سپریم کورٹ کی ہدایت پر بہبود آبادی کے لیے بننے والی ٹاسک فورس کی سفارشات پر صوبہ سندھ عملدرآمد میں سب سے آگے نظر آتا ہے


سپریم کورٹ کی ہدایت پر بہبود آبادی کے لیے بننے والی ٹاسک فورس کی سفارشات پر صوبہ سندھ عملدرآمد میں سب سے آگے نظر آتا ہے جس نے وفاقی اور صوبائی سطح پر کی جانے والی سفارشات پر عملدرآمد میں دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ تیزی سے اقدامات اٹھائے اور ٹھوس فیصلے کرتے ہوئے نتیجہ خیز ایکشن لیے جن کی ہر سطح پر تعریف کی جا سکتی ہے اب تک ان سفارشات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے تو چاروں صوبوں میں صوبہ سندھ کا محکمہ بہبود آبادی نہایت متحرک فعل اور مؤثر فیصلے اور اقدامات کر رہا ہے جس کی وجہ سے آٹھ سفارشات پر عمل درآمد کی رفتار نمایاں اور کافی

حد تک اطمینان بخش قرار دی جا سکتی ہے پاکستان میں بہبود آبادی کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ صوبہ سندھ اس حوالے سے دیگر صوبوں کے لیے اب ایک رول ماڈل بن چکا ہے موجودہ محکمہ بہبود آبادی صوبائی وزیر ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی سربراہی میں درست سمت میں نہایت جرات مندانہ اور مثالی فیصلے کر رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس محکمہ کے اقدامات اور کاموں کی تعریف کی گئی ہے اور اس کے کام کی رفتار کو سراہا گیا ہے ۔


یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس کے بعد جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو محمود آبادی کے معاملے پر سنجیدہ اقدامات اٹھانے اور بھرپور توجہ دینے کی ہدایت ملی اور وزیراعظم عمران خان نے خود اس معاملے پر اجلاس کیا اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی اپنی سطح پر بھرپور اقدامات اور نتیجہ خیز ایکشن لینے کی ہدایت کی گئی تو اس کے بعد کم ازکم صوبہ سندھ میں مثالی اقدامات نظر آئے ہیں ۔
سرکاری ذرائع سے حاصل ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 23 جنوری 2021 تک محکمہ بہبود آبادی سندھ نے ٹیکنیکل سپورٹ یونٹ ٹی ایس یو نے سی سی آئی کی سفارشات پر عملدرآمد کے حوالے سے کافی پیش رفت کی ہے ۔یاد رہے کہ نیشنل ٹاسک فورس کی سربراہی خود وزیراعظم عمران خان نے کی تھی جب کہ صوبہ سندھ میں پروینشل ٹاسک فورس کی سربراہی وزیر اعلی سندھ نئی کرنی ہے اور وہ اب تک تین اجلاس منعقد کر چکے ہیں ۔
محکمہ بہبود آبادی کی جانب سے عمل درآمد جاری ہے ۔پی پی ایچ آئی اور ایف پی 20 20 ۔اس حوالے سے سی پی آر میں ایک فیصد اضافہ فیپی ڈی ایچ ایس بتایا جاتا ہے ۔

آٹھ بڑی سفارشات میں سے دوسری بڑی سفارش یہ کی گئی تھی کہ فیملی پلاننگ اور ریپروڈکٹو ہیلتھ تک یونیورسل ایکسیس کو یقینی بنایا جائے ۔
اس حوالے سے نمایاں کامیابی یہ بتائی گئی ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران آٹھ لاکھ سے زائد نئے جنرل یوزر سامنے آئے ہیں جو ایک بڑی پیش رفت ہے یہ وہ یوزرز ہیں جنہیں پبلک سیکٹر سہولتیں ایف پی ۔فیملی پلاننگ کی جانب سے مہیا کی گئی ہیں ۔

اس کے علاوہ 330 پرائیویٹ سیکٹر کلینکس کی رجسٹریشن کی گئی ہے جو پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹر ہوئے ہیں اور فیملی پلاننگ کونسلنگ اور سروسز مہیا کر رہے ہیں ۔

