جام کا جنگل لسبیلہ

یہ بچپن کی بات ہے جب ہماری دادی اپنے میکے (گڈانی) سمندر کے کنارے آباد چھوٹے سے گاؤں (یعقوب گوٹھ) جایا کرتی تھیں۔ ان کے جانے پر میں اکثر یہ سنا کرتی تھی کہ دادی ’جنگل‘ گئی ہوئی ہیں۔ اس علاقے کو جنگل کے نام سے پکارا جاتا تھا اور آج بھی شاید جنگل ہی کہا جاتا ہے۔

فرق ہے تو صرف اتنا کہ پہلے حیرت ہوتی تھی کہ یہ کیسا جنگل ہے جہاں نہ شیر ہیں اور نہ ہی ہاتھی۔ نہ ہی کہیں سبزہ۔۔۔۔

ہم اسے خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی کہ ہمارے اسی ضلع سے تین وزیر اعلیٰ بشمول موجودہ جام کمال صاحب ان کے دادا محترم جام قادر اور والد جام یوسف حکومت میں رہے ہیں۔

2007 سے 2008 تک کے نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان صالح بھوتانی اور ان کے بھائی سابق ڈپٹی سپیکر بلوچستان اور موجودہ ممبر آف نیشنل اسمبلی اسلم بھوتانی بھی اسی ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔‘ سیاسی نظام اگر محض ذاتی مفادات کے لیے ہو تو شہر بھی آباد نہیں ہوتے اور وہاں ترقی ناممکن ہوتی ہے۔

غربت وہاں ہو جہاں قلات نے اپنے خزانوں میں کمی رکھی ہو تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر ہم صبر بھی کر لیں لیکن ایسے خزانوں کو دیکھ کر کے صبر آئے جہاں ٹھاٹھے مارتا ہوا وسائل سے بھرپور ساحل سمندر ساکران اور لسبیلہ کے دیگر علاقوں کے سرسبز اور لہلہاتے ہوئے کھلیان جہاں گندم سے لے کر مختلف اقسام کے پھل، پھول پیداوار ہوتی ہو، کئی ملین ٹن کی معدنیات کے ذخائر جن میں مختلف کمپنیاں مائننگ کر رہی ہو، پاکستان کے سب سے زیادہ لائیو سٹاک پیدا کرنے والے صوبے کا ڈیری فارمنگ اور مویشی بانی کی صفت کے لیے آئیڈیل ڈسٹرکٹ، سمندری حیاتیات فشریز کی مد میں حکومت پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ جہاں کی مچھلیاں ایران کے ساحلی علاقوں میں فروخت کر کے ایران کے ایکسپورٹ میں اضافے کا باعث بنتی ہوں۔ صنعتوں کی بات کریں تو بلوچستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر حب جہاں حب کو پاور، اٹک سیمنٹ، ناٹیو پیٹرولیم اور نجانے کون کون سی صنعتیں اسی شہر میں موجود ہوں جہاں ماربل سٹی نامی ایک ایسی انڈسٹری ہو کہ جس سے بلوچستان کا 90 فیصد ماربل ایکسپورٹ ہوتا ہو جو کہ بلوچستان کے70 فیصد ریونیو کا حصہ ہو، ظاہر سی بات ہے جس ڈسٹرکٹ میں اتنی بڑی تعداد میں انڈسٹریز ہوں کیا وہ صوبہ یا ڈسٹرکٹ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ اس قدر نہیں دیتا ہوگا؟

غربت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا اس وقت مختلف مسائل سے نبردآزما ہے جس میں سرفہرست انسانی بیماریاں، صحت، غربت، بیروزگار، پینے کا صاف پانی، تعلیم کی کمی، ماحولیاتی تبدیلی اور دہشت گردی شامل ہیں۔ اگر ان تمام مسائل پر نظر ڈالی جائے تو غربت ان تمام مسائل کی اہم وجہ ہے۔

بلوچستان پاکستان کے وسائل اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور اہم ترین صوبہ ہے مگر افسوس یہی صوبہ پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے ڈسٹرکٹ لسبیلہ کی صوبائی حکومت سے دو اور قومی اسمبلی ایک نشست ہونے کے باوجود یہ ڈسٹرکٹ اپنے مسائل کے حل کے اعتبار سے اب تک بدحالی کا شکار ہے۔

