اپوزیشن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی: مولانا فضل الرحمٰن

تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا ہے کہ سنیچر کو اپوزیشن کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا

حکومت مخالف تحریک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا ہے کہ سنیچر کو اپوزیشن کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔

واضح رہے کہ چھ مارچ کو صدر پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں وزیراعظم عمران خان سینیٹ انتخابات کے بعد ارکانِ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی کوشش کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ فیصلہ سینیٹ انتخابات میں حفیظ شیخ کی شکست اور حزب اختلاف کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی فتح کے بعد کیا گیا تھا۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے جمعے کو سکھر میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’کل اپوزیشن کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ’جعلی‘ کام ہے، جس کی حزب اختلاف کی غیر موجودگی میں مزید اہمیت اور افادیت کم ہو جائے گی۔

مولانا فضل الرحمنٰ نے مزید کہا کہ سنیچر کو ہونے والے اجلاس میں جتنے بھی ارکان اسمبلی آئیں اور وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کریں ان سب کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔

پی ڈی ایم سربراہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ اتحاد کی تمام رکن جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں اتفاق رائے سے ہوا۔

’اس فیصلے پر پی ڈی ایم سے کسی رکن جماعت کو اختلاف نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو کامیاب بنا کر قومی اسمبلی کی اکثریت نے وزیر اعظم عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کر لیا ہے۔

’اب انہیں مزید اعتماد حاصل کرنے کی کوئی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے تمام فیصلے اپنے مقام پر موجود ہیں تاہم لانگ مارچ سے متعلق حتمی فیصلہ آٹھ مارچ کو اتحاد کے سربراہی اور مجلس عاملہ کے مشترکہ اجلاس میں کیا جائے گا۔

دوسری جانب جمعے کو ہی اسلام آباد میں تحریک انصاف اور اس کی اتحاد جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرینز نے وزیر اعظم کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اجلاس میں 180 کے قریب ایم این ایز نے شرکت کی جو کل قومی اسمبلی میں موجود رہ کر وزیر اعظم عمران پر اعتماد کا اظہار کریں گے۔
———-
https://www.independenturdu.com/node/61576/opposition-boycott-na
———————عبداللہ جان —————-

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘وزیراعظم کے کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے قومی اسمبلی کا کل بلائے گئے اجلاس میں حزب اختلاف کا کوئی بھی رکن شریک نہیں ہوگا۔

خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 6 مارچ کو اعتماد کے ووٹ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے، جس کا اعلان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 3 مارچ کو سینیٹ انتخابات کے فوری بعد کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘عدم اعمتاد سینیٹ کے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کی صورت میں ہوچکا ہے اور صدر مملکت نے قومی اسمبلی کے اجلاس بلانے کے فرمان میں اجلاس بلانے کی یہی وجہ لکھی ہے کہ میرے نزدیک آپ اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں لہٰذا آپ دوبارہ اکثریت کا اعتماد لیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جب صدر مملکت بھی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے اعتماد کھونے کی بات کرتا ہے تو اسے اپوزیشن کا مؤقف اور مضبوط ہوجاتا ہے، اپوزیشن کی عدم شرکت کے بعد اس اجلاس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہوگی’۔

انہوں نے کہا کہ ملک اور بیرون ملک دنیا میں اس حکومت کو عوام کی نمائندہ حکومت باور نہیں کیا جائےگا، عمران خان نے قوم سے خطاب جس لب و لہجے میں کیا ہے، اسے خود ان کی شکست خوردگی چھلک رہی تھی اور یہ اعصابی طور پر شکست کھا چکے ہیں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘سینیٹ کے انتخابات میں ان کے بقول بولی لگی، اس کا الزام وہ کس کو دے رہے ہیں یعنی اپنے پی ٹی آئی کے ارکان کو بکاؤ مال کہہ رہے ہیں اور کل جب وہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو ان 18 ارکان کا بھی ووٹ ہوگا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ ایک یا دو لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ووٹ لے سکیں گے’۔

صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ ‘جب صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد ہوا تھا تو جن لوگوں نے اپنی وفاداریاں بیچی تھی تو اس وقت عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی ضمیر آواز ہے آج اپنی پارٹی کے لوگوں ووٹ نہ دینے پر بکنے سے کیوں تعیبر کر رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جو دعوے آج تک وہ کرتے رہے ہیں آج ان سب دعووں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے، کس کے خلاف لوگوں کو باہر نکالیں گے کیوں، پی ڈی ایم کے خلاف نکالیں گے، لوگ نہیں پوچھیں گے کہ مہنگائی کیوں کی، اداروں سے کارکنوں کو نکال کر ان اداروں کو کمزور کیوں کیا، آٹا، چینی، گھی اور پیٹرول مہنگا کیوں کیا، اب لوگو آپ سے پوچھیں گے، آپ نہیں پوچھ سکتے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘تجاوزات کے نام پر لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے، گھروں سے محروم کردیا ہے اور کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘الیکشن کمیشن کو مورد الزام ٹھہرایا، الیکشن کمیشن نے وضاحت کے ساتھ عمران خان کی تقریری کو غیر منطقی کہا اور ہم سمجھتے ہیں الیکشن کمیشن کو مود الزام ٹھہرانا اور سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے بات کرنا اصل موضوع نہیں ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘الیکشن کمیشن کو اگر انہوں نے مورد الزام ٹھہرایا ہے تو فارن فنڈنگ کیس پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیا ہے، ہم ان کے تمام چالوں کو جانتے ہیں، ہم آپ کو جان چکے ہیں لہٰذا قوم کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا’۔

صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ ‘کل قومی اسمببلی میں اپوزیشن کا کوئی رکن نہیں جائے گا اور اس بات کی ایک رکن کو کہہ کر دیکھیں کہ وہ وہاں کیا ڈراما بازی کر رہے ہیں تاکہ صورت حال واضح ہو’۔

انہوں نے کہا کہ یہ حواس باختگی ہے ، اب ان کے ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا ہے اور پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے اس لیے فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کر کے عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کو آنا چاہیے۔

یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے امیدوار کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 8 مارچ کو اجلاس طلب کر لیا گیا وہاں فیصلے ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قومی اسمبلی میں حکومتی اجلاس سے ان کا بیانیہ اور اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی، یک طرفہ کارروائی ہو رہی ہیں اور آج تک جعلی اکثریت سے حکومت کرتے رہے ہیں، اب اس کے جعلی ہونا واضح ہو کر بے نقاب ہو گا۔

خیال رہے کہ 3 مارچ کو قومی اسمبلی مں اسلام آباد کی سینیٹ نشست پر حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کے بعد وفاقی وزرا نے اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔

گزشتہ روز قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔

وزیراعظم نے ای سی پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘سپریم کورٹ میں آپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی، کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے، پھر آپ نے قابل شناخت بیلٹ پیپزر کی مخالفت کی اگر ایسا ہو جاتا تو آج جو ہمارے 15، 16 لوگ بکے ہیں ہم ان کا پتا لگا لیتے، یہ پیسے دے کر اوپر آنا کیا جمہوریت ہے، الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، آپ کو سپریم کورٹ نے موقع دیا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جاسکتا تھا، آج آپ نے ملک کی جمہوریت کا وقار مجروح کیا ہے’۔

وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ اس الیکشن میں کتنا پیسا چلا ہے، میں نے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ ریٹ لگ گئے ہیں، کیا آپ کو نہیں پتہ یہ تحقیقات کرنے کی ذمہ داری آپ کی تھی، جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ ریکور کیسے کرے گا، جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ کیا حاتم طائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں بھی اوپن بیلٹ کا بل پیش کیا، ہم نے اوپن بیلٹ کے لیے بل پیش کیا تو یہ تمام جماعتیں خفیہ بیلٹ پر اکٹھی ہوئیں، جس کے بعد ہم معاملے کو سپریم کورٹ لے کر گئے، وہاں الیکشن کمیشن نے اس کی مخالفت کی اور عدالت عظمیٰ نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے