منی بجٹ، 140ارب کے ٹیکس، فلم انڈسٹری، ٹیکسٹ بکس، فریش گریجویٹس، آئی پی پیز، رئیل اسٹیٹ، انوسٹمنٹ، سکوک بانڈز پر استثنیٰ ختم

صدر مملکت نے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس2021ء جار ی کر دیا جو فوری طور پر نافذ ہوگا، اس سےمختلف شعبوں کا140 ارب روپے کا انکم ٹیکس استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔عوام اسے منی بجٹ قرار دے رہے ہیں۔ٹیکس قوانین میں 75سے زائد ترامیم کی گئی ہیں ۔ انکم ٹیکس آرڈیننس میں ایک نیا تیرواں شیڈول متعارف کرایا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق فلم انڈسٹری ، ٹیکسٹ بکس ، فریش گریجویٹس ، آئی پی پیز، رئیل اسٹیٹ انوسٹمنٹ، سکوک بانڈز پر استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے ، این ٹی این آویزاں نہ کرنیوالے کاروباری افراد پر 5ہزار، ٹیکس اکٹھا کرنے یا منہا کرنے میں ناکامی پر 40ہزار یا ٹیکس رقم کا 10فیصد جرمانہ ہوگا۔

پی سی بی سمیت کھیلوں کی تنظیموں کو ٹیکس چھوٹ ، ٹیکس کریڈٹ میں تبدیل ہوگیا ، آٹو ڈس ایبل سرنجز پر چھوٹ برقرار رہے گی ۔ ٹیکس کمشنر کو کاروبار یا احاطہ ، دستاویزات ، کمپیوٹرز یا اسٹاک تک رسائی سے روکنے والے کو 50ہزار یا ٹیکس کا 50فیصد جرمانہ ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق صدر مملکت نے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس2021ء جار ی کر دیا ، اس سےمختلف شعبوں کا140ارب روپے کا انکم ٹیکس استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔

ٹیکس قوانین میں 75سے زائد ترامیم کی گئی ہیں ، انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2021ء کے تحت 70ارب روپے سے 140ارب روپے ریونیو حاصل ہوگا ، انکم ٹیکس آرڈیننس میں ایک نیا تیرواں شیڈول متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت 62غیر منافع بخش تنظیموں کو انکم ٹیکس استثنیٰ حاصل رہے گاجن غیر منافع بخش تنظیموں کو ٹیکس استثنیٰ حاصل رہے گا۔

ان میں شوکت خانم میموریل ٹرسٹ ، شریف ٹرسٹ ، عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ، سیٹزن فائونڈیشن ، فاطمید فائونڈیشن کراچی ، الشفاء ٹرسٹ ،ممتاز بختاور میموریل ٹرسٹ، ریڈ کریسنٹ سوسائٹی ،الشفاآئی ٹرسٹ ہسپتال ، اخوت ، پاکستان ایڈ فائونڈیشن ، الخدمت فائونڈیشن ، وزیراعظم فلڈ ریلیف فنڈ 2010اور صوبائی وزرائے اعلیٰ فلڈ ریلیف فنڈ2010سمیت 62ادارے شامل ہیں جبکہ پی سی بی سمیت کھیلوں کی تمام تنظیموں کو ٹیکس چھوٹ حاصل ہوگی۔

جون2024تک وزیراعظم اسکیم کے تحت مکمل ہونیوالے مکانات کو بھی ٹیکس استثنیٰ حاصل رہے گا، جن چیدہ چیدہ شعبوں کا انکم ٹیکس ختم ہو جائے گا ان میں آئی پی پیز ، رئیل اسٹیٹ انوسٹمنٹ ٹرسٹ، مضاربہ کمپنیاں ، سکوک بانڈز کی آمدن اور منافع ، مینوفیکچرنگ شعبے کو پلانٹ اور مشینری کی تبدیلی پر حاصل ٹیکس استثنیٰ بھی ختم ہو جائے گا۔

انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس کا2021کا اطلاق فوری طور پر ہوگا ، آرڈیننس کے تحت کاروباری افراد کو اپنا این ٹی این آویزاں کرنا ہوگا ، این ٹی این آویزاں نہ کرنے کی صورت میں5ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائےگا، اس آر ڈیننس کے سیکشن 160کےتحت ٹیکس اکھٹا کرنے یا منہا کرنے میں ناکامی کی صورت میں اس شخص پر 40ہزار روپے یا ٹیکس کی رقم کے 10فیصد جرمانہ کیا جائے گا، کوئی بھی شخص جو ٹیکس کمشنر کو اپنے کاروبار یا احاطہ ، دستاویزات ، کمپیوٹرز یا سٹاک تک رسائی سے روکے گا یا اجازت نہیں دے گا اسے 50ہزار روپے جرمانہ یا ٹیکس کی رقم کے 50فیصد جرمانہ عائد ہو گا۔

آر ڈیننس کے تحت کوئی بھی شخص جو ٹیکس گوشوارے میں مختلف کلکولیشنز کو ایک سال سے زائد کے لیے دہرائے گا جبکہ ٹیکس کی رقم اصل قابل ٹیکس سے کم ہوگی تو اس پر چار ہزار روپے یا ٹیکس کی رقم کا تین فیصد جرمانہ عائد ہوگا، کوئی بھی شخص جو اپنی ٹیکس اسٹیٹمنٹ تیار کرنے میں ناکام ہوگا اس پر پانچ ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا،کوئی بھی شخص جو مقررہ وقت کے اندر ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے گا اس پر قابل ادائیگی ٹیکس کا 0.1؍ فیصد جرمانہ عائد ہوگا۔

نئے گریجویٹس کی ملازمت کی صورت میں ان کی سالانہ آمدن کو پہلے ٹیکس استثنیٰ حاصل تھا جسے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس 2021ء کے تحت ختم کر دیا گیا ہے۔ ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس 2021کے تحت ٹیکس چھوٹ کے خاتمے سے 140 ارب روپے کی آمدن ہوگی۔

صدارتی آرڈیننس کے مطابق تھر مائننگ کمپنی اور فریش گریجویٹس کو حاصل ٹیکس چھوٹ واپس لے لی گئی، لیبیا فارن انویسٹمنٹ کمپنی کے منافع اور سعودی پاک انڈسٹریل اینڈ ایگریکلچر انویسٹمنٹ کمپنی پر انکم ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے، آئندہ سے کمپنی میں سرمایہ کاری کے منافع پر انکم ٹیکس عائد ہوگا۔

آرڈیننس کے تحت نئی آئل ریفائنری لگانے پر صرف 31؍ دسمبر 2021ء تک چھوٹ ہوگی، یکم جنوری سے نئی آئل ریفائنری لگانے پر ٹیکس عائد ہوگا، نجی بجلی گھروں پر یکم جولائی 2021ء کیلئے انکم ٹیکس عائد کردیا گیا، درسی کتابیں شائع کرنیوالے بورڈز پر بھی انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ترمیمی آرڈیننس کے مطابق فلم انڈسٹری کیلئے ٹیکس چھوٹ بھی واپس لے لی گئی ہے۔
———jang—-report——https://jang.com.pk/news/902700?_ga=2.141934258.1012187886.1616739955-682935939.1616739954
—————–

مہنگے ترین شہروں میں کراچی سرفہرست، بہاولپور سب سے سستا
———
مہنگے ترین شہروں میں کراچی سرفہرست، بہاولپور سب سے سستا، کراچی میں سرکاری اور دکاندار کے نرخوں میں فرق 94.81 فیصد جبکہ بہالپور میں یہ فرق 9.25 فیصدریکارڈ کیا گیا

