پاکستان کا “پنجابی بابا”


نیوز روم/امجد عثمانی

———————–

ہندوستان میں شدت پسند مودی سرکار کی زرعی اصلاحات کیخلاف “جارحانہ تحریک “کسان اور زبان کے دائرے سے نکل کر” خالصتان “کی تحریک بن گئی ہے …..بھارتی کاشتکاروں کے اس تاریخ ساز احتجاج میں پاکستان کے”پنجابی بابے” کا راج ہے…..سکھ عقیدت مندوں نے باباجی کی تصاویر والے پوسٹرز اٹھا رکھے ہیں، جن پر ان کی انقلابی نظمیں گورمکھی میں درج ہیں….دیہات سے شہروں تک پھیلے ملک گیر مظاہروں میں ان کے اشعار کی گونج ہے….پنجابی کے اس بابے کو بابا نجمی کہتےہیں….اس سے پہلے بھی بھارتی پنجاب کے شہر موگہ میں نامور سنگ تراش منجیت سنگھ گل نے عقیدت سے بامہا دیش بھگت سنگھ پارک میں “پتھر کا بابا نجمی ” ہی گاڑ دیا تھا…….
بچپن سے لمبی زلفوں والے میانہ قد بشیرحسین کے منوبھائی کی طرح بابا نجمی بننے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے…..ساتویں کلاس میں تھے کہ کسی دوست کے ساتھ اپنے ایک عزیز کی عیادت کے لیے میو ہسپتال گئے…منچلے سنگھی نے وہاں کسی ڈاکٹر نجمی کے نام کا بورڈ دیکھا تو کہا یار بشیر آج سے تو بھی ہمارا نجمی ہے….پھر سکول میں ایک ڈرامے میں انہیں “بابے” کا کردار ملا…..ادھر ایک مہربان نے پرفارمنس دیکھ کر کہا کہ آج تو آپ واقعی بابا نجمی ہی بن گئے….پھر لاہور کے علاقے مغل پورہ کا بشیر حسین شناختی کارڈ تک محدود رہ گیا اور بابا نجمی سرحدیں عبور کرکے” انٹرنیشنل برانڈ “بن گیا…..
فیض،جالب ،منیرنیازی اورفراز کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے بابا نجمی درویش آدمی ہیں…..جو محسوس کیا وہی ڈنکے کی چوٹ کہا….ماں بولی کو خون پسینہ ایک کرکے ماں ایسی عزت دی…….قمیض پاجامہ پہننے اور پیدل ہی گھومنے پھرنے والا یہ سچ گو بابا بھی انوکھا بابا ہے….
وہی بات جو پروفیسر اختر شمار کے شاگرد اور ہمارے مرحوم صحافی دوست عامر شفیع کہا کرتے…..
میرے منہ میں جھوٹی زباں نہیں
میں اس عہد کا انساں نہیں

یقین جانیں بابا نجمی کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بھی اس عہد کے انسان نہیں، کسی بڑے قبیلے سے بچھڑے ہوئے وضع دار سردار ہیں…ڈی جی پلاک محترمہ صغرا صدف نے لاہور پریس کلب میں بابا جی کی ایک سالگرہ تقریب پر انہیں سلیوٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ شاعر گاڑیوں پر مشاعرہ پڑھنے آتے ہیں اور معاوضے کیلئے لڑتے ہیں جبکہ بابا جی پیدل آتے ہیں اور چیک ٹھکرا کر چلے جاتے ہیں……
73سالہ بابا نجمی نے زندگی کی 33 بہاریں شہر قائد میں دیکھیں…وہ عین شباب 25سال کی عمر میں کراچی گئے اور 58برس میں بڑھاپے کے ساتھ آبائی شہر لاہور لوٹے…..
ہماری بابا جی سے پہلی ملاقات کوئی اٹھارہ سال پہلے روشنیوں کے شہر میں ہی ہوئی تھی…..نیا اخبار کے دنوں میں نیوز روم کے ہمارے رفیق کار اور آج کل پی ٹی وی کے پنجابی پروگرام “ویلے دی گل” کے میزبان میاں طارق جاوید نے ہمیں ان کا تعارف کرایا……فرسٹ ایمپریشن از دا لاسٹ ایمپریشن،باباجی دیکھتے ہی بھلے لگے…2007میں ان کی لاہور واپسی پر جناب سے قربت بڑھ گئی…..پھر گاہے گاہے نشستیں بھی ہونے لگیں….بابا جی کی “ہجرت”پر شہر قائد کے ادیبوں،شاعروں اور صحافیوں نے ان سے ٹوٹ کر پیار کیا…. کراچی پریس کلب نے بھی انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا….. جب برادرم شہباز میاں لاہور پریس کلب کے صدر تھے تو میں نے اسی تناظر میں بابا جی کو اعزازی لائف ممبر شپ دینے کی تجویز دی….. نائب صدر جناب زاہد گوگی نے اس” خاکے” میں رنگ بھرے ،یوں بابا جی لاہور پریس کلب کا معتبر حوالہ بن گئے……..چار سال پہلے اسلام آباد سے پنجابی سیوک جناب مسافر لودھی نے کہا کہ شکرگڑھ کے پیارے سے پنجابی شاعر جناب بشیر کمال کی کتاب “دھرتی انبر تارے” کی تقریب رونمائی ہے….دوستوں کی خواہش ہے آپ اور بابا نجمی آجائیں….میں نے بابا جی سے درخواست کی تو انہوں نے مان رکھ لیا……یوں بابا جی کے ساتھ ایک سفر میں انہیں قریب سے چانچنے کا موقع بھی مل گیا……..محنت کش بشیر کمال بھی جینوئن شاعر ہیں…..سادہ لباس اور سرپر پیلی پگڑی ان کی شان بڑھاتی ہے…..ادب دوست سیاستدان انور عزیز مرحوم بھی اس یاد گار تقریب میں موجود تھے….انہوں نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے ،بابا نجمی کو جھک کر سلام کیا اور سٹیج کے سامنے پنڈال میں گردن جھکا کر بیٹھ گئے…..
بابا نجمی واقعی بڑا آدمی ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتا ہے…..انور عزیز کیا اپنے عہد کے بڑے بڑے لوگوں نے بابا جی کو ایسے ہی خراج تحسین پیش کیا…… جناب حبیب جالب نے کہا تھا “بابا نجمی کے کلام کی تقریظ لکھنا میرے لیے باعث عزت ہے….چھوٹی عمر میں ہی وہ بابوں والی باتیں کرتا یے…اس کی شاعری کو پہئیے لگے ہوئے ہیں….کیا پتہ وہ آنے والے وقت میں “بابائے پنجابی” ہی بن جائے”….جناب منیر نیازی بولے” بابانجمی وہ بندہ ہے جسے جوانی میں ہی “بزرگی” گئی اورجدید پنجابی شاعری کو ایک اور اچھا شاعر مل گیا….
احمد ندیم قاسمی نے کہا” بابا نجمی کروڑوں لوگوں کی آواز ہے”محترمہ افضل توصیف نے گواہی دی “بابا نجمی عمر نہیں عقل کے لحاظ سے بابا ہے ..وہ کوئی تک بند شاعر نہیں،ان کے پاس اصلی مال ہوتا ہے”
ویسے بابا نجمی اب 73سال کی عمر میں ” بابے “کی تعریف پر پورا اترتے ہیں مگر کیا کریں کہ اپنی چال ڈھال سے وہ اس “پیرانہ سالی “میں بھی بابے نہیں لگتے….بڑی سائنس لڑالیں تو انہیں زیادہ سے زیادہ” انرجیٹک بابا “کہا جا سکتا ہے کہ وہ اب بھی کسی” ینگ بوائے” کی طرح سمارٹ ہیں……اس عمر میں ،میں نے بزرگ دوست ایم پی اے مولانا غیاث الدین کے بعد انہیں “جوان” دیکھا ہے….دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ بہت کم کھاتے اور بہت زیادہ پیدل چلتے ہیں….ہو سکتا ہے کہ اندر کھاتے کوئی معجون بھی کھاتے ہوں لیکن بظاہر بڑھاپے میں ان کی جوانی کا راز “کم کھانا زیادہ چلنا”ہی نظر آتا ہے….. کچھ لوگوں کا خیال ہے شاعری کے لئے عشق وشق ضروری ہے لیکن بابا جی کے ساتھ ایسا کوئی “حادثہ “پیش نہیں آیا کیونکہ انہیں محبوبہ کی عمر میں بیوی مل گئی تھی ……بابا جی کی گھر والی انہیں “باقاعدہ” نہیں کبھی کبھار مذاق میں بابا کہہ لیتی ہیں… بابا جی کہتے ہیں کہ میں نے لاہور سے کراچی مزدوری کی ہے مجھے پتہ ہے مزدور کا پسینہ کیا ہوتا ہے…..میری شاعری جگ بیتی بھی ہے اور آپ بیتی بھی ….
بابا جی کی طرح ان کا کلام بھی بڑا ہی انرجیٹک ہے……ان کی تین کتابیں” میرا ناں انسان”….”سوچاں وچ جہان” “اکھراں وچ سمندر” اور “سرکا راما”پنجابی ادب کا حسن ہیں….ان کی شاعری کا لفظ لفط سماج کے دکھوں کی دہائی دیتا ہے……وہ کسی نہ کسی رنگ میں غریب کی ترجمانی کرتے ہیں :
کنج پلن گے بابا بال غریباں دے
کچی لسی ورگے حال غریباں دے
میرے کولوں لوکو ویکھے جاندے نہیں
پاٹے لیڑے ہاڑ سیال غریباں دے

مزدور کا دکھڑا یوں بیان کرتے ہیں:
دھرتی دامزدور نی مائے
خشیاں کولوں دور نی مائے
ایہدا مڑھکا جے نہ ڈلھے
ہون کدےنہ تتے چلھے
مڑھکا ایہدا نور نی مائے
دھرتی دا مزدور نی مائے

وہ ذات پات کے “مکروہ دھندے”کی نفی کرتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں:

اکو تیرا تیرا پیو
اکو تیری ماں
اکو ساڈی جمن بھوں
توں سردار میں کمی کیوں؟

وہ ایک ایسا شہر بسانے کا خواب دیکھتے ہیں جہاں سب ایک ہی درجے کے شہری اور ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی ہوں:
اک دوجے توں رنگ نسل نہ پچھن لوک
ایہو جیہا میں کتھے شہر وساواں

مٹی پانی سچا اکو پکیاں وی اک بھٹھے
ایہہ کیوں نالی وچ نیں لگیاں اوہ کیوں محل دے متھے

ایہو جیہا اک شہر وساواں جی کردا اےمیرا
ہائے دی واج وی جتھوںآوےساری دنیا نٹھے

بابا جی صرف اپنا پیٹ بھرنے کے قائل نہیں،بانٹ کر کھانے کی بات کرتے ہیں:

توں وی کل دا بھکا ایں
ادھی ادھی کر لئیے
گھٹ صبر دا بھر لئیے

معاشرے میں وبا کی طرح پھیلی جہیز کی لعنت پر لعنت بھیجتے ہوئے کہتے ہیں:

انج لگدا اے میری گڈو میرے ای بھانڈے مانجے گی
ایہنوں ٹورن لئی میں کتھوں ٹی وی کار دیاں
نویں رواجاں جیہڑا کیتا ہمسائے دی دھی دا حال
ویکھ کے میرا جی کردا اےاپنی لاڈو ماردیاں

من کے سچے بابا جی لفظ کی حرمت پر بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں:

پتھر نوں میں شیشہ کسراں لکھ دیواں
جوٹھے نوں میں سچا کسراں لکھ دیواں
پال رہیا واں مانج کے لوہا بالاں نوں
شاعری نوں میں پیشہ کسراں لکھ دیواں

بابا جی وطن سے محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں:
ایہہ دھرتی تے ماں اے ساڈی اسیں آں چار بھرا
اک دوجے وچ جان اے ساڈی اک دوجے وچ ساہ
اکو رب رسول اے ساڈا کلمہ لا الہ
اسیں آں بھرا چار

رہندی دنیا تیکر چمکے بابا چن تے تارا
ایہدا ذرہ ذرہ نجمی سانوں جان توں پیارا
اک مٹھ رکھیں سانوں ربا کدی نہ کریں جدا
اسیں آں چار بھرا

سیدہ نوشین نقوی پھر شکوہ کریں گی کہ ہم نے بابا نجمی کو بھی اسلام سے” لنک” کردیا مگر کیا کریں کہ میاں محمد بخش،بابا فرید اور بلھے شاہ سے لیکر اب تک ہمارے سارے بابے مدینے والی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے اور شہر مدینہ کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہیں …..
بابا نجمی کی قلبی کیفیت بھی دیکھ لیں :

کٹھی کر کستوری جگ دی پوچا پھیراں گلی گلی
اوہدی سونہہ میں ایناچاہواں اوہدے شہر مدینے نوں

قدم قدم تے دیوے بالاں خون جگر دا پاکے میں
ویکھاں سو سو نال ادانواں اوہدے شہر مدینے نوں

21فروری کو پنجابی دیہاڑ ہے….دل چاہا کہ ماں بولی کے حوالے سے بابا جی سے دل کی باتیں کریں….انہیں فون کیا تو وہ لاہور پریس کلب ہی آگئے…..چائے پر نشست میں ڈھیروں باتیں ہوئیں…انہوں نے بڑے پتے کی بات کہی کہ پنجابی نصاب میں شامل ہے نہ سرکاری سطح پر اس کو سرپرستی حاصل ہے، پھر بھی یہ خوب پھل پھول رہی ہے…. یہی مادری زبان کا اعجاز ہے…وہ پر امید ہیں کہ کتنے ہی جھکڑ چلیں پنجابی کا دیا جلتا رہے گا کہ مائیں مرکر نہیں مرتیں تو ماں بولی کو کون مار سکتا ہے….میں اعتراف کرتا ہوں کہ پنجابی نے مجھے دنیا بھر میں عزت اور شہرت دی….میں بھی مرتے دم تک ماں بولی کا علم لہراتا رہوں گا….
اچا کرکے میں جاواں گا جگ تےبول پنجابی دا
گھر گھر وج دا لوک سنن گےاک دن ڈھول پنجابی دا