ایک نیول آفیسر کی بیوی کی ڈیوٹی لگی کہ وہ بینظیر بھٹو کی سیکریٹری ناہید خان سے رابطہ کرکے معلومات حاصل کرے

مٸی 1994 کو میری پوسٹنگ پاکستان نیوی شپ Nasr پر سینیر میڈیکل آفیسر کے طور پر ہوگٸی ۔ یہ پاکستان نیوی کا لاجیسٹک بحری جہاز ہے جو فارن کرُوز پر جاتے یا جنگ میں شریک لڑاکا جہازوں کو اسلحہ ۔ فیول اور کھانے پینے کا سامان سپلاٸی کرنے کی ذمہ داری نبھاتا ہے ۔
میں چترال اور کیلاش کی وادیوں میں 5 سال گزار چکا تھا ۔ ان سالوں میں بروگل کی اذیت ناک سردی دیکھی ۔ شندور کی برفباری میں پولو میچ دیکھے ۔ سیاچین بھی بھگتا لیا تھا اور ان سب جگہوں پر Mountain Sickness کی وجہ سے الٹیاں کرکر کے جب تھک چکا تھا کہ ایم ایس برانچ مہربان ہوگٸی اور آخرکار کراچی بھیج دیا ۔ خوشی خوشی سفید وردی پہنی اور نصر جہاز پر چڑھا تو چند دنوں میں ہی Sea Sickness نے پہاڑوں کی الٹیاں بھلا دیں ۔
اگر آپکو کبھی جہاز پر گہرے سمندروں میں جانے کا اتفاق ہو اور بد قسمتی سے Sea & Motion Sickness بھی ہو تو سمجھ لیں آپ مارے گٸے ۔ جب تک جہاز پانی میں ہچکولے کھاتا رہے گا آپکی الٹی نہیں رک سکتی حتٰی کہ سولجر تو خون کی الٹیاں کرتے ھی دیکھے ہیں ۔ ظلم یہ ہے کہ جب آپ جہاز سے اتر جاتے ہیں تو مکمل تندرست نظر آتے ہیں اور کوٸی ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ سمندر کے اندر آپکی حالت آپے سے باہر تھی ۔  میں تو آسمان سے گرا اور کجھور میں اٹکا والی کہاوت کا منہہ بولتا ثبوت تھا ۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا نوکری تو بہرحال کرنی تھی ۔
ایک اچھی بات یہ ہوٸی کہ جہاز پر پوسٹنگ کے پہلے ہفتے میں ہی ایک خوشگوار خبر ملی کہ چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل منصورالحق نے وزیراعظم پاکستان بینظیر بھٹو کو PNS Nasr پر گہرے پانیوں میں ایک دن گزارنے کی دعوت دی ہے اور وہ عنقریب پوری آن شان سے تشریف لا رہی ہیں ۔ ہم سب زور و شور سے تیاریاں شروع کر چکے تھے ۔
چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل منصورالحق کی کمانڈ میں نیوی میں لگتا تھا کہ بادشاہت کا دور دورہ ہے کہ جو چیف کے منہہ سے نکلے گا وہی وقت کا قانون ہوگا ۔ ہم جہاز پر کیپٹن عارف قریشی اور کمانڈر خامس نقوی کی کمانڈ میں تھے ۔ جہاز کے سپلاٸی آفیسر لیفٹننٹ کمانڈر اصغر کی خریداریاں رنگ دکھانے لگی تھیں۔  اس تیاری میں جہاز کے ہر کونے کو سنوارا جا رہا تھا ۔ رنگ و روغن پر بے تحاشہ پیسہ خرچ ہونے لگا ۔ مہنگے قالین آرہے تھے ۔ 5 اسٹار ہوٹلز سے کنٹریکٹ ہورہےتھے کہ گہرے پانیوں میں ہیلی کاپٹر سے کھانے کس طرح پہنچاٸے جاٸیں گے ۔ ڈراٸی فروٹ کی ایسی ایسی پیکنگ دکھاٸی دے رہی تھی جو ہم نے کبھی ناولوں میں ہی پڑھی ہونگی ۔
میں جہاز پر سینیر میڈیکل آفیسر (SMO) تھا ۔ آج سے پہلے Sick Bay (میڈیکل چیک اپ روم) کی حالت لاوارث یتیم ننگ تڑنگ بچے جیسی تھی اور میں میڈیسن کی کمی کا رونا روتا رہتا تھا مگر اب نعمتوں کی گنگا بہنے لگی تو ہم نے بھی مال غنیمت کی لوٹ مار سے دونوں روم کارپٹ کروا لیے کہ اگر کوٸی وی آٸی پی بیمار ہوگیا تو میڈیکل چیک اپ روم تو شان شایان دکھا سکیں ۔
ایک نیول آفیسر کی بیوی کی ڈیوٹی لگی کہ وہ بینظیر بھٹو کی سیکریٹری ناہید خان سے رابطہ کرکے معلومات حاصل کرے کہ ان کے باتھ روم میں صابن شینپو ٹوتھ پیسٹ اور برش ۔ پرفیوم کس برانڈ کے استعمال ہوتے ہیں اور پھر جہاز پر تیار ہونے والے باتھ روم میں بھی یہی سب مہیا کیا جاٸے ۔ مجھے حکم ملا کہ ممکنہ ضرورت کی ہر میڈیسن پی این ایس شفا سے حاصل کروں یا بازار سے خرید کر سک بے میں فراہم کردوں ۔ مجھے تاکید کی گٸی کہ وزیراعظم کے پروٹوکول کے مطابق پی این ایس شفا اور آغا خان ہاسپیٹلز میں وی آٸی پی روم مخصوص کروالوں تاکہ خدانخواستہ کوٸی ایمرجنسی ہو تو علاج معالجہ میں کوٸی کسر نہ رہ جاٸے ۔ سرکردہ مہمانوں کی لسٹ میں وزیراعظم بینظیر کے علاوہ انکے شوہر آصف علی زرداری ۔ غلام مصطفٰی کھر اور انکی نٸی نویلی دلہن ۔ وزیردفاع جناب شعبان آفتاب میرانی اور ناہید خان بھی تھے ۔ اسکے علاوہ چاپلوس اور خوشامدی وزیروں ۔ بیوروکریٹس ۔ فوجی آفیسرز کی الگ لسٹ تھی ۔
سپلاٸی آفیسر لیفٹیننٹ کمانڈر اصغر میرے کام کرنے سے ابھی ناواقف تھے اس لٸے انہوں نے ایک ہفتہ پہلے ہی فوڈ انسپیکشن سرٹیفیکیٹ میرے سامنے رکھ دیا کہ اسے ساٸین کردوں تاکہ وزیراعظم کے دورے والے دن کی تاریخ اس سرٹیفیکیٹ پر لگا کر کھانا پیش کر دیا جاٸے ۔ میں نے جب کھانا چیک کٸے بغیر سرٹیفیکیٹ پر ساٸین کرنے سے انکار کردیا تو جہاز پر جیسے بھونچال آگیا ۔ مجھ سے کہا گیا کہ ایک ایک ڈش بارہ بارہ پندرہ پندرہ ہزار کی ہوگی آپ اسے چیک کرکے کیوں خراب کریں گے اور میں بضد تھا کہ اگر طریقہ کار کے مطابق قانون نے ڈاکٹر کو ٹیسٹنگ لیبارٹری بنا دیا ہے تو میں کسی کھانے کو چکھے بغیر ساٸین نہیں کرونگا ۔ سپلاٸی آفیسر میرے تیور دیکھ کر اس بات پر راضی ہوگیا کہ تمام ڈشسز میں سے کچھ چیک کرکے ساٸین کر دینا تاکہ ہماری ڈیکوریشن خراب نہ ہو ۔ میں حیران اس وقت ہوا جب میرے رہاٸشی کیبن میں بھی نیا کارپٹ ڈالا گیا اور ڈراٸی فروٹ کے پیکٹ رکھے گٸے ۔ میں نے وہ پیکٹ فوراً اپنے جہاز کے ینگ آفیسرز کو بانٹ کر جان چھڑا لی ۔
ہم نے بینظیر کے استقبال کیلیے سمندر میں جانے کے لیے سفر شروع کیا اور تقریباً 200 ناٹیکل مِیل کے فاصلے پر سمندر میں جا کر جہاز روک دیا ۔ تاریخ یاد نہیں مگر جب ہیلی کاپٹر نظر آٸے تو ہم پُر جوش تھے ۔ ہماری ہردلعزیز وزیر اعظم اور شاہی طبیعت کے چیف آف نیول اسٹاف ہمارے جہاز کے اوپر اڑتے ہیلی کاپٹرز میں آ پہنچے تھے اور ہم خوشی سے نعرے لگا رہے تھے ۔ کھلے سمندروں میں جہاز پر مہمانوں کے استقبال کیلٸے ہماری تمام تیاریاں مکمل تھیں ۔
(جاری ہے)
برگیڈیربشیرآراٸیں