ناجائز منافع خوری میں ملک کے بڑے شہر سب سے آگے، حکومتی رٹ صر ف چھوٹے شہروں تک محدود، پورے ملک میں کسی بھی شہر میں حکومتی نرخ ناموں کے مطابق اشیائے خور و نوش فروخت نہیں کی جا رہیں۔

پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) نے قیمتوں کے تضاد کے حوالے سے سروے رپورٹ جاری کردی، اس سرکاری سروے میں کراچی اور لاڑکانہ قیمتوں کے فرق کے لحاظ سے صارفین کے لئے مہنگے ترین اور بہاول پور سب سے کم مہنگا شہر بن کر سامنے آئے ہیں۔

کراچی میں حکومتی نرخوں اور دکاندار کے نرخوں میں تضاد کا تناسب 94 فیصد سے بھی تجاوز کرگیا جبکہ بہاولپور انتظامیہ قیمتیں کنٹرول رکھنے میں سب سے آگے نظر آئی، جہاں تناسب صرف 9.25 رہا۔

سروے کے مطابق صارفین کی قیمتوں اور ڈی سی نرخوں کے درمیان کراچی میں سب سے زیادہ فرق94.81 فیصد ہے، اس کے بعد لاڑکانہ 49.54 فیصد، سکھر 38.77 فیصد، حیدرآباد 28.34 فیصد ہے۔

پنجاب کے بڑے شہروں میں قیمت کا فرق بہت کم شرح پر برقرار رہا، بہاولپور میں سب سے کم 9.25 فیصد، سیالکوٹ میں 10.35، لاہور 10.53فیصد، راولپنڈی 11.84فیصد، سرگودھا 12.98فیصد، فیصل آباد 16.16فیصد، ملتان 21.65فیصد، گوجرانوالہ 18.75فیصد، اسلام آباد میں قیمتوں کا فرق 19.16فیصد ریکارڈ کیا گیا۔

