لڑکا باتیں کرتا ہے……!

نیوز روم/امجد عثمانی

————————

بندہ خوب صورت بھی ہو،خوش گفتار بھی اور عالی دماغ بھی ہو،کم ہی خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ تینوں اوصاف ایک ساتھ پائے جاتے ہیں……کئی لوگ خوش شکل ہوتے ہیں مگر عقل سے پیدل ہوتے ہیں،کچھ گفتگو اچھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر نکمے ہوتے ہیں،کئی بہت ذہین ہوتے ہیں مگر بات کرنے کا ڈھنگ نہیں ہوتا……
بے چارے خوب صورت لوگوں کے اپنے ہی مسائل ہوتے ہیں ….اگر خوب صورت لاڈلا بھی ہو تو عذاب اور بڑھ جاتا ہے…….شومئی قسمت کہ سیالکوٹ میں ہمارے ایک” صاحب جمال دوست” کو بھی ایسے حالات سے گذرنا پڑا…وہ ہینڈ سم بھی تھا اور والدین کی آنکھوں کا تارا بھی…..بڑی مشکل سے تعلیم سے جان چھوٹی تو شادی لٹک گئی….آسمان سے گرا کھجور سے اٹکا والی صورتحال نے چکرا کے رکھ دیا…..”ورکنگ لیڈی” سے شادی کے خواب نے گھر والوں کو دن میں” تارے” دکھا دیے….رشتے والے آتے اور دیکھ کر چلے آتے…..ماں باپ بہن بھائی سمجھتے یہ کوئی “بندش” ہے کہ پہلے کسی بدخواہ نے تعلیمی عمل جکڑ دیا ،اب شادی نہیں ہونے دے رہا…..سمجھ نہ آتی کہ ماجرا کیا ہے؟تنگ آمد بجنگ آمد ایک “عینی شاہد” نے ایک دن بھانڈہ پھوڑ ہی دیا…….”گھر کے یہ بھیدی” پہلے بھی موصوف کو “کمبل دانشور” قرار دیتے ….ان کا موقف تھا کہ یہ صاحب کوئی کتاب پڑھتے ہیں نہ اخبار… سارا دن لحاف اوڑھے سوئے رہتے ہیں اور رات کو دنیا کے تمام امور پر گرما گرم بحث کرتے ہیں…..”عینی شاہد” نے شادی میں” رکاوٹ” کی وجہ بتاتے ہوئے “انکشاف” کیا کہ بعض اوقات ایک دن میں کئی رشتے آتے ہیں….لڑکی کے گھر والے پہلی نظر میں ہی اس کے دیوانے ہو جاتے ہیں….گفتگو سنتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں….چائے کی چسکیاں لیتے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے خوشی شئیر کرتے ہیں…..اچانک ایک سوال سے ساری گیم الٹ جاتی ہے اور ہنستے مسکراتے چہروں پر مایوسی چھا جاتی ہے ……لڑکی والے اپنی بیٹی کی خوب صورتی ،تعلیم اور جاب کی تعریفوں کے پل باندھنے کے بعد پوچھتے ہیں کہ خیر سے ہونے والے “داماد”کیا کرتے ہیں تو صاحب کے گھر والے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں….پھر نظریں جھکائے کہتے ہیں کہ ابھی تو لڑکا باتیں ہی کرتا ہے…….اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی اور “خیال چودھری” کے سر پر رکھا انڈوں کا ٹوکرا زمین پر آگرتا ہے…….اس بریکنگ نیوز پر “عینی شاہد” کو کئی بار سخت” ری ایکشن” کا سامنا بھی کرنا پڑا….لڑکے لڑکی والوں کے درمیان یہ” آنکھ مچولی “کافی عرصہ چلتی رہی….آخر والدین کی کوئی نیکی کام اگئی اور اللہ نے کرم فرمادیا……. سنا ہے کہ اب بھائی صاحب ایک نہیں “کئی کام” کرتے ہیں…..لاہور میں بھی ہمارے ایک “ہیبڈ سم گرجدار صحافی دوست” شادی سے پہلے صرف باتیں ہی کرتے تھے لیکن ماشا اللہ اب وہ بھی “سارے کام “کرتے ہیں……ویسے ایسے” لڑکے” “رسک” ہی ہوتے ہیں چل تو چل گئے ورنہ رشتہ کرانے والے شرفا کے “گلے” پڑ جاتے ہیں……….ایک اخبار میں بھی ہمارا واسطہ ایسے ہی ایک” کیریکٹر”سے پڑگیا…….موصوف بھی کام کم باتیں زیادہ کرتے…..بلکہ یک دو شد ،جو کام نہ آتا اسے دوسروں کے کھاتے میں ڈالنےکا فن بھی خوب جانتے …..ایک صفحہ دیکھتے لیکن یوں لگتا پورا اخبار بنا رہے ہیں….”یونی کوڈ ” کے ماہر مگر سر پکڑ کر یوں بیٹھے ہوتے جیسے کوئی “شاہکار “تخیق کرنے جارہے ہیں …..جب دیکھو ایڈیٹر روم کی طرف بھاگ رہے ہوتے جیسے کوئی ایمرجنسی لگ گئی ہے………شاطر ایسے کہ اپنے اوپر کوئی ذمہ داری نہ آنے دیتے……صفحہ تیار کرتے اور ایڈیٹر کے سامنے ادب سے جا کھڑے ہوتے کہ سر !سرخی آپ سے بہتر کون جما سکتا ہے….سرخی مل جاتی تو کہتے کہ سر! شعر کا انتخاب کوئی آپ سے سیکھے….؟؟؟؟
“جینٹلمین ایڈیٹر “سب کچھ چھوڑ کر سرخیوں میں الجھ جاتے اور شعر ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک ہوجاتے……سرخی اور شعر مل جاتا تو واہ واہ کرکے کمرے سے نکل جاتے……..صبح ایڈیٹر صاحب کو خوش خبری دیتے کہ آج صفحہ خوب “ڈسکس” ہوا ہے……ایک روزنامے کی کیا اوقات ہے خوشامدی تو سلطنتیں گرادیتے ہیں……
اپنا کام دوسرے پر ڈال کر “محفوظ راستے”کی تکنیک سے یاد آیا کہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں ہمارے ایک پروفیسر دوست کو اسلامیات پڑھانے کا جنون ہوا….ایک روز پورے سکول کے اساتذہ اور طلبہ کو جمع کیا اور سورہ اخلاص کا ترجمہ اور تفسیر پڑھانی شروع کردی…..”لم یلد و لم یلد” کے ترجمے پر ہی کنفیوز ہوگئے….اچانک عربی فاضل خاتون ٹیچر پر نظر پڑھی تو کہا میڈم آپ اس کا ترجمہ بتائیں ….اس نے جھٹ سے بتادیا….پروفیسر صاحب نے تین مرتبہ پوچھا یہ درست ہے نا؟؟؟ کنفرمیشن کے بعد کلاس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا چلو یہی پڑھ لیں ….. غلطی ہوئی تو “گناہ “استانی صاحبہ کو ہوگا……..
دوستوں کے دوست جناب تنویر عباس نقوی یاد آگئے….وہ ایک مرتبہ اسلام آباد سے داتا کی نگری آئے تو ان کے ساتھ وفاقی پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک صاحب بھی تھے……لاہور پریس کلب میں چائے پیتے انہوں نے اپنے “رفیق سفر” کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ بھائی بہت اچھے شاعر ہیں…..ایک کتاب بھی لکھ چکے……اچانک ان کی” رگ ظرافت” پھڑکی اور بولے میرے ممدوح بہت مہذب ،متمدن اور مدبر ہیں مگر جب تک خاموش رہیں….بھائی جی نے لب کھولے نہیں،ان کی” سندر شخصیت” کا بت پاش پاش ہوا نہیں …….مہمان شاعر سمیت سب نے قہقہہ لگایا اور محفل برخاست ہوگئی…..
یہ تو تین چار ذاتی مشاہدات ہیں ورنہ صحافت سے سیاست،تعلیم سے دین تک زندگی کے ہر شعبے میں ایسی “خوبیوں” والے بے شمار دلچسپ کردار مل جاتے ہیں…اپنے گھر کی بات کرتے ہیں ….میڈیا میں جو بندہ کسی کام کا نہیں ہوتا وہ سے سب سے زیادہ “شور شرابہ “کرتا ہے….سیاستدانوں کو لے لیجیے جو کوئی کام نہیں کرتے ، اسمبلی ہو یا ٹاک شو ،وہ سب سے زیادہ باتیں کرتے ہیں….کچھ ایسے بھی ہیں کہ لب کشائی نہ ہی کریں تو اچھا ہوتا ہے کہ جب بولیں گے نیا” کٹا “کھل جائے گا…….بعض ایسے شاطر ہیں کہ اپنا ملبہ بھی دوسروں پر ڈال کر چل نکلتے ہیں………جو اساتذہ پورا سال ایک لفظ نہیں پڑھاتے وہ “لیڈر “کہلاتے ہیں….مفتی تقی عثمانی ایسے علمائے کرام بولنے سے پہلے سو بار سو چتے ہیں اور کچھ “صاحبان جبہ و دستار “دن میں سو سو بار بولتے ہیں کہ ہم بھی “علما “ہیں…. کچھ مہم جو جرنیلوں اور بات بات پر ازخودنوٹس والےججوں سے بھی ایسے “کار ہائے نمایاں “منسوب ہیں……….عام شہریوں سے رولنگ کلاس تک،جس طرف بھی جائیں وہاں “باتوں والے ہینڈ سم لڑکے “پہلی لائن میں دکھائی دیتے ہیں…. قیام پاکستان کو پون صدی گذر گئی….قائد اعظم کے بعد قوم ایسے لیڈر کو ترس گئی ہے جو باتوں کے بجائے کام کی بات کرے……سچے اور امانت دار محمد علی جناح نے باتیں نہیں کام کیا اور چند برس میں ہی پاکستان بنادیا…..ہم نے کام نہیں باتیں کیں اور صرف 24سال بعد ہی ملک توڑ کر قائد کی روح کو تڑپادیا……..سچی بات ہے چوہتر سالوں میں جمہوری اور غیر جمہوری” باتونی لیڈروں” نے ملک کو بہت پیچھے دھکیل دیا…وطن عزیز کو ایک بار پھر قائد اعظم کی طرح کام کرنے والے قائد کی اشد ضرورت ہے…..!!!