بلوچستان میں دربدری کی زندگی

عزیز سنگھور

روزنامہ آزادی، کوئٹہ
————————-
بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کے عوام کی زندگی کو ریت کے ٹیلوں نے عذاب میں ڈال دیا۔ شہر کے بیشتر علاقے ریت کے ٹیلوں کی زد میں ہیں۔ریت کے یہ ٹیلے متعدد مکانات، اسکول اور کھیل کے میدانوں کو نگل چکےہیں۔ جس کی وجہ سے سینکڑوں خاندان بے گھر ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد یہاں رہائش پذیر افراد بے چینی کی کیفیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لوگ اپنی چھت سے محروم ہوگئے ہیں۔ پسنی میں رہائش ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے۔جبکہ دوسری جانب بلوچستان حکومت کے متعلقہ ادارے اس اہم قدرتی آفت سے بچاؤ کے لئے لوگوں کی مدد کرنے میں قاصر ہے۔ بجائے انہیں چھت جیسی اہم بنیادی سہولیات فراہم کریں بلکہ انہیں نئے گھر بنانے کے لئے بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب یہی ادارے نجی بلڈرز کو سرکاری اراضی مبینہ طورپر الاٹ کررہے ہیں۔ لوگوں کی جدی پشتی اراضی کو ان سے زبردستی چھینا جارہا ہے۔ ان بلڈرز کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔
بحرہ بلوچ کے کنارے واقع پسنی شہر کے اطراف میں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے موجود ہیں۔ان میں سب سے بڑا ٹیلا جو مقامی آبادی میں مستانی ریک (ریت) کے نام سے مشہور ہے۔ مستانی ریک کے اردگرد پوری آبادی پر ریت کے ٹیلوں نے حملہ کردیا۔ جس سے ان کے گھربار ریت میں دھنس گئے۔ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے جان بچاکرجڈی ہور کے ساحل پر پناہ لے لی۔ ضلعی انتظامیہ نے بجائے لوگوں کی ری سیٹلمنٹ کے لئے اقدام اٹھاتی الٹا مقامی آبادی کو نوٹس جاری کردیئے ہیں اوران کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ اس سلسلے میں علاقے کے خواتین اور بچوں نے احتجاج بھی کیا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ شہریوں کو رہائشی سہولیات فراہم کریں۔ انہیں چھت دلائیں۔ مگر ضلعی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت ملک میں پچاس لاکھ بے گھرافراد کوگھر فراہم کریں گے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں گھر بناکردینا تو دور کی بات ہے۔ بلکہ ریت کے عذاب سے بچنے کے لئے انہیں ساحل پر اپنی مدد آپ کے تحت گھر بنانے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ہے۔
پسنی کے ماہی گیر اپنی املاک کے ٹیلوں میں غرق ہونے سے خوف کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔تاہم ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لینے پر بے چارگی اور مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ابھی آفت کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو وہ وقت دور نہیں جب پورا پسنی شہر ریت کے نیچے دب کر تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔
قدرت کا کھیل بھی عجیب ہوتا ہے۔ 1945 کو پسنی شہر کو سونامی نے تباہ کردیا تھا۔ اگر ان کی تھوڑی بہت بچت ہوئی۔ وہ ان ریت کے ٹیلوں کی وجہ سے ہوئی۔ ان ریت کے ٹیلوں نے سونامی کی بے رحم یلغار کا مقابلہ کیا۔ آج وہی محافظ (ریت) عوام کے لئے دوسرا سونامی بن چکا ہے۔ ان کے گھر سمیت سرکاری اسکول اور کھیل کے میدان بھی ریت کے نیچے دب گئے۔
دوسری جانب پسنی میں لینڈ مافیا کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ کیونکہ سی پیک کی اہمیت کی وجہ سے پسنی کی اراضی بھی گوادر کی اراضی کی طرح ان کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ اس لیے پسنی کی مقامی انتظامیہ اور غیر مقامی افراد کی نظریں اب پسنی کی اراضی پر لگی ہوئی ہیں۔لیکن یہ اراضی پسنی کے مقامی ماہی گیروں کی ملکیت ہیں۔گذشتہ کافی عرصے سے اس خطے کی قیمتی اراضیات و قیمتی زمینوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ 90 کی دھائی میں ضلعی انتظامیہ نے مقامی افراد کو رہائشی منصوبہ دینے کے لئے پسنی ایئر پورٹ روڈ پر زرین ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد ڈالی ۔ یہ سرکاری سوسائٹی مالی بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے ایک ادھورا خواب میں تبدیل ہوگیا۔ جبکہ لوگوں سے پہلا فیز الاٹ کرنے کے لئے پانچ کروڑ سے زائد رقم بٹور لئےگئے۔ تاہم منصوبے پر کام شروع نہیں کیاگیا۔ جس کی وجہ سے پسنی میں رہائش ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ حالانکہ زرین ہاؤسنگ سوسائٹی ایک ہزار ایکڑ کے لگ بھگ پرمشتمل ہے۔ اگر بلوچستان حکومت چاہےتو وہ پسنی کے عوام کو اس سوسائٹی کے ذریعے بہتر سے بہتر رہائشی منصوبہ دے سکتی ہے۔ اور اس اسکیم کو صرف پسنی کے عوام کے لئے مختص کرسکتی ہے۔ اور یہاں کے ریت کے متاثرین کو نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت آباد کیا جاسکتا ہے۔
دوسرا اہم سبب بلوچستان میں امن و امان کامسئلہ ہے۔ جتنے بھی پسنی شہر کے اردگرد کے علاقے ہیں جہاں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے۔ وہاں لوگوں نے سر چھپانے کے لئے پسنی کی طرف رخ کرلیا ۔جنگ کی وجہ سے لوگ اپناگھر بار چھوڑ کر پسنی ایئر پورٹ روڈ پرقائم حیدرگوٹھ، نادل گوٹھ، وشدل گوٹھ اور خداداد گوٹھ میں آکر آباد ہوگئے۔حالانکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ خاندان کی مدد کریں۔ انہیں بہتر سے بہتر رہائش فراہم کریں۔ جیسے خیبرپختونخواہ میں وزیرستان اور دیگر علاقوں کے آئی ڈی پیز کو حکومت نے رہائشی اور مالی اعانت کی۔مگر بلوچستان کے آئی ڈی پیز دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مبجور ہیں۔آئی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے پورے بلوچستان میں اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ 2001 سے لیکر آج تک بلوچستان کے مختلف اضلاع میں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔اس حوالے سے پورے بلوچستان میں رہائش ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کی اصل وجہ جنگ کی صورتحال ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ڈیرہ بگٹی، کوہلو، آواران، کولواہ، کلانچ، دشت، بلیدہ، مند، پنجگور، بولان، سمیت دیگر علاقوں میں لاکھوں لوگ ہجرت کررہےہیں۔ بعض افراد سندھ کے مختلف اضلاع میں آکر آباد ہوگئے ہیں۔ جبکہ ضلع لسبیلہ میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے پناہ لے لی ہے۔ لاکھوں لوگ آئی ڈی پی کی حیثیت سے رہتے ہیں اور ان میں سے 33 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ گمنامی کے ساتھ دفن ہورہے ہیں۔ نہ عالمی میڈیا اور نہ عالمی ادارے اور نہ ہی خیراتی ادارے کبھی ان کے پرسان حال بنےہیں۔بلوچستان میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ اہلکار جان سلیکی کا اغوا بھی عالمی اداروں کی خاموشی کا تسلسل تھا۔ جس کی بازیابی بلوچ گوریلا رہنما نواب خیربخش مری کی اپیل کے نتیجے میں ہوئی۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہےکہ یونیسف جیسے عالمی اداروں سمیت ، ایدھی فاونڈیشن جیسے خیراتی اداروں کو بلوچ پناہ گزینوں کی کوئی مدد نہ کرنے کا اشارہ دیاگیا۔ حالانکہ عالمی قوانین کے مطابق جنگ سے متاثر خاندان بحالی حکومت اور عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انہیں ہر ماہ نقد، راشن، کھانے پینے کی دیگر اشیا اور رہائش فراہم کیا چاہئے ۔ جس کی مثال ہمارے سامنے خیبر پختونخوا کے آئی ڈی پیز ہیں۔ جنہیں عالمی ادارے سمیت حکومت ان کی مدد کرتی رہی۔
شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو حکومت کی جانب سے ہر ماہ 12 ہزار روپے نقد، راشن اور کھانے پینے کی دیگر اشیا فراہم کی جاتی تھیں۔ شاید بلوچستان میں عالمی اور حکومتی اداروں بلوچوں کو انسان نہیں سمجھتے ۔ انہیں بلوچستان کے وسیع و خوبصورت ساحل اور معدنیات سے پیار ہے۔ لیکن ان کے سامنے بلوچستان کے عوام کی زندگی کوئی معنی و قدر نہیں ہے۔

————

بلوچستان میں دربدری کی زندگی