فرض کی پکار “وہاڑی” میں

یادوں کے جھروکوں سے

عابد حسین قریشی

(21)

فرض کی پکار “وہاڑی” میں

(حصہ دوم)

رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

وہاڑی ضلع اولاً ملتان کی تحصیل تھی جسے 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ضلع کا درجہ ملا۔ یہ ضلع وہاڑی، بورے والا اور میلسی کی تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ یہ پاکپتن، ساہیوال، ملتان، لودھراں، خانیوال اور بہاولپور کے اضلاع میں گھرا ہوا ایک زرعی ضلع ہے جس میں کپاس، گنّا اور گندم کی پیداوار مثالی ہے۔ بنیادی طور پر یہ پُرامن لوگوں اور زمیندارانہ روایات کا امین ضلع ہر تحصیل میں الگ الگ سماجی روایات کا مظہر ہے۔ وہاڑی شہر ایک چھوٹا سا خوبصورت صاف ستھرا شہر ہے جو زیادہ تر پنجابی بولنے والوں مگر کچھ سرائیکی لوگوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ بورے والہ ایک جدید شہر کا منظر پیش کرتا ہے اور سنٹرل پنجاب کے کلچر سے گہری مشابہت رکھتا ہے۔ جبکہ تحصیل میلسی خالصتاً روایتی سرائیکی بیلٹ ہے۔ کپاس کی پیداوار کے لیے مشہور اور بڑے زمینداروں کا مسکن ہے۔ کسی زمانہ میں پنجاب کے بڑے زیرک اور پڑھے لکھے سیاستدان ممتاز دولتانہ وہاڑی کی شناخت ہوا کرتے تھے۔

وہاڑی کی مختصر پوسٹنگ کے دوران جب یہ علم ہوا کہ میلسی سے ملحقہ چھوٹے سے گاؤں سردار پور جھنڈیر میں پاکستان کے پرائیوٹ سیکٹر میں سب سے بڑی لائبریری قابل دید ہے تو تشنگانِ علم نے میلسی کا رُخ کیا۔ مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری کی قابلِ رشک بلڈنگ ایک وسیع و عریض رقبہ میں خوبصورت، دلکش چھوٹا سا باغ اندر بڑی بڑی الماریاں ہر زبان اور ہر زمانے کی کتب سے لبالب بھری ہوئیں۔ تقریباً دو لاکھ سے زائد کتب۔ہم نے اپنی طرف سے کچھ غیر معروف کتب کی میزبانوں سے فرمائش کی جو فوری طور پر وہ ساری کتب ہمارے سامنے رکھ دیں۔ میزبان بڑے سُلجھے ہوئے پڑھے لکھے اور اچھی روایات کے حامل خاندانی لوگ۔ بے شمار نوجوان طلبا و طالبات جو PHD کی ریسرچ کے لیے مقالہ جات کی تیاری کے لیے دیگر بڑے شہروں سے آئے ہوئے تھے اُنکے قیام و طعام کا بندوبست بھی معقولیت سے بڑھ کر نظر آ رہا تھا۔ اس لائبریری کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ علم کی خواہش، علم کا حصول اور علم کی ترویج اور سب سے بڑھ کر علم کی طاقت ایک الگ نشہ رکھتی ہے۔ اس لائبریری کو قائم رکھنے اور بغیر کسی حکومتی سرپرستی احسن طریقہ سے چلانے پر یہ لوگ داد کے مستحق ٹھہرے۔ سو دل کھول کر داد و تحسین کی۔ اور واپسی پر ہیڈ میلسی سائفن کے پُر فضا، دلکش اور مسحور کُن ماحول میں رات کے بڑھتے ہوئے سایوں میں تازہ فرائیڈ مچھلی اس سارے سفر کو مزید خوشگوار اور یادگار بنا گئی۔

اب واپس وہاڑی بار اور دیگر عدالتی امور کی طرف پلٹتے ہیں۔ میں نے تقریباً چھ ماہ تک وہاڑی میں کام کیا۔ پوری امانت اور صداقت کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ وہاڑی بار پنجاب کی ایک نہایت وضع دار، پُر خُلوص اور پیار کرنے والی بار ہے۔ کبھی کسی مرحلہ پر کسی بار عہدیدار یا کسی بھی ممبر بار نے کسی مقدمہ میں کسی جوڈیشل کاروائی میں نہ سفارش کی نہ ہی دخل اندازی۔ ایک ٹھہراؤ، سنجیدگی، متانت اور پروفیشنل ازم وہاڑی بار کے انگ انگ سے نمایاں تھا۔ اُن دنوں وہاڑی بار میں نمایاں وکلاء جن کے نام یاد رہ گئے اُن میں فوجداری سائیڈ پر میاں نذرحسین بھٹی، محمود گھمن، احتشام الحق صدیقی، تاج محمّد بھٹی، رانا ساجد اور صدر بار مہر شیر بہادر لک تھے۔ جبکہ سول سائیڈ پر سیّد ندیم رضا بخاری کے علاوہ سیّد نعیم الحسن شاہ، جعفر جاوید اور عبدالخالق بھٹی وغیرہ زیادہ نمایاں اور قد آور تھے۔

بورے والہ میں صدر بار ایک سادہ طبعیت مگر کھرے ایاز گھمن جبکہ میلسی میں بڑے متحرک، زیرک اور اچھے اخلاق و اطوار کے حامل قمر ہاشمی صدر بار تھے۔ ان سب لوگوں نے بنچ اور بار کے باہمی خوشگوار تعلقات، بہترین حالات کار اور بحرانی دور میں بھی عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہو کر اعلٰی پیشہ وارانہ اخلاقیات کا بھرم قائم رکھا۔

جنوری 2014 کے پہلے ہفتہ میں جناب چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے وہاڑی کا دورہ کیا۔ جو غالباً اُنکے دو سالہ دور میں بینچوں کے علاوہ کسی بھی ضلع کا پہلا اور آخری دورہ تھا۔ متوفی اہلکار کی بیوہ سے تعزیت اور وہاڑی بار کے اس بحران میں مثبت کردار کا شکریہ ادا کیا۔ سرکٹ ہاؤس وہاڑی میں متوفی اہلکار کی بیوہ اور تین سالہ کمسن نا بالغ کو جس طرح نمناک آنکھوں کے ساتھ محترم چیف جسٹس صاحب نے پُرسہ دیا ناقابل بیان ہے۔ اپنی یاداشت کے سہارے جو فقرہ جناب بندیال صاحب نے مرحوم کی بیوہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جو یاد رہ گیا اسطرح تھا کہ “ میں تمارے ساتھ تعزیت کرنے آیا ہوں، تمہیں پُرسہ دینے آیا ہوں اور تم سے معافی مانگنے بھی آیا ہوں۔” ایسے الفاظ کوئی وسیع الظرف، وضع دار، اعلٰی خاندانی روایات کا امین شخص ہی ادا کر سکتا تھا۔ یہ بات کہتے ہوئے ماحول کافی سوگوار ہو چکا تھا۔ اُس وقت میرے علاوہ رجسٹرار ہائی کورٹ سردار احمد نعیم صاحب، ڈی۔سی۔ او جواد اکرم اور ڈی۔پی۔او صادق علی ڈوگر بھی موجودہ تھے۔

اسکے بعد جناب چیف جسٹس صاحب نے وہاڑی بار سے بھی خطاب کیا۔ مجھے بھی چند گزارشات پیش کرنے کا موقع میّسر آیا۔ اُس روز وہاڑی بار کا ڈسپلن دیدنی تھا۔ جسکی تعریف چیف جسٹس صاحب نے دل کھول کر کی۔ چیف صاحب نے اشارۃً جب صدر بار کو یہ کہا کہ عابد حسین قریشی نے اپنا ٹاسک اور مشن مکمل کر لیا ہے لہٰذا اسے لاہور کے قریبی ضلع میں لے جانا چاہتا ہوں تو صدر بار ندیم بخاری ایڈوکیٹ نے اصرار کیا کہ ابھی کچھ عرصہ قریشی صاحب کو یہیں رہنے دیا جائے۔ تاہم جو تبادلہ وہاڑی سے تین ماہ کے اندر ہونا تھا وہ تقریباً چھ ماہ بعد ہوا۔

