سندھ کی بہادر خاتون صحافی نے تھر کو دبئی بنانے کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ۔۔۔زمینی حقائق پر مبنی سنسنی خیز رپورٹ

صوبہ سندھ کے پسماندہ و خشک سالی کےشکار ضلع تھرپارکر میں جب چند سال قبل تھرکول کا منصوبہ شروع ہوا تو مجھ سمیت ہر پاکستانی سمجھ رہا تھا کہ اب بس چند ہی سال میں تھر پسماندہ علاقے سے ترقی یافتہ دبئی جیسے علاقے میں تبدیل ہوجائے گا۔

تھرکول منصوبے کے شروع ہوتے ہی لکھاریوں، صحافی، سیاستدانوں اور سماج میں تبدیلی لانے کے خواہاں افراد نے ایسے ایسے مضامین لکھنا شروع کردیے جن میں تھر کے مستقبل کی ایسی منظر کشی پیش کی گئی تھی کہ یوں لگتا تھا کہ جیسے پاکستان کے باقی علاقے تھر سے سالوں پیچھے رہ جائیں گے۔

مگر بدقسمتی سے تھرکول جیسے منصوبے کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود تھرپارکر کے لوگوں کی قسمت نہیں بدلی بلکہ دن بدن ان کے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

حال ہی میں کافی عرصے کے بعد پاکستان فشر فوک فورم (پی ایف ایف) کے زیر اہتمام تھرپارکر کے میڈیا دورے پر جانے کا موقع ملا اور میں یہ سوچ کر تھر گئی کہ میں بھی دبئی جیسے سندھ کے شہر کی ایک جھلک دیکھ کر آؤں مگر وہاں جاکر مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔

دورے کے دوران تھرکول منصوبے کے بلاک ون اورٹو کے آس پاس رہنے والے باسیوں سے تبادلہ خیال کیا توان کے اندر ایک مایوسی اور مسقبل کے خواب بکھرتے نظر آرہے تھے، وہ اپنا حال سنانے کے دوران جذباتی ہوکر آبدیدہ بھی ہوگئے۔

ہم تھرکول کے بلاک ون اور ٹوکے ایک گاٶں ورواٸی لنجا گئے، جہاں پر گورانوڈیم واقع ہے، وہاں کے احمد امین لنجو اور حاجی ثناءالله راہموں سمیت دیگر مقامی باسیوں سے بات چیت کی توانہوں نے بتایا کہ تھرکول کے 14سے 15 بلاک ہیں مگرہمیں کسی بھی بلاک میں شامل نہیں کیاگیا، ہم ترقی کے خلاف نہیں مگر ہمیں بنیادی سہولیات دی جاٸیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بلاک اول میں 16 گاؤں ہیں جہاں تقربیا 450خاندان آباد ہیں، معاہدے کے تحت 1650ایکڑاراضی جس میں 838 ایکڑزمین پر جانوروں کی چرا گاہیں ہوں، زمین سے ہرخاندان کو42 لاکھ روپے کی اداٸیگی کے علاوہ اسکولزسمیت دیگر بنیادی سہولیات، جن میں اسپتال، مکانات اور خاص طور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکولز ہونے چاہیئں ۔

انہوں مزید بتایاکہ 30 فیصد خاندانوں کو صرف 50 فیصد معاوضہ اداکیا گیا ہے جب کہ کانوں سے نکلنے والا پانی چراگاہوں میں چھوڑدیا گیا ہے جس سے سبزہ ختم ہوگیا، درخت تباہ ہوگٸے جب کہ مویشی بھی خطرے میں آگٸے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ ماحولیات پرپڑنے والے اثرات کے تدارک کے لیے کوٸی بھی موثرمنصوبہ بندی نہیں کی گٸی ہے، جس سے بارشوں میں جمع ہونے والازیرزمین پانی آلودہ ہوگیا ہے ۔