الجزیرہ ٹی وی میں پچھلے دنوں کی نشریات میں دکھایا جا رہا تھا کہ کس طرح افریقہ کے اکثر شہروں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی پائپ لائنوں کے ذریعے دستیاب نہیں ہے۔ کچھ یہی حال بلوچستان کے لسبیلہ ڈسٹرکٹ کا ہے چونکہ عوام کے لیے پائپ لائن کے ذریعے پینے کے پانی کی مناسب سہولت موجود ہی نہیں لہٰذا ندی نالوں اور کنوئیں کے ٹھہرے ہوئے پانی کے استعمال سے یہاں رہنے والوں میں پیٹ کے امراض عام ہیں۔ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال ہو یا جام غلام قادر ہسپتال یاد رہے موجودہ وزیراعلیٰ کے دادا کے نام پر قائم ہسپتال میں بنیادی صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اچھی صحت ہر انسان کا ایک بنیادی حق ہے اور صحت مند افراد معاشرے کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز ہے۔ بلوچستان کوجغرافیائی اعتبار سے جانتے ہیں وہ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ ایک سے دوسرے قصبے کے درمیان ایک طویل فاصلہ ہوتا ہے۔ حب سٹی یا اوتھل ہیڈکوارٹرز میں صحت کی بنیادی سہولت موجود نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو کراچی کا سفر کرنا پڑتا ہے جو کہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ یہ اور مشکل اس وقت ہوجاتا ہے جب ہماری جیب بھی خالی ہو۔

مضحکہ خیز عمل دیکھیں جہاں آپ اپنے قائم کردہ ہسپتالوں کی صورت حال درست نہیں کر سکتے وہاں صوبائی حکومت کچھ ایسے اقدامات اٹھاتے ہوئے بجٹ2020-21 میں ایئر ایمبولینس نام کی اوٹ پٹانگ سکیم کا اعلان کرتی ہے یعنی اس صوبے میں اگر کوئی بھی مریض ہو تو اس کا علاج اس کے اپنے شہر میں کرنے کی بجائے بڑے شہر پہنچایا جائے۔ مطلب یہ کہ آپ ارادہ کرچکے ہو کہ صحت آپ کی دہلیز پر میسر نہیں کی جائے گی۔

بہرحال بلوچستان ہائی کورٹ نے بروقت اقدام لیتے ہوئے نہ صرف اس کی خریداری رکوائی بلکہ اس کے ساتھ ہی حکومت سے وہ لسٹ بھی طلب کی کہ وہ کون سے بااثر افراد ہیں جو کہ اس ایمبولینس سے استعفادہ اٹھاتے آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب سیاست میں وراثتی نظام مضبوط ہو جائے تو عوام بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر ہوجاتی ہے۔ اس کا کھلا مظاہرہ لسبیلہ کے الیکشن 2018 کے دوران دیکھنے کو ملا جب وہاں واضح طور پر وال چاکنگ کی گئی کہ ’جو بابا کا غدار ہے، وہ گولی کا حق دار ہے۔‘

بلوچستان پاکستان کا کرپٹ ترین صوبہ بھی مانا جاتا ہے۔ جس صوبے میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی قوم پرست پڑھی لکھی جماعت کے دور میں خرانے پانی کی ٹینکوں اور بیکریوں سے برآمد ہوں گے اور آج بھی وہ وزیر موصوف ڈیفنس (کراچی) کی سڑکوں میں پلی بارگین جیسے قانون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کروڑوں کی گاڑیوں میں سیر کر رہے ہوں تو احتساب کا جنازہ اور بھی دھوم سے نکلتا ہے۔

وہ صوبہ جہاں بنیادی سہولتیں موجود نہیں جہاں تقریباً 7 فیصد سے زائد افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزاررہے ہوں جہاںPBC کے سروے رپورٹ کے مطابق 45 فیصد سے زیادہ آبادی غیرتعلیم یافتہ ہو جہاں کے وزیراعلیٰ تین نسلوں سے وزارت کی کرسی پر براجمان ہونے کے باوجود اپنے ڈسٹرکٹ جو کہ مسائل کا انبار ہے، جہاں تعلیمی نظام بری طرح سے مفلوج ہوگھوسٹ ٹیچر کی بھرمار اور سکول اور کالج کی عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہو وہاں کچھ نہ کرسکیں تو وہاں کی عوام کی امیدیں دم توڑتی جاتی ہیں۔

بلوچستان سی پیک کا جھومر ہے اور لسبیلہ اس جھومر کی رسائی تک کا راستہ ہے اگر مقامی افراد کو اس کے فوائد حاصل نہ ہوں اور یہ علاقہ اسی طرح صوبائی اور وفاقی حکومت کی عدم توجہی کا شکار رہے تو ترقی کے امکانات ماند پڑجائیں گے۔

قومیں ہیومن ریسورس سے ہی بنتی ہیں اور وہاں کے وسائل وہاں کے رہنے والے شہریوں پر خرچ نہ کئے گئے تو امن وامان قائم رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔

لسبیلہ کی سیاسی تاریخ دو خاندانوں کے گردگھومتی ہے چونکہ پیپلز پارٹی اور بی این پی (مینگل) جیسی اہم پارٹیاں اس علاقے کو اپنا ووٹ بینک نہیں سمجھتیں لہٰذا سیاسی جماعتوں اور دیگر مذہبی جماعتوں نے یہ میدان ان دوخاندانوں کے لیے کھلاچھوڑا ہوا ہے۔

اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو لسبیلہ صرف بیلہ (لغوی معنیٰ جنگل) بن کر رہ جائے گا
——————

تانیہ بلوچ

https://www.independenturdu.com/node/59806