اُن دنوں وہاڑی میں ایک درویش منش امتیاز ندیم سینئر سول جج تعینات ہوئے۔ ایڈیشنل سیشن ججوں میں لیاقت لنگڑیال جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کے علاوہ ایک نیک نام جج عارف حمید شیخ اور مرحوم بشیر خان اور سول ججوں میں جو نام یاد رہ گئے ان میں عظیم اختر، رائے آفتاب، سرفراز حسین، سعید رضا، عمران نذیر، ندیم بٹ، نعیم شہباز، وقاص ثنا اور سعید برکات شامل تھے۔ یہ سبھی نوجوان بڑے ہی ہونہار، نیک نام، محنتی اور جانثار تھے۔ اسی طرح میلسی میں بڑے زیرک اور معاملہ فہم خضر حیات سیال کے ساتھ قانون و ضابطہ کے پابند اقبال احمد خان میو اور بڑے زندہ دل اور وضع دار سیّد نوید رضا بخاری ASJ تعینات تھے۔ بورے والہ میں ہمارے قابل احترام برادران محسن رضا اور چوہدری محّمد الیاس ASJ تعینات تھے۔ ان سبھی جج صاحبان اور دیگر جن کے نام یاد نہ آ رہے ہیں کی وجہ سے وہاڑی اُس زمانہ میں جوڈیشل ورک میں نمایاں طور پر آگے تھا۔ اعلٰی کارکردگی پر پنجاب کے بہترین سیشن جج کا ایوارڈ کچھ دیگر جج صاحبان کے ساتھ ایک عدد لیپ ٹاپ اور حُسن کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ کی صورت بدست عزت مآب چیف جسٹس صاحب لاہور ہائی کورٹ ایک پُروقار تقریب منعقدہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی لاہور کے ہال میں ملا۔

وہاڑی کے قیام کے دوران جب نوجوان جوڈیشل افسران کو وہاڑی جوڈیشل ریسٹ ہاؤس کی دلکش عمارت کے ملحقہ وسیع و عریض سرسبز لان میں ٹینس کھیلتے دیکھا تو دل مچل گیا۔ لان ٹینس کے ساتھ اپنی دیرینہ محبت و وابستگی عود کر آئی۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے آخری مرتبہ ٹینس ساہیوال میں تقریباً 13-14 سال پہلے چھوڑی تھی اسی جوش و خروش کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی۔ اب جذبوں میں وہی رعنائی اور ترنگ تو تھی مگر جسم آرام پرستی کا عادی ہو چکا تھا۔ لہٰذا اب صرف سیر پر ہی اکتفا تھا۔ اور نتیجہ ظاہر کہ جب جسم پر غیر ضروری بوجھ لادا جائے تو شکست و ریخت کا قوی امکان ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا کہ چند روز بعد بازو کے مسل بلکل شل ہو گئے اور پھر ڈاکٹر کی ہدایت پر ٹینس کو با دلِ نخواستہ خیر باد کہنا پڑا۔ مگر بطور سربراہ ضلعی عدلیہ میری ہر سٹیشن پر یہ دلی خواہش رہی کہ ہمارے جوڈیشل افسران جو ہمہ وقت دیدہ و ندیدہ خوف اور سٹریس میں کام کرتے ہیں ان کے لیے کلب میں یا کسی بھی مناسب جگہ پر ورزش اور کسی گیم وغیر کے مواقع میسّر آنے چاہیں۔ یہ بات کسی بحث کی محتاج نہیں ہے کہ ورزش، کھیل اور حتٰی کہ گپ شپ کسی بھی انسان کو نارمل، متوازن، صحت مند اور چُست و توانا رکھنے میں ممّد و معاون ثابت ہوتی ہے۔

ضلعی عدلیہ کی سربراہی بلاشبہ بڑا اعزاز ہے مگر یہ ایک مربوط اور منظم ٹیم ورک کا نام ہے۔ سیشن جج جتنا مرضی محنتی اور کام کرنے والا ہو اگر اُسکی ٹیم کمزور ہے تو سب بے سود۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر مرتبہ آپکو ایک جیسی ہونہار ٹیم نہیں ملتی مگر بطور کپتان بہرحال سیشن جج کو یہ گُر آنا چاہیے کہ اپنی ٹیم کے کس بندہ سے کیا کام لینا ہے۔ پھر سیشن جج میں لیڈر شپ کوالٹی کے ساتھ نیک نیتی، حُسن سلوک، اعلٰی اخلاقی اقدار، برداشت، ہم آہنگی، ایثار و قربانی کے جذبہ سے لیس ہونا بھی ضروری ہے۔ بار اور بنچ کے باہمی روابط میں آجکل سیشن جج کا کلیدی رول ہے اور یہ رول سیشن جج کی بصیرت، قائدانہ صلاحیتوں، طبعیت میں توازن اور سب سے بڑھکر بار اور بنچ کی طرف سے اعتماد یا Trust ہونا کامیابی کی کلید ہے۔ مگر ان سب کچھ کے باوجود بعض اوقات اُنہونی باتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ ہم نے کبھی یہ سوچھا بھی نہیں ہوتا کہ اچھے خاصے پُر امن ماحول میں اچانک کسی ناخوشگوار واقع سے اتنا ارتعاش اور تلاطم پیدا ہو گا کہ قابو سے باہر ہو گا۔

