شو آف ہینڈزکے ذریعے سینٹ انتخابات،ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ کرکے تاریخ رقم کرسکتے ہیں

شو آف ہینڈزکے ذریعے سینٹ انتخابات،ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ کرکے تاریخ رقم کرسکتے ہیں
حکومتی فیصلہ اپنے ممبران اسمبلی پر عدم اعتماد کی بجائے نیک نیتی پر مبنی ہونا چاہئے،
کیا پاکستان مسلم لیگ ن اور پی پی پی میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ کا معاہدہ کرچکی ہیں؟
—————————————————————–

یاسمین طہٰ
———————-
پاکستان میں آئندہ ماہ ہونے والے ایوان بالا کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس 6 فروری کو جاری کر دیا گیا ہے۔یہ ایک مشروط آرڈیننس ہے جس کا تعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح سے ہے۔’الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021‘ میں پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سینیٹ الیکشن کے حوالے سے تین شقوں 81، 122 اور 185 میں ترمیم کی گئی ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کی رائے اس حق میں ہو گی تو قوانین میں تبدیلی کے ساتھ اوپن ووٹنگ کرائی جائے گی۔ اگر سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ یہ انتخابات اوپن بیلٹ سے ہو سکتے ہیں تو پھر اس آرڈیننس کا اطلاق ہو گا ورنہ سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق ہی خفیہ انتخابات ہوں گے،آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعتوں کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کر سکے گا۔یاد رہے کہ پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق ہر تین سال بعد ایوان بالا کے انتخابات میں خفیہ بیلٹ کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔سینیٹ کے نئے اراکین کے انتخاب کے لیے سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں اور اس کے بعد تمام صوبائی اسمبلیوں میں خفیہ ووٹنگ کرائی جاتی ہے۔اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی رائے اوپن بیلٹنگ کے خلاف ہے مگر حکومت سپریم کورٹ کی رائے پر عمل کرے گی۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس صدارتی آرڈیننس پر تنقید کرتے ہوئے اسے حکومتی بدنیتی قرار دیا ہے۔جب کہ آئین کے تحت صدر کسی بھی معاملے پر مشورے کے لیے سپریم کورٹ کو صدارتی ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔سپریم کورٹ میں ابھی یہ ریفرنس زیر سماعت ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ سینٹ انتخابات اوپن بیلٹنگ کے زریعے نہیں کرائے جا سکتے ہیں۔ جب کہ الیکشن کمیشن کی رائے میں اس معاملے پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں سادہ اکثریت حاصل نہیں،جس کی وجہ سے گذشتہ ڈھائی برس میں قانون سازی کے بجائے حکومت نے قانونی امور سے نمنٹنے کے لیے متعدد بار صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا۔ایوان بالا سے تعلق رکھنے والے 52 ممبران 11 مارچ2021کو ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 52 سینیٹرز کی خالی نشستوں انتخابات مارچ کے پہلے ہفتے میں کرانے کا ارادہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ 11 مارچ کو ریٹائرڈ ہونے والے سینیٹرز میں سے 11 کا تعلق سندھ سے،پنجاب سے 11،اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے ریٹائر ہونے والے سینیٹرزکی تعداد۔ 12، 12 ہے۔مارچ میں ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سب سے ذیادہ تعداد مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز کی ہے ان کے 17سینیٹرز ریٹائرڈ ہوں گے۔جن میں 11 پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد سے 2، 2 شامل ہیں۔پیپلز پارٹی کے ریٹائر ہونے والے تمام 7 سینیٹرز کا تعلق سندھ سے ہے ۔ جبکہ سندھ سے ہی ایم کیو ایم کے 4 سینیٹر ایوان چھوڑنے پر مجبور ہون گے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے 2 سینیٹرزایوان بالا سے ریٹائرڈ ہوں گے، ایک کا تعلق بلوچستان اور ایک کا خیبرپختونخوا سے ہے۔حکمران جماعت تحریک انصاف کے 7 سینیٹرز ریٹائرڈ ہورہے ہیں، ان سب کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔جماعت اسلامی کا ایک، نیشنل پارٹی کے 2، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2 سینیٹرز ،بلوچستان عوامی پارٹی کے 3، بی این پی مینگل کا1، عوامی نیشنل پارٹی کا 1سینیٹر،فاٹا سے تعلق رکھنے والے 4 ارکان اور بلوچستان سے ایک آزاد سینیٹر یوسف بادینی بھی ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 سینیٹرز کے اِس ایوان میں سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اِس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب سے 12 سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے 11 سیینیٹرز منتخب ہوں گے جبکہ فاٹا سے 4 اور اسلام آباد سے 2 ارکان ایوانِ بالا کا حصہ بنیں گے۔قانون کے مطابق سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری اور ترجیحی ووٹ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں، چاروں صوبائی اسمبلیاں سینیٹ کے انتخابات کا الیکٹورل کالج ہیں جب کہ چاروں صوبوں کے صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب، قومی اسمبلی میں موجود فاٹا کے 12 ارکان کریں گے، جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کا انتخاب بشمول فاٹا اراکین پوری قومی اسمبلی کے ارکان کریں گے۔سینیٹ انتخابات 2018 میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو برتری حاصل تھی، جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ان انتخابات میں اپنے ووٹ نہیں ڈالے تھے۔وفاقی حکومت مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی مبینہ خریدو فروخت روکنے کے لیے اوپن بیلٹ کا طریقہ اپنانا چاہتی ہے،واضح رہے کہ اب تک سینیٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی خفیہ رائے شماری کے ذریعے اپنا سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کاسٹ کرتے تھے اور علم نہیں ہوتا تھا کہ کس رکن اسمبلی نے کس امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ میں اگر امیدوار کو مطلوبہ تعداد میں ووٹ مل جائیں تو باقی ووٹ اگلے امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں، ووٹ اوپن ہو جائے گا تو علم ہو سکے گا کہ کس رکن اسمبلی نے کس کو ووٹ دیا ہے۔۔2015 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کا نکتہ نظر یہی تھا کہ شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات نہیں ہوسکتے کیونکہ اس میں تکنیکی مسائل ہیں اور اس وقت سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار میں اس لیے ترمیم نہیں کی جا سکی کیونکہ انتخابات کا شیڈول آ چکا تھا، جس کے بعد طریقہ کار میں ترمیم کی گنجائش نہیں بنتی۔رواں برس موجود حکومت نے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کی تجویز دی لیکن وفاقی کابینہ نے اسے مسترد کر دیا۔واضع رہے کہ شو آف ہینڈکے ذریعہ سینیٹر منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منتخب ہونے والے سینیٹر کو سب کے سامنے منتخب کیا جائے تاکہ ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ ہی نہ رہے۔سیکرٹ بیلٹ یا خفیہ رائے شماری سے ہارس ٹرینڈنگ کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ اس طرح اراکین سے پس پردہ ساز باز کرکے وفاداریاں خریدی جاتی ہیں۔اور ایک بھاری رقم اس کے عوض انھیں ملتی ہے۔ اوپن بیلٹنگ کا بنیادی مقصد سیاست میں پیسے کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔اور اگر یہ طریقہ رائج ہوجاتا ہے تو سینٹ کے الیکشن ہارس ٹریڈنگ سے پاک ہوجائیں گے۔ گذشتہ سینیٹ انتخابات میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر اراکین کے ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ وہ سینیٹ انتخابات میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کرے گا،