پی ڈی ایم کی تقسیم میں خان کی مشکل!!

تحریر: عبدالجبارناصر

بظاہر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (#PDM ) کی 16 مارچ 2021ء کو واضح تقسیم کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے ، جبکہ اپوزیشن کمزور ہوگئی ہے ،مگر ملک میں ہر شعبے کی بربادی اور موجودہ حکمرانوں کی ناکامیوں کی وجہ شدید دبائو کی شکار اسٹبلشمنٹ کے پاس متبادل نہیں تھا۔ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو 2019ء کے وسط سے ہی خان صاحب اور اسٹبلشمنٹ ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی مجبوری بنے ہوئے ہیں ۔ دوسری جانب اپوزیشن میں مستقبل کے حصے کی جنگ جاری ہے۔

حالات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اور انکی حکومت جب بھی مشکل میں پھنس جاتی ہے تو وہ اسٹبلشمنٹ کو مدد کے لئے یہ کہکر مجبور کرتی ہے کہ ’’اگر مجھے کچھ ہوا تو نوازشریف اور مریم نواز شریف آئیں گے‘‘۔ اگر کہیں پر اسٹبلشمنٹ پھنس جاتی ہے تو وہ مدد کے لئے خان صاحب کو یہ کہکر بلاتی ہے کہ ’’اگر ہمیں پسپائی ہوئی تو پھر مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف تیارہیں‘‘۔ یوں ہر دو جانب سے بادی النظر میں بلیک میلنگ جاری ہے اور دونوں ایک دوسرے سے خوش بھی نہیں ہیں۔

خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کی خواہش ہے کہ اسٹبلشمنٹ آئین ، قوانین ، قواعد و ضوابط ، اخلاقیات اور روایات کو پامال کرتے ہوئے ، انکی ہر خواہش پوری کرے ،مگر اسٹبلشمنٹ کے لئے کلی طور پر ایسا کرنا انتہائی مشکل ہے اور اوپر سے خان صاحب کی 31 ماہ کی بدترین کارکردگی اور مسلسل بد نامی سے اسٹبلشمنٹ پریشان ہے ۔لگ رہاہے کہ متبادل کی تلاش میں ہے۔ خان صاحب کارکردگی میں کچھ کرکے دکھائیں تو ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ بھی مزید کچھ قدم آگے بڑھے مگر یہاں تو سوائے خیالی پلائو، ہوائی باتوں اور فضول دھمکیوں کے کچھ نہیں ہے۔یہ کٹا کٹی ، مرغا مرغی ، 12 موسم ، این آر او نہیں دونگا، نہیں چھوڑونگا یا جو لب و لہجہ خان صاحب کا ہے وہ زیادہ دیر نہیں چلنے والا ہے ، کیونکہ عوام کی اب بس ہوگئی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی یہ مجبوری ہے کہ کوئی دوسری موئثر قوت بھی دستیاب نہیں ہورہی ہے ۔

موجودہ صورتحال میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فی الحال ن لیگ کے لئے جگہ نہیں ہے اور پیپلزپارٹی اعلانیہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی ، یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن اتحاد ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم )‘‘ کے قیام ، بلکہ 25 جولائی 2018ء سے پیپلزپارٹی اور باقی اپوزیشن جماعتوں کے موقف میں واضح فرق ہے۔ شروع میں ن لیگ کے صدر میاں محمد شہباز شریف بھی پیپلزپارٹی کے موقف کے حامی تھے اور یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھانے کے موقف کے خلاف پیپلزپارٹی اور ن لیگ ایک پیج پر رہے ، مگر ن لیگ کے پنجاب حکومت سے محرومی، پے در پے گرفتاریوں اور مسلسل تضحیکی عمل کے بعد ن لیگ میں شہباز شریف بیانیہ مکمل ناکام رہا اور اب ن لیگ اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کے بیانیہ پر مریم نواز کی قیادت میں کلی طور پر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کھڑی ہے۔

یہ بات تو طے تھی کہ پیپلزپارٹی نے اپوزیشن اتحاد سے ایک دن الگ ہونا ہے ، اس کی وجہ ن لیگ کا بہت ہی سخت اسٹبلشمنٹ مخالف رویہ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں سے فوری مستعفی ہونے کا مشکل ترین موقف ہے ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ مستعفی ہوکر اسٹبمشمنٹ مخالف بیانیہ کے ساتھ میدان میں اترتی ہے تو نہ صرف سندھ کی صوبائی حکومت سے محرومی ہوگی ، بلکہ’’ہلکا ہاتھ‘‘ سخت ہوگا اور ممکنہ انتخابات میں موجودہ حصہ میں بھی بہت حدتک کمی آسکتی ہے ۔ یعنی فوری نئے انتخابات میں اس کا فائدہ کم ہوگا ۔ اس لئے وقت سے پہلے اپنے آپ کو بچائو ۔ دوسری جانب ن لیگ کا فائدہ نئے انتخابات میں ہی ہے اور مولانا فضل الرحمان ، محمود خان اچکزئی اور دیگر کو بھی نئے انتخابات میں ہی فائدہ ہے ۔یعنی ہر دوجانب مستبقل کے بہتر انتخابی حصے یا کردار پر توجہ ہے ۔

موجودہ صورتحال میں شاید پیپلزپارٹی کے لئے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو، مگر یہ اس کی مجبوری اور مفاد میں بھی ہے۔ حالات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کی بدترین ناکامی کے بعد غالباً مقتدر قوتوں کی نظر میں پیپلزپارٹی کے لئے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے، پیپلزپارٹی اب اسی ہمدردی سے فائدہ اٹھانا چاہئے گی ۔ ہمدردی کی ایک جھلک سینیٹ انتخابات میں بھی نظر آئی ۔پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس کو سینیٹ انتخابات 2021ء میں اپنے حصے سے زیادہ 2 نشستیں ملی ہیں اور بعید نہیں کہ چند ہفتوں میں یوسف رضا گیلانی کے حق میں بھی فیصلہ آئے ، ویسے انتخابی قوانین ، قوائد و ضوابط، ضابطہ اخلاق، سینیٹ کی روایات اور ہدایات کے مطابق 7 مسترد ووٹ کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا کیس بہت مضبوط ہے ۔ پیپلزپارٹی کے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ اسٹمبلشمنٹ مخالف اپنے بیانیہ کو اچانک حامی کیسے بنائے ؟

آئندہ چند روز میں اصل صورتحال مزید واضح ہوگی ، مگر ایک بات طے ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے ، کیونکہ مقتدر قوتوں کے پاس پیپلزپارٹی کی شکل میں متبادل موجود ہے ۔ پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم سے عملاً الگ ہونے کے بعد خان صاحب کے پاس اسٹبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے کا ایک اہم دروازہ بند ہوچکا ہے اور سامنے والے بھی اب نخرے نہیں اٹھائیں گے ، کیونکہ خان صاحب کی ہر ناکامی ان کے کھاتے میں جارہی ہے ، انہوں نے اپنے وقار کے بچائو کے لئے کوئی تو حل تلاش کرنا ہے۔ بالفاظ دیگر پی ڈی ایم کی تقسیم کے بعد ہی خان صاحب کی مشکلات کا آغازہے ۔ اب پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں واپسی کی کوشش نہیں کرے گی اور نہ استعفوں پر راضی ہوگی ، پیپلزپارٹی کے پاس اب ہمدردی سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہے ،جو وہ ضائع نہیں کرے گی۔