مقامی باسیوں نے مزید بتایا کہ تھرمیں کوٸلے کے بلاک ٹو سے نکلنے والا انتہاٸی کھاراپانی گھورانوگاٶں کے قریب جمع کیا گیا ہے جس سے ایک وسیع ترعلاقہ جھیل کی شکل اختیار کرچکا ہے، جس سے ہمارے 12گاٶں متاثرہوٸے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پانی جمع کرنے کے لیے ابتدامیں 2500 ایکڑ رقبہ مخصوص کیاگیا تھا لیکن اب وہ 4000 ایکڑ رقبے سے زائد رقبے تک پھیل چکا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقے میں ایک کنڈی کادرخت بہت زیادہ تعداد میں پایاجاتاہے، جس سے ہم جانور کوچارے کے طور پر استعمال کرتے اور اس کی لکڑیاں فروخت کرتے ہیں، جس سے ان کی آمدنی بھی ہوتی تھی لیکن اب وہ پانی کے اندر آنے کے بعد مکمل تباہ ہوگٸے ہیں ۔


احمدامین لنجونے کہا کہ ہم سے جووعدے کیے گٸے ان کو پورا کرنے کے بجاٸے مقامی پولیس سے ذریعے ہمیں ہراساں کیاگیا، اسسٹنٹ کمشنر نے معاہدے کی خلاف ورزی پر بھی بے دخلی کے نوٹس پیش کرنا شروع کردیئے ہیں جو اب تک ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلاک اول میں واقع پورا علاقہ باڑ لگا ہوا ہے اور حکام نے بے گھر آبادی کے لئے اسے نو گو ایریا قرار دیا ہے۔

اس مزید کہاکہ ہم کوئلے کی کان کنی اور پاور پلانٹ کی تعمیر کے خلاف نہیں ہیں لیکن حکام کے رویے نے ہمارے لئے ‘بقا کا مسئلہ’ بنا دیا ہے اور اگر ہمارے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو ہمارے پاس مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی) کے ذریعہ نیو سھنری درس کے مقام پر تیار کیے گئے ماڈل گاؤں کے رہائشیوں نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ مکانات کی تعمیر میں کمتر معیار کا مواد استعمال کیا گیا تھا ، جو پچھلے مون سون کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا ، انہوں نے مزید کہا کہ کمپنی منتقل نہیں ہوئی نہ ہمیں گھروں کی ملکیت دی گئی ہے ۔

جب ہم گھورانوڈیم کے دیگر گاٶں میں گٸے جوبلاک ٹومیں تھے تووہاں کے باسیوں نے شکایت کے انبار لگ دیٸے، وہاں لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم تھرکی ترقی کے خلاف نہیں ہیں، ہم چاہتے ہیں ترقی ہو مگر ہمیں بنیادی سہولتیں دی جائیں۔

انہوں نے کہاکہ گھورانو کے ذخائر میں مقامی باسیوں کو کوٸی معاوضہ نہیں دیاگیا ہے ۔

سب سے زیادہ متاثر سلیمان ناٸی گاٶں کے لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے متعلقہ اتھارٹی سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں کیونکہ پینے کا پانی جمع کرنے کے لیے روزانہ تقریبا 2 کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے۔

پی ایف ایف کے چیئرمین محمد علی شاہ نے دورے کے موقع پر بتایا کہ کوئلہ بجلی کے منصوبوں کے لئے جاری اراضی کے حصول نے ہزاروں مقامی خاندانوں کو ان کے آبائی گاٶں سے دور کردیا ہے اور وہ ان کے اپنے زرعی شعبے ، چراگاہیں اور روزگار کے ذرائع ختم ہوگٸےہیں جس کے نتیجے میں معاشرتی ناانصافی اور غربت کی متنازع شکلیں نکل رہی ہیں۔