اسی طرح خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور میں 17.09فیصد، بنوں شہر 26.75 فیصد فرق ریکارڈ کیا گیا۔ صوبہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں سرکاری انتظامیہ کے نرخوں اور مارکیٹ کے نرخوں میں تضاد 30.81 فیصد، خضدار 38.53 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
https://jang.com.pk/news/902791?_ga=2.147316535.1012187886.1616739955-682935939.1616739954
——————
وزارت خزانہ نے اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے سے متعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021ء کی مجوزہ تجاویز پر مشتمل مسودہ جاری کر دیا،مجوزہ ترامیم میں گورنر، ڈپٹی گورنر اوربورڈ ممبران کی تعیناتی کی مدت 3 سال سے بڑھاکر5 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ مسودے کےمطابق ایکٹ کی منظوری کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک سمیت ملازمین کو نیب ، ایف آئی اے، صوبائی تحقیقاتی ایجنسیوں ، بیورو ، اتھارٹی یا اداروں کی انکوائریوں سے چھوٹ حاصل ہو جائے گی اور کسی قسم بھی کارروائی کےلیے بورڈ آف ڈائر یکٹرز کی پیشگی اجازت لازمی ہوگی ، اسٹیٹ بینک کےتمام ملازمین پر سرکاری ملازمین سے متعلق قوانین لاگو نہیں ہونگے اور گورنر، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک اور بورڈ آف ڈائریکٹرز، مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ارکان کوبھی قانونی کارروائیوں سے چھوٹ حاصل ہو گی۔ مسودے میں بظاہر بدنیتی کی بنیاد پر بینک کےکسی ملازم کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی تجویزدی گئی ہے، بورڈآف ڈائریکٹرز کی اجازت سے قبل گورنر اسٹیٹ بینک کےخلاف کوئی کارروائی شروع نہ کرنے اور سابق گورنر، ڈپٹی گورنرز اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی تمام انکوائریوں سے چھوٹ دینے کی تجویز دی گئی ہے، صدر مملکت کو حکومت کی سفارش پر گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری کا اختیار دینے کی تجویز دی گئی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک وزیر خزانہ کی مشاورت سے ڈپٹی گورنر کے نام تجویز کریں گے، گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت تین سال کی بجائے 5سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے، ایگزیکٹو کمیٹی گورنر، ڈپٹی گورنرز، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور متعلقہ افسران پر مشتمل ہوگی، آڈٹ کمیٹی کی سفارش پر بینک کے ملازم کو چیف انٹرنل آڈیٹر تعینات کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ کے سامنے سالانہ رپورٹ پیش کرنے کی سفارش بھی مسودے میں شامل ہے۔ قبل ازیں ملک کی معیشت سے متعلق سہ ماہی رپورٹ پارلیمنٹ میں بورڈپیش کرتا تھا ، پارلیمنٹ اسٹیٹ بینک کے کسی بھی ملازم کو طلب کرنے کی مجاز ہوگی ، اسٹیٹ بینک کےمانیٹری و مالیاتی پالیسی کوآرڈی نیشن بورڈ کو ختم کر دیا جائے گا ،گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیرخزانہ تمام اہم امور پر ایک دوسرے کو آگاہ رکھیں گے، اسٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد مقامی سطح پر قیمتوں میں استحکام اور مالیاتی استحکام قائم کرنا ہوگا اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کو حمایت اور وسائل کو استعمال میں لاکر ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہے، اسٹیٹ بینک کا ابتدائی سرمایہ 10؍ کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک سو ارب روپے ہو جائے گا جبکہ مجاز سرمایہ 500ارب روپے ہوگا، بینک کے قابل تقسیم منافع کی سالانہ بنیادوں پر 20فیصدتک برقرار رکھتے ہوئے بینک کے سرمایہ اور عام ذخائر کو مانیٹری واجبات کے 8؍ فیصد تک بڑھا جا سکے گا، اگر اسٹیٹ بینک کے ذخائر صفر سے بھی کم ہو کر منفی ہو جاتے ہیں تو بورڈ اس کی وجوہات کی ایک رپورٹ تیار کرے گا اور وفاقی حکومت ادا شدہ سرمائے کو برقرارر کھنے کیلئے ضروری رقم منتقل کرے گی ، قبل ازیں بینک کے وسائل کو برقراررکھنے کےلیے ایسا کوئی فارمولا نہیں تھا ، نئے قانون کے تحت حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکے گی، اسٹیٹ بینک کےلیے اب دیہی قرضے ، صنعتی قرضے ، برآمدی قرضے ، قرضوں کی ضمانت اور ہائوسنگ قرضوں کی فراہمی لازمی نہیں ہوگی جو قبل ازیں لازمی تھی ، اور اسٹیٹ بینک حکومت کی جانب سے مانیٹری کارروائی کرتے ہوئے ان کو ختم کر سکے گاتاہم غریب طبقات کےلیے بینک کو قرضوں تک رسائی دینے کی سہولت ہوگی،1956ء کے اسٹیٹ بینک ایکٹ کے ابتدائیہ کو مجوزہ ترامیم میں وسعت دی گئی ہے۔ مجوزہ ترامیم میں اسٹیٹ بینک کے بنیادی مقاصد و اہداف میں قیمتوں کے اندرونی استحکام کو بنیادی ہدف، مالیاتی استحکام کو ثانوی ہدف اورترقی کے عمل کوتیز کرنے ووسائل کے بھرپوراستفادہ کویقینی بنانے کیلئے حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی معاونت کوتیسرا اہم ہدف مقررکرنے کی تجویز دی گئی ہے۔مجوزہ ترامیم کے مطابق اگر سرمایہ (کیپٹل) اورعام ذخائرمنفی میں چلے جائے تواس صورت میں بورڈ اس کی وجوہات پر رپورٹ تیارکرنے کاپابندہوگا۔
https://jang.com.pk/news/902793?_ga=2.112163844.1012187886.1616739955-682935939.1616739954