پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل اور سپریم کورٹ کے سو موٹو نوٹس کے بعد عملی اقدامات کی صورتحال

دنیا بھر میں آبادی کی شرح پر قابو پانے کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے اور علاقائی تنظیمیں دیگر ملکوں کی طرح پاکستان سے بھی تو قع رکھتے ہیں کہ یہاں پر آبادی میں اضافے کی رفتار پر قابو پانے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں ۔پاکستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس محترم ثاقب نثار نے اس حوالے سے سوموٹو ایکشن لینے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ایک تفصیلی رپورٹ منگوائی تھی اور اس فورس نے صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد آٹھ بڑی تجاویز اور سفارشات اپنی رپورٹ میں مرتب کی تھی اگر ان سفارشات پر سنجیدگی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو صورت حال میں نمایاں بہتری آسکتی ہے
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے معاملات میں تیزی اور بہتری لانے کے لئے نیشنل اور پروفیسر ڈاکٹر فورسز بنانے کی ہدایت کی گئی تھی جن کا بنیادی کام یہی ہے کہ وہ آبادی کی رفتار میں کمی لانے کے لیے اقدامات کریں فیصلے کرنے کے بعد ان پر عمل درآمد کی نگرانی کریں اور آبادی میں کمی لانے کے لئے کنٹرا سیپٹو پری ویلینس ریٹ Contraseptive prevalence rate (CPR) ریٹ میں اضافہ کے لیے کوششیں کریں ۔
ان سفارشات میں دوسری اہم بات یہ کی گئی تھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فیملی پلاننگ اور ری پروڈکٹو ہیلتھ سروسز کیلئے یونیورسل ایکسیس یقینی ہو ۔
اس کے علاوہ مالی وسائل کی فراہمی اور مطلوبہ قانون سازی کرنا ۔ایڈوکیسی اور کمیونیکیشن کو بڑھانا ۔نصاب اور ٹریننگ پر توجہ دینا ۔کنٹراسیپٹو کموڈیٹی سیکیورٹی اتوجہ دی جائے اور اس کے علاوہ علماء کا تعاون حاصل کیا جائے ۔
یہ وہ ٹھوس اور بڑی بڑی تجاویز اور سفارشات تھیں جن پر صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں کو کام کرنا تھا اور آنے والے دنوں میں مزید کام کرنا ہے

سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں حکومت پاکستان کی جانب سے منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کا انتہائی اہم کردار بنتا ہے اس کے علاوہ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کو ہم ذمہ داری سونپی گئی ۔دسمبر 2018 میں نیشنل سمپوزیم ان الارمنگ پاپولیشن گروتھ ان پاکستان کے عنوان سے کال فار ایکشن دیکھنے میں آئی اور ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی گئی قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیا گیا بچے کو دو سال تک ماں کا دودھ پلانے کی بات بھی کی گئی اس طرح بچوں کی پیدائش میں وقفہ خودبخود نظر آنے لگتا ہے ۔
اس رپورٹ میں وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے پیغامات بھی شامل کیے گئے تھے اور ان کی روشنی میں ہی ٹاسک فورس کی سفارشات کو آگے بڑھایا گیا تھا ۔اس کے علاوہ یو این ایف پی اے کی جانب سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کینم کا پیغام بھی شامل کیا گیا تھا ۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ نیا پاکستان کا ویژن اور مستقبل میں پاکستان کے اہداف کو حاصل کرنے اور پاکستان کو آگے بڑھانے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم آبادی میں اضافے کی شرح کے معاملے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دیں صحت کے معیار کو بہتر بنائیں اور ملکی ترقی کے لیے صحت مند معاشرہ تشکیل دیں آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے میکرو اور مائیکرو لیول پر ڈویلپمنٹ منصوبوں کو زبردست چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خدمات کی فراہمی بھی ایک چیلنج بن جاتا ہے انفراسٹریکچر ہو ملازمتوں کی فراہمی ہو صحت اور تعلیم کی سہولتیں ہو ہاؤسنگ کا شعبہ ہو ٹرانسپورٹیشن ہو یا فوڈسیکیورٹی ۔ہر جگہ نئے چیلنجز اٹھاتے ہیں ۔


یہ بات توجہ طلب ہے کہ ملک میں ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یہ دو ہزار پندرہ اور سولہ کی رپورٹ ہے اور یقینی طور پر ملک میں غربت بڑھ رہی ہے غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے آبادی میں اضافے کا براہِ راست تعلق تعلیم اور شرح خواندگی سے بھی ہے زیادہ آبادی کو پڑھانے کے لیے زیادہ وسائل اور اقدامات درکار ہوتے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی 60 فیصد آبادی کو فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے عدم تحفظ کا سامنا ہے ۔تقریبا پچاس فیصد خواتین اور بچوں کو جسمانی ضرورت سے کم خوراک ملتی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے بچوں کی ذہنی نشونما میں بری طرح متاثر ہوتی ہے بیماریاں جنم لیتی ہیں اسپتالوں پر دباؤ بڑھتا ہے ۔لہذا نیشنل سمپوزیم کا انعقاد اس حوالے سے بالکل درست وقت پر درست سمت کا تعین کرنے کے لئے ہوا ہے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے بھرپور لگن اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا پاکستان کو مستحکم اور خوشحال بنانا ہے تو اس اہم مسئلے پر توجہ دینی ہوگی ۔
اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے اس بات پر زور دیا تھا کہ آج جو اعداد و شمار بتائے جا رہے ہیں اس کے مطابق اگلے تیس برسوں میں پاکستان کی آبادی کم ہو جائے گی اگر ہم نے وسائل بڑھانے پر توجہ نہ دی گئی تو ہمارے لئے خوراک کم پڑے گی پانی پینے کے لیے میسر نہیں ہوگا اسپتال اسکول کام پر جائیں گے اور میری زندگی مزید نیچے آئے گا لہذا اس جانب سے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

پس منظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی بیس کروڑ ستر لاکھ کی آبادی نے انیس سو اٹھانوے سے لے کر دو ہزار سترہ کے عرصے کے دوران ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے بہت سے ملکوں بالخصوص اسلامی ملکوں کے مقابلے میں اپنی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ کیا ہے پاکستان میں آبادی بڑھنے کی رفتار 2.4 فیصد رہی سالانہ ۔یہی رفتار رہی تو 2030 تک پاکستان کی آبادی 28 کروڑ 50 لاکھ سے تجاوز کر گئی اور اگلے تیس برسوں میں ہماری آبادی ڈبل ہو جائے گی ۔ایشیائی ملکوں میں آبادی ڈبل ہونے کے لیے ساٹھ سال رکھتے ہیں لیکن پاکستان کی آبادی صرف تیس برس میں ڈبل ہو جائے گی ۔


پاکستان میں ایک ماں سے بچے پیدا کرنے کی شرح بھی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔پاکستان میں ایک خاتون 3.6 اوسط بچے پیدا کرتی ہے ۔سعودی عرب میں یہ شرح2.4% فیصد ہے ۔

ؐ( جاری ہے )
———————-