گورانو گاؤں کے رہائشی لال بخش نے بتایا کہ کوئلہ کمپنی نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ نتیجہ نہیں دے رہے تھے کیونکہ وہ زمینی حقائق سے بے خبر تھے۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر انہوں نے نیو سھنری درس میں ایک اسکول بنایا لیکن ہم اپنے بچوں کو وہاں بھیجنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ گھورانو سے 35 کلومیٹر دور ہے اور یہاں کوئی بس سروس نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ “اسی طرح ، انہوں نے مچھلی کی کاشت اور سیاحت کے لئے مائن واٹر ذخیرے کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس خطے کی غلط جیو میپنگ کی وجہ سے اس پرعمل نہ کرے سکے ۔

فشرفوک فورم کے چیٸرمین محمدعلی شاھ نے کہاکہ تھرکوٸلے کی کانوں اورپاورپلانٹ پرماحولیات کے اثرات اورمقامی درپیش مساٸل سے آگاھ کرنے کے لیے چینی حکام کوخطوط ارسال کردیے گئے ہیں، یہ خطوط فشرفورک فورم کی جانب سے لکھے گئے۔

محمدعلی شاھ نے مزید بتایا کہ اگلے مرحلے میں مقامی آبادی کی جانب سے بھی چینی حکام کوان منصوبوں کے ماحولیاتی اورسماجی اثرات سے آگاہ کیا جاٸے گا جوچین کی مالی معاونت سے تھر میں لگاٸے جارہے ہیں۔

انہوں مزید کہاکہ پاورپلانٹس سے نکلنے والی مضر گیس کی وجہ سے پرانی کھانسی ، شوگر، دل کی شریانیوں میں خون کا جم جانا، سانس کی بیماریاں، جلد کی بیماریاں، پھپھٹروں کا کینسر اور وقت سے قبل بچوں کے پیدا ہونے سمیت کئی طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

محمدعلی شاھ کا کہنا تھا کہ یہاں پر اصل ایشوتین ہے جن میں زمین کے معاوضے، ماحولیات اور عوامی صحت سمیت پینے کے صاف پانی کے مسائل حل کرنا شامل ہیں ۔

اینگرو کے ترجمان سے رابطہ کرنے پرانہوں نے کہ یہ بیان غلط ہے کہ ابتدائی طور پر گورانو تالاب کے لئے 2500 ایکڑ رقبے کو مختص کیا گیا تھا – جو اب 4000 ایکڑ پر پھیل چکا ہے۔
تالاب کے لئے مختص کُل رقبہ لگ بھگ 1،500 ایکڑ ہے ، جس میں سے 500 ایکڑ سے زیادہ گورنو تالاب کے لئے رہا ہے۔

انہوں کہاکہ مزید برآں اس بات کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے کہ جو گورانو کے ذخائر کے آس پاس زمینی پانی کے معیار کو اہل بناتا ہے اسے زہریلا ہونے دیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ تیسری پارٹی کے آڈیٹرز کے ذریعہ کئے گئے مستند لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق گورانو حوض کے آس پاس لگے ہوئے کنوؤں کے پانی کا معیار بدلا ہوا ہے اور پانی کے نمونوں میں زہریلے اور کیمیائی مادے کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کامیابی کے ساتھ مچھلیوں کی افزاٸش کی جاسکتی ہے اورجوکاشت کرناچاہتے کرسکتے ہیں ۔

ایس ای سی ایم سی نے بتایا کہ نیو سھنری درس کے ماڈل گاؤں کو سھنری درس برادری کے ساتھ قریبی مشاورت سے تشکیل دیا گیا ہے۔

اجتماعی طور پر متحرک ہونے کے مختلف سیشن تھے جو اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کئے گئے تھے کہ ہر مرحلے پر مقامی افراد اس عمل میں شامل ہوں۔

—————-
courtesy-to-awami-awaz————

تھرکول منصوبے سے تھر دبئی تو نہیں بن پایا مگر تباہ ضرور ہوا