صوتی آلودگی کا سوال کھڑا ہوتا ہے تو سب سے پہلے لوگوں کی نظراذان پر ہی کیوں پڑتی ہے۔ انھیں صوتی آلودگی پھیلانے والی دیگر چیزیں کیوں نظر نہیں آتیں؟ ظاہر ہے یہ سب کچھ فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کی جانب سے مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے ہی کیا جاتا ہے اور یہ کارروائی جس انداز میں صرف مسجدوں کے خلاف انجام دی جاتی ہے، اس سے انتظامیہ اور پولیس کا متعصب کردار بھی اجاگر ہوتا ہے۔
اس پوری بحث کا ایک قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ فجر کی اذانیں ہمارے غیر مسلم برادران وطن کی نیندوں میں تو خلل ڈالتی ہیں، لیکن یہ اذانیں جن لوگوں کو نیند سے بیدار کرنے اور انھیں یہ پیغام دینے کے لیے بلند ہوتی ہیں کہ”نماز نیند سے بہتر ہے“ وہ لوگ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟کاش فجر کی اذانیں ان لوگوں کو بھی بیدار اور بے چین کرسکیں جن کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے دی جاتی ہیں۔