کتنی نادیدہ تمناؤں کی حسرت لیکر چاند ہر روز اندھیروں سے گزر جاتا ہے


یادوں کے جھروکوں سے

(20)

فرض کی پکار “وہاڑی” میں

(حصہ اوّل)

عابد حسین قریشی

کتنی نادیدہ تمناؤں کی حسرت لیکر
چاند ہر روز اندھیروں سے گزر جاتا ہے

فارسی کی زبان کی ایک کہاوت ہے “چو استادہ ای، دست افتادہ گیر”
As long as you are standing give a hand to those who have fallen.

جتنا عرصہ ملازمت میں رہے اس اُصول کو پوری طرح اپنایا اور نبھایا۔ بطور انسان لا تعداد خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود عظمت انسانی کی لاج رکھنے، انسان کی عزت و توقیر کو حالت نشاط ہو یا کسل مندی کی کیفیت، ہر حال میں ملحوظ اور عزیز از جان رکھا۔ اب تو یہ جوانی بڑھاپے کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ اس مرحلہ پر دھیرے دھیرے ہاتھ پاؤں سے خارا شگافی کی قوّت اور دل میں شیر افگنی کے ولولے ماند پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تاہم پیار ومحبت، احسان و مروّت اور اُنس و شفقت کی بے تابیاں اور سرمستیاں برقرار رہتی ہیں۔ لہٰذا محبت کے بادۂ گلفام کے جام نوش کرنے کے لیے قلب و نظر کو ہمیشہ مضطرب پایا۔ انسانی اخلاق و کردار کی معراج عاجزی و انکساری، عفوودرگزر، احسان و قربانی، وسیع القبی اور تسامح میں مضمر ہے۔ اور یہی دلوں کے قرار اور تسکین و طمانیت کا باعث ہے۔

پاکپتن شریف میں شب و روز نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ گزر رہے تھے کہ یہاں ہمارے لیے سب سے بڑی کشش بابا فرید گنج شکرؒ کا مزار پُر انوار تھا۔ جہاں دن میں ایک بار چکر ضرور لگ جاتا۔ اور کچھ وقت دنیاوی جھمیلوں سے آزاد ہو کر محویت و استغراق میں بھی گزر جاتا۔

یکم نومبر 2013 کو صبح آٹھ بجے جب برادر محترم سردار احمد نعیم موجودہ جسٹس جو اُس وقت رجسٹرار عدالت عالیہ لاہور تھے