اعتماد کے ووٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔-اس سے پہلے صرف نواز شریف واحد وزیراعظم ہیں جنھوں نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا

سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔
قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی اکثریت کے باوجود سینیٹ کی جنرل نشست پر اپوزیشن کے امیدوار کی کامیابی کی وجہ سے اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوئی۔ اس کے بعد وزیراعظم نے رضا کارانہ طور پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن صدر مملکت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق سات کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 7 کا متن ہے کہ ’وزیراعظم، صدر کی خوشنودی کے دوران اپنے عہدے پر فائز رہے گا، لیکن صدر اس شق کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرے گا تا وقتیکہ انہیں اطمینان نہ ہو کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں، جس صورت میں وہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں گے اور وزیراعظم کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیں گے۔‘

پارلیمانی ماہرین کے مطابق یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ اپنی ہی جماعت کے صدر مملکت نے محسوس کیا ہے کہ قائد ایوان اکثریت کھو چکے ہیں اور انھوں نے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا ہے۔
قومی اسمبلی کے سابق ایڈیشنل سیکرٹری طاہر حنفی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے صرف نواز شریف واحد وزیراعظم ہیں جنھوں نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا۔
18 اپریل 1993 کو صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ جنھیں سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993 کی سہ پہر بحال کیا اور اگلے ہی دن قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا۔ اس اجلاس کے اختتام پر ایک قرار داد کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف نے اعتماد کا ووٹ لیا۔ اس وقت ایوان کے 210 میں سے 123 ارکان نے نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔‘
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
وزیراعظم کو جب بھی ایوان سے اعتماد کی ضرورت ہو تو اسے قومی اسمبلی کی کل تعداد کے نصف ارکان سے زائد یعنی کم از کم 172 ارکان کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر وہ اسمبلی سے اپنا اعتماد کھو دیں گے۔
قواعد کے مطابق وزیراعظم کے انتخاب اور اعتماد کے ووٹ کا طریقہ کار تقریباً ایک جیسا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اعتماد کے ووٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی کے قاعدہ 36 اور شیڈول دوم کے مطابق اجلاس شروع ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی پانچ منٹ تک ایوان میں گھنٹیاں بجواتے ہیں تاکہ تمام ارکان کی حاضری یقینی بنائی جا سکے۔ اس کے بعد ایوان کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں تاکہ کوئی رکن باہر جا سکے نہ کوئی باہرسے اندر آئے۔

سپیکر وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد پڑھنے کے بعد ارکان سے کہیں گے کہ ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کے خواہشمند شمار کنندگان کے پاس ووٹ درج کروا دیں۔ شمارکنندگان کی فہرست میں رکن کے نمبر کے سامنے نشان لگا کر اس کا نام پکارا جائے گا۔
قواعد کے تحت ووٹ درج ہونے کے بعد ارکان ہال کی لابیز میں انتظار کریں گے۔ تمام ارکان کے ووٹ درج ہونے کے بعد سپیکر رائے دہی مکمل ہونے کا اعلان کریں گے۔ سیکرٹری اسمبلی ووٹوں کی گنتی کرکے نتیجہ سپیکر کے حوالے کر دیں گے۔
سپیکر دوبارہ دو منٹ کے لیے گھنٹیاں بجائیں گے تاکہ لابیز میں موجود ارکان قومی اسمبلی ہال میں واپس آ جائیں اور پھر سپیکر قومی اسمبلی نتیجے کا اعلان کر دیں گے۔
وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد منظور یا مسترد ہونے کے بارے میں قومی اسمبلی کے سپیکر صدر مملکت کو تحریری طور پر آگاہ بھی کریں گے۔
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں کیا ہوگا؟
اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے عمل کے دوران اگر قومی اسمبلی کے 172 سے کم ارکان وزیراعظم پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ باقی ارکان غیر حاضر رہیں یا ایوان میں ہوتے ہوئے بھی لابیز میں جا کر شمار کنندگان کے پاس اپنے نام کا اندراج نہیں کروائیں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وزیراعظم ایوان میں اکثریت کھو چکے ہیں۔
طاہر حنفی کے مطابق ’ایسا ہونے کی صورت میں صدر مملکت کا یہ خدشہ کہ قائد ایوان کے پاس اکثریت نہیں رہی درست ثابت ہو جائے گا۔ وفاقی کابینہ تحلیل ہو جائے گی اور ایوان قواعد کے تحت نئے قائد ایوان کا انتخاب کرے گا۔ جس کا طریقہ کار بالکل وہی ہے جو انتخابات کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔‘

اعتماد کے ووٹ اور تحریک عدم اعتماد میں کیا فرق ہے؟
پارلیمانی قواعد کے مطابق تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ ایوان میں تحریک پیش ہونے کے تین دن کے بعد اور سات دن کے اندر اندر اس پر ووٹنگ ہوتی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ایوان کی کل تعداد کے 20 فیصد ارکان کے دستخط ہونا لازمی ہیں۔
عدم اعتماد پر ووٹنگ کا طریقہ کار بھی وزیراعظم کے انتخاب کے طریقہ کار یعنی اوپن ووٹنگ اور ڈویژن کے ذریعے ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ اسی طرح چیئرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکرز کے خلاف آنے والی تحاریک عدم اعتماد کو بھی ناکامی کا سامنا کر چکی ہیں۔
————-
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
——————

https://www.urdunews.com/node/546411