شیخ ایاز کے بغیر جدید سندھ کا تصور ممکن نہیں : سردار شاہ

محکمہ ثقافت،سیاحت ونوادرات حکومت سندھ کی طرف سے آرٹس کونسل کراچی میں لیجنڈ شاعر شیخ ایاز کی 98 ویں سالگرہ کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
شیخ ایاز کے بغیر جدید سندھ کا تصور ممکن نہیں۔سردار شاہ
کراچی  : محکمہ ثقافت, سیاحت و نوادرات حکومت سندھ کی طرف سے لیجنڈ شاعر شیخ ایاز کی 98ویں سالگرہ کے موقع پر انکو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ملک کے نامور شعراء, ادیبوں اور گلوکاروں نے 20ویں صدی کے شہراء آفاق شاعر شیخ ایاز کو اپنی شاعری, تحاریر, تقاریر اور سروں کے ذریعے خراج پیش کیا ان کے تخلیقی کام کو سندھی ادب و شاعری اور سندھ کی تاریخ کا بیثمال اور انمول حصہ قرار دیا.
محکمہ ثقافت کی طرف سے آرٹس کونسل میں شیخ ایاز کی سالگرہ تقریب کے آغاز میں سیکریٹری غلام اکبر لغاری نے مہمانوں کو محکمے کی طرف سے ویلکم کیا اور کہا کہ محکمے کو فخر ہے کہ نامور شاعر شیخ ایاز کو ٹریبیوٹ پیش کرنے کے لیے یہ تقریب منعقد کی گئی ہے
محکمہ ثقاقت کی طرف سے شیخ ایاز کی زندگی کے نشیب و فراز, شکارپور سے سندھ یونیورسٹی کے وائیس چانسلر بننے اور انکے پیشہ وکالت کے مابین انکی شاعری کے سفر کی عکاسی کرتی ڈاکیومینٹری پیش کی گئی جن کو حاضرین نے بیحد پسند کیا.
اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر ثقافت, سیاحت و نوادرات سید سردار علی شاہ نے کہا کہ شیخ ایاز کے بغیر جدید سندھ کا تصور ہی ممکن نہیں. مینے اپنے محکمے کو کہا ہے کہ نامور شخصیات کی سالگراہیں منائیں کیونکہ ان کا جنم ہی بہت بڑی بات ہے. برسی کا دن تو صدمے کا دن ہوتا ہے. انہوں نے کہا کہ شیخ ایاز روایت شکن شخصیت تھے انکی پوری شاعری روایتوں سے بغاوت کی عکاسی کرتی ہے. شیخ ایاز نے جدید سندھ کے تصور کی آبیاری اور بانی شیخ ایاز نے دی
وزیر ثقافت نے شیخ ایاز کے اشعار پڑھے, سندھڑی پر جان کون نا دیگا, عشق تمہارا ایاز ہے انسان کے ساتھ, وہ کہتے ہیں کہ تم نہیں ہو ایمان میں. سردار شاہ نے مزید کہا کہ شیخ ایاز پوری دنیا کے ادب پر نظر رکھے ہوئے انکو ترکی مصر, ہندستان کے تمام شعراء کی شاعری اور روایات کی مکمل شناسائی اور مطالعہ تھا۔۔انہوں نے کہا کہ شیخ ایاز کی تخلیقی اڑان کو نہ چھونے والے جب ان پر ادبی تنقید نہیں کرسکتے تھے تو تضحیک اور تنسیخ ہی ہوتی۔
شیخ ایاز کی شاعری ابھی تک اس سطح پر ترجمہ نہیں ہوئی وہ 37 کتب کے رائٹر تھے.

شیخ صاحب کی شاعری کے گوناگون پہلو ہیں اور ابھی شیخ صاحب پر بہت سارا کام ہونا ہے.
محکمہ ثقافت ہر سال شیخ ایاز کی سالگرہ کا دن منائے گا. شیخ ایاز کا مزید کام بھی پبلش کروائے گا.

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر سید محمد احمد شاہ نے کہا کہ محکمہ ثقافت بہت زبردست کام کیا ہے, پاکستان کے کسی محکمہ ثقافت نے اتنا کام کیا اور آج آپ نے اردو اور سندھی زبان کے بہت بڑے نام کو جس شاندار طریقے سے ٹریبیوٹ پیش کیا ہے اس پر میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں.
اس کے علاوہ نامور رائٹر حارث خلیق نے شیخ ایاز کو ٹریبیوٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شیخ ایاز عہدساز شاعر تھے. شیخ ایاز ان لیجنڈز میں سے جن زندگی میں ہی انکی علمی و ادبی تخلیق پر کام کا آغاز کیا گیا انکی شاعری عالمی سطح کی ہے۔ بین الاقوامی مزاحمتی ادب سے شناسائی اور پھر اپنی دھرتی پر ہونے والا ظلم ان کو ہر وقت پریشان کرتا ہے.انہوں نے اس وقت کے شاعروں کی طرف کانگو میں ہونے والے ظلم پر نظمیں لکھنے پر تنقید کی آپ کا اپنا بھائی ظلم کا شکار ہے اور آپ کو افریقی ممالک کا فکر ہے کیونکہ اس طرح کی بات سے آپ کو زندان نہیں ہوگا اس لیے آپ آسانیاں پسند ہوگئے ہو.
حارث خلیق نے شیخ ایاز کی شاعری کے چند اشعار پڑھے اور اپنی رائے کا اظہار کیا.انہوں نے کہا کہ ایاز کی اردو شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ان کا حق تھا کیونکہ وہ اپنے کسی بھی اردو ھمعصر سے کسی بھی سطح سے کم نہیں. حاضر وقت کے شاعروں و ادیبوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ شیخ ایاز کے فن تخلیق کو مزید روشن کرنے لیے اپنے غیر جانبدار ادبی مقالوں کی روانی رکھیں.اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے نامور ادیب جامی چانڈیو نے کہا کہ شیخ ایاز جہاں کلاسیکل دور کا تسلسل تھے اور وہیں انہوں نے روایتی شاعری اور روایتی موضوعات سے بغاوت کی. شیخ ایاز نے قدیم سندھی, قدیم سنسکرت اور حتیٰ کہ اوائلی اردو کو اپنی شاعری میں پرویا, اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناصرف روایتی شاعری کے تسلسل کو برقرار رکھا مگر نئے دور کی شاعری کے تمام لوازمات اور ترکیبوں کی بھی بنیاد رکھی اور انکو جلا بخشا. انہوں نے کہا کہ شیخ ایاز کے نزدیک شاعری بس ایک شغل نہیں لیکن اپنے دیس کی دردوں کی نجات بھی ہے.شیخ ایاز بیک وقت تصوف کے داعی بھی ہیں, تو جدیدیدت, باغیانہ فکر کے امام اور ساتھ ہی وہ شاعر محبت اور شاعر انقلاب بھی ہیں. جامی چانڈیو نے کہا کہ شیخ ایاز جہاں میراں جی اور کبیر کے گیتوں سے متاثر تھے وہیں وہ مغربی ادب کے تمام تحاریک سے بھی بخوبی واقف تھے.