ایک اور نمایاں پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ 852 ریگولرائز میل موبلائزر کی جانب سے دس لاکھ سے زائد کلائنٹس کو سہولیات کی فراہمی دو سال میں یقینی بنائی گئی ہے ۔

اسی طرح این جی اوز جو فیملی پلاننگ کے لیے کام کر رہی ہیں انہیں پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ۔ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ اون فیملی پلاننگ ۔ایف پی 20 20 ورکنگ گروپ اور سی ای پی کے حوالے سے آپس میں آڈیشن بڑھایا گیا ہے ۔جبکہ وفاقی اور صوبائی سطح پر سوشل سیفٹی نیٹ کو مضبوط بنانے کے حوالے سے جو ذمہ داری دی گئی تھی اس کے مطابق ایک ہزار دنوں سے زیادہ کا پروگرام بشمول سی سی ٹی فیملی پلاننگ اور پرائمری ہیلتھ کیئر کے حوالے سے کیا گیا اور ورلڈ بینک کی فنڈنگ اور اے پی سی ون کے حوالے سے کام کو آگے بڑھایا گیا

یاد رہے کہ پاکستان میں ہر2 سال ڈی ایچ ایس ڈیمو گرافک ہیلتھ سروے کرایا جاتا ہے ۔اس کی تفصیلات کو انٹرنیٹ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔جبکہ ایف پی 20 20 کے اہداف کے لئے 2012 میں لندن میں جو سمٹ منعقد ہوئی تھی وہاں پر اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے عالمی اہداف کے حصول میں پاکستان کے کردار کی یقین دہانی کرائی تھی ۔

پاکستان میں آبادی کی رفتار میں اضافہ تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے لیکن پہلے عشرے میں اس جانب کوئی بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی البتہ پہلی پاپولیشن پالیسی جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں بنائی گئی جب باقاعدہ ایک منسٹری کی تشکیل ہوئی جس سے اس جانب توجہ دینے اور اقدامات کرنے کی ہدایت ملی ۔بعد کے ادوار میں بہبود آبادی کا معاملہ کنفیوژن کا شکار رہا کبھی اسے صحت کی وزارت کے ماتحت رکھا گیا اور کبھی اس پر الگ سے کام کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی اس پر توجہ دینے کے لیے اقدامات کیے گئے مردم شماری بھی ہوئی ۔پھر سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں ہیلتھ ورکرز کو اس حوالے سے خصوصی ذمہ داریاں سونپی گئی اور اس شعبے کو خصوصی توجہ ملی ۔

ڈیموگرافک ہیلتھ سروے جسے ہر دو سال بعد کرایا جاتا ہے کے ذریعے دنیا میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ کون سا ملک کس حد تک اقدامات اٹھا رہا ہے اور کہاں کتنی کامیابی نظر آرہی ہے ذرائع کے مطابق یہ شکایت موجود ہے کہ پاکستان کے متعلقہ حکام نے اپنا ہوم ورک بروقت مکمل نہیں کیا جس کی وجہ سے عالمی اداروں کو 2018میں جو سرور پورٹ بھیجی تھیں وہ درحقیقت 2016 کے سروے رپورٹ پر ہی مبنی تھی یوں دنیا کو اصل حقائق سے بے خبر رکھا جا رہا ہے اور اپنی نا اہلی اور غفلت کو چھپایا جا رہا ہے ۔

یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ذاتی طور پر تو عالمی اہداف حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن ان کے ماتحت وفاقی حکومت اور کم از کم دو صوبے جہاں ان کی پارٹی کی سیاسی حکومت ہے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اہداف حاصل کرنے کے لیے وہ سنجیدگی اور پولیٹیکل ول نظر نہیں آتی اس کی ضرورت ہے جبکہ صوبہ سندھ جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے وہاں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر صوبائی وزیر بہبود آبادی ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی خصوصی نگرانی میں اب تک ہونے والے اقدامات نہایت اطمینان بخش ہیں اور سیاسی بصیرت اور فیصلہ کن اقدامات نظر آ رہے ہیں اس حوالے سے صوبہ سندھ کی قیادت اور صوبائی حکومت اور محکمہ بہبود آبادی کی کارکردگی قابل تعریف ہے
—————
By-Salik-Majeed-for-Jeeveypakistan.com
92-300-9253034