نسل پرستی اور مغربی انتہا پسندی کا عفریت عالمی امن کے لئے خطرہقادر خان یوسف زئی کے قلم سے

انتہا پسندی و دہشت گردی کا تعلق مذہب یا کسی خصوصی قومیت کے ساتھ جوڑا نہیں دیا جاتا، لیکن ایک مخصوص ذہنیت کا استعمال کرکے مغرب میں اسلام فوبیا کا نازی ازم کی طرح پروپیگنڈا مرغوب مشغلہ بن چکا ہے۔ جھوٹ کو سچ کے مقابل فروغ دینے کی کوشش کا مکافات عمل اب خود مغربی ممالک حاوی ہوچکا ہے۔ مسلم ممالک، بالخصوص پاکستان و ترکی نے مارچ 2021میں اسلام فوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کا مطالبہ کیا ، پاکستان، ترکی ملائیشیا تو پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ اسلام فوبیا کے خلاف مارچ 2021میں سرکاری سطح پر آگاہی و غلط فہمیوں کے خاتمے سمیت مغرب کے انتہا پسندوں کی جانب سے اسلام مخالف سرگرمیوں کا عالمی دن منایاجائے گا۔ مذہب و نسل پرستی کے نام پر دنیا کے نصف سے زاید حصے میں انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ مغرب کو بھی اس اَمر کا ادراک ہے لیکن اپنی اَنا پرستی،تعلیم اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے زعم میں یہ تسلیم کرنے سے عار ی ہیں کہ ان کی جمہوریت میں صرف اپنی عوام کا نہیں بلکہ دیگر معاشرتی و مذہبی اکائیوں کا احترام و تحفظ بھی شامل ہے، جو ذمے داری یہ اپنے شہریوں کے لئے فرض سمجھتے ہیں، انہیں دوسری مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے بھی مساوی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔امریکی انتخابات کے بعد صدارتی امیدوار کے توثیقی عمل کے دوران کیپٹل ہل پر جس طرح نسل پرست حملہ آور ہوئے، اُس نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دیں کہ نسل پرست کا عفریت اب صرف زبانی کلامی نہیں رہا بلکہ ایک انتہا پسندی کی متشدد شکل میں ڈھل کر عالمی امن کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ امریکا کی سیکورٹی اداروں نے نسل پرست تنظیمیوں کے سینکڑوں اراکین کو گرفتار کیا اور اب اُن پر قانونی کاروائی کی جا رہی ہے، خود سابق صدر ٹرمپ کی خلاف امریکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی امریکی صدر کے خلاف دوسری بار مواخذہ کی تحریک لائی گئی ہو۔ فسطائیت کے چہرے کو مذہبی نقاب میں صرف اسلام مخالف کی صورت میں دیکھنے کی روش کومحدود کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی کی اصل جڑ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں کینیڈا نے ”پراؤڈ بوائز“ نامی دائیں بازو کے انتہا پسند گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ گروپ سیاسی تشدد میں ملوث رہا ہے۔یہان یہ امَر قابل غور ہے کہ پراؤڈ بوائز نامی دہشت گرد تنظیم کو ’معاشرے کے لئے سنگین اور بڑھتا ہوا خطرہ‘ قرار دیا گیا، 06جنوری کو واشنگٹن کے کیپٹل ہلز پر حملے میں اس تنظیم کا کردار اہم تسلیم کیا گیا ہے، مسلسل نگرانی کے بعد کینیڈا نے اس گروپ کو دہشت گرد قرار دیا، یہ صرف ایک مہینے کی بات نہیں کہ کیپٹل ہلز پر حملے ے بعد دہشت گرد تنظیم پراؤڈ بوائز کے خلاف کاروائی ہوئی ہو، یقینی طور پر یہ انتہا پسند گروپ جس منظم انداز میں آزادانہ سرگرم رہا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خصوصی مقاصد کے لئے تنظیم کی سرگرمیوں کو نظر انداز کیا گیا، اب جب کہ یہ امریکا، یورپ سمیت مغربی ممالک کے لئے درد ِ سر بن چکی ہے تو اس کے انتہا پسند نظریئے کے روک تھام کے لئے قانونی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بلیک لائیوز میٹر‘ جیسی تحریکوں کے خلاف پراؤڈ بوائز کو مدمقابل کیا جاتا اور پُر تشدد کاروائیوں کے علاوہ دھمکیاں دینا معمول کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ پراؤڈ بوائز گروپ کے چیئرمین اینرق ٹاریو نے گروپ کو دہشت گرد قرار دینے کو مضحکہ خیز بتایا اور کہا، ”اس کی تو کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ اظہار آزادی کے حق میں ایک طرح کی رکاوٹ ہے۔ کینیڈا کے تمام پراؤڈ بوائز نے صرف ریلیاں ہی تو کی ہیں۔”جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل گروپ Sturmbrigade 44 پر پابندی عائد کی۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا، جب گزشتہ برس اس گروپ کے ممبران کے خلاف متعدد چھاپے مارے گئے تھے۔جرمن پولیس کی طرف سے تین صوبوں میں Sturmbrigade 44 نامی انتہائی دائیں بازو کے خیالات کا پرچار کرنے والے گروپ کے ممبران کے خلاف کارروائی کی تھی۔جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی ’رائشس بُرگر تحریک‘ میں شامل لوگ مسلمان مخالف نظریات کی پیروی کرتے ہیں۔ جرمن حکام پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے طویل عرصے تک اس خطرے کو نظرانداز کیا۔ 2017 میں پہلی مرتبہ خفیہ ایجنسی نے اس تحریک کے خطرناک اراکین کی فہرست تیار کی۔ تب سے متعدد اراکین اور اس تحریک کے ذیلی کالعدم گروپوں کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس اور جرمن فوج میں بھی اس تحریک کے ممکنہ اراکین کی موجودگی کی چھان بین کی جا چکی ہے۔جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل نے مسلمانوں و تارکین وطن پر کئے جانے تشدد کو ‘جمہوریت پر حملہ‘ قرار دیا ہے۔ اس کونسل کے سیکرٹری جنرل عبدالصمد نے مطالبہ کیا ہے کہ جرمن عوام تارکین وطن اور مسلمانوں کے لیے ڈھال بنیں۔ اس کونسل نے اصرار کیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کو دائیں بازو کے شدت پسندوں اور انسانوں سے نفرت کرنے والوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جرمنی میں مسلمان برادری کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حملے درحقیقت جرمن اقتدار پر حملے تھے، اور چونکہ جرمنی بین الاقوامی سطح پر اپنی رواداری، عزت و احترام، انسانی وقار کی وجہ سے مشہور ہے، مگر اب یہاں حالات تبدیل ہو رہے ہیں، تو یہ ایک خطرناک پیش رفت ہے، جس کا تدارک کیا جانا چاہیے۔ انتہا پسندی کے بڑھتے رجحان میں یورپی پارلیمان بھی محفوظ نہیں رہی، یورپی یونین کے انتخابات کے بعد دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کے لیے عوامی حمایت میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا تھا اور ا اس کے بعد سیاسی جماعتوں نے پارلیمان میں اپنے انتہا پسندنئے حزب کی تشکیل نو بھی کر لی ہے۔فرانسیسی شہر اسٹراسبرگ میں یورپی پارلیمان کے اس نئے دھڑے نے خود کو اٹلی میں حکمران اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ‘لیگا‘ کی قیادت میں منظم کیا ہے اور اس میں مجموعی طور پر یونین کے رکن 28 میں سے نو ممالک سے تعلق رکھنے والی دائیں بازو کی قوم پسند، عوامیت پسند اور سخت گیر سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ پارلیمانی دھڑے میں شمالی یورپی ملک فن لینڈ کی سیاسی جماعت ‘فِنز پارٹی‘ بھی شامل ہے، جس کے سربراہ یُوسی ہالا آہو ہیں۔کرائسٹ چرچ میں ہونے والے حالیہ حملے سے قبل نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا دونوں نے کہا تھا کہ ان کی سکیورٹی کو اصل خطرہ اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی سے ہے۔ یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یوروپول نے 2017 میں دائیں بازو کے پانچ دہشت گردی کے منصوبوں کو ریکارڈ کیا، جو سب برطانیہ میں تھے۔ یہ پانچ حملے یورپین انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے ریکارڈ کردہ 205 ممکنہ یا کامیاب حملوں میں سے تھے، جن میں 137 ’علیحدگی پسند‘، 24 ’بائیں بازو‘ اور 33 ’جہادیوں‘ کے منصوبے بھی شامل تھے۔ دلی کی جواہر لال نہرویونیورسٹی (جے این یو) میں بھی ‘اسلامی دہشت گردی’ نام کا ایک نیا کورس شروع کرنے کی تجویز پر تنازع پیدا ہواتھا۔یورپ، امریکا کے علاوہ دیگر مغربی ممالک یا غیر مسلم اکثریتی ممالک میں انتہا پسندی کی لہر کو یک طرفہ نظریئے کے تحت دیکھنے کی روش نے خود مغرب کے لئے لامحدود خطرات کو جنم دے دیا ہے۔انتہا پسندی کو صرف کسی مخصوص ملک یا مذہب سے جوڑنا کنفوژن اور کشیدگی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔انتہا پسندی کی سوچ درحقیقت عقل سے عاری تصور کی جاتی ہے، فروعی مفادات کے تحت مسلم اکثریتی ممالک کو انتہا پسندی کا ذمے دار سمجھ کر کٹہرے میں کھڑے کرنے کی روش نے یورپ کے گرد بھی نسل پرستی و انتہا پسندی کا گھیرا تنگ کردیا ہے۔ عالمی برداری کو تحمل و برداشت سے سوچنا ہوگا کہ ان کے ترقی یافتہ ممالک میں آزادی اظہار رائے کے نام پر نئی نسل جس عفریت کا سامنا کررہی ہے، وہ مغرب کے باقی ماندہ اقدار کو بھی تباہ کررہا ہے۔ یورپی انتہا پسندتنظیموں میں واضح قدر مشترک ہے کہ دنیا بھر میں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، انتہا پسندسرگرمیوں کے لئے فنڈنگ کرتے ہیں، مسلسل حمایت کے لئے ذائع ابلاغ و انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں، ایسے انتہا پسندوں کو اپنے ہمدردوں و سہولت کاروں کی وجہ سے معاشی وسائل کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا۔ عالمی برداری کو بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب انتہا پسندی کے عفریت کو متفقہ لائحہ عمل کے تحت ختم کرنے کی ضرورت کو اپنانا ہوگا۔ اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی بھی مسلم اکثریتی ملک پر ڈال کر فروعی مفادات کے لئے ناجائز دباؤ ڈالنے کی روش کو ختم کرنا ہوگا۔ انتہا پسندی مذہبی نسل پرستی کے بڑھتے رجحان نے انسانی اقدار کو کھوکھلا اور دنیا کو جنگ زدہ کردیا ہے، اس سے جتنی جلد نجات حاصل کی جائے، اس قدر سنجیدگی ہی دنیا کے حق بہتر ہے۔کیونکہ مغرب کو مذہب سے زیادہ نسل پرستی سے شدید خطرات لاحق ہیں اور انہیں اپنے معاشرے کی انحطاط پزیری کے جواز میں نسل پرستی کو ایک قومی و عالمگیر عظیم خطرے کو طور سمجھنا چاہے۔