بطور سیشن جج آپ صرف اُسی صورت میں ہی خُورسند اور مسرور رہیں گے جبکہ آپ اپنے ساتھی رفقا ججز اور اپنے ماتحت عملہ اور ممبران بار کا اعتماد رکھتے ہوں اور ساتھ سب سے بڑھکر اللہ تعالٰی کا خصوصی کرم اور فضل شامل ہو۔ اپنے طویل عدالتی تجربہ، وکالت اور دیگر عوامل کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جو اس جوڈیشل سروس کا نچوڑ نظر آیا وہ عاجزی و انکساری کےساتھ ایک متوازن اور خوش گوار رویہ کی حامل شخصیت آپکی مجموعی کارکردگی پر بڑے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ میں ہمہ وقت احساس تفاخر سے بچنے کی شعوری کوشش کرتا رہا اور اپنی ذہانت و فطانت کو فخر و مباہات کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے اپنے عیوب و نقائص پر نظر رکھی اور دیگر ساتھیوں کے محاسن و خصائل کو سراہا اور ڈرانے اور خوف زدہ کرنے کی بجائے داد و تحسین اور حوصلہ افزائی کے ذریعے انکی استعداد کار میں اضافہ کرایا جو بڑے خوش گوار نتائج کا باعث بنا۔ آپکے کلیدی عہدہ کا مزہ تبھی دو آتشہ ہوتا ہے جب آپکے رفقاء کار اور ماتحت خوف کی بجائے دل سے آپکی قدر اور عزّت کریں۔ آج ریٹائرمنٹ کے بعد اس کیفیت کا پوری طرح ادراک ہوا ہے اور اپنے دوستوں خصوصاً نوجوان ججز جن میں سے کئی کے ساتھ کام کیا اور کئی کے ساتھ کام نہیں بھی کیا انکی طرف سے پیار و محبت اور عزت و احترام کے جذبات دیکھ کر اور اُنکی محبتوں کا مقروض ہو کر اور ایک خاص جذبہ افتخار سے سرشار ہو کر یہ سطریں لکھنے پر دل از خود مائل ہے۔ قبل ازیں بھی اسکا بارہا اظہار کر چکا ہوں کہ مجھے میری اوقات، قابلیت اور اہلیت سے ہمیشہ اللہ تعالٰی نے زیادہ نوازا ہے اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بندہ نا چیز پر خاص کرم رہا ہے۔

بہرحال وہاڑی میں ایک کامیاب اننگ کھیلنے کے بعد اگلا پڑاؤ بابا بلھے شاہ کی دھرتی قصور تھی۔ وہاڑی سے رخصتی کا منظر بھی کیا عجب تھا۔ بھلانا مشکل ہے۔ ایک ہی دن میں چارج چھوڑنا تھا۔ لہٰذا اُسی روز وہاڑی بار نے ایک پُر تکلّف ٹی پارٹی کا اہتمام کیا۔ دوپہر کو ڈسٹرکٹ جوڈیشری وہاڑی نے بڑا خوبصورت اور پُر خلوص ظہرانہ دیا۔ جب وقت رخصت آیا تو وہ منظر دیدنی تھا۔ تمام جج صاحبان، ڈی۔سی۔او اور ڈی۔پی۔او وہاڑی تمام اہلکاران اور چیدہ چیدہ وکلاء سڑک پر کھڑے تھے۔ وہاڑی کے وہی اہلکار جو چند ماہ قبل پتھر اُٹھائے ہوئے تھے آج گھروں سے ٹوکریاں بھر بھر کر گلاب کے پھول لیکر آئے تھے۔ میری سرکاری گاڑی پر اتنی گل پاشی ہوئی کہ تقریباً نصف کلومیٹر تک وہ کسی دُلہا کی گاڑی کا منظر پیش کرتی رہی۔ میرے ڈرائیور کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں بھی اپنے آنسو اس منظر پر ضبط نہ کر سکا۔ لہٰذا عابد علی عابد کا یہ تصیح شدہ شعر مکرّر بصارتوں کی نظر کرنا پڑ رہا ہے۔

وقت رخصت وہ چپ رہے عابد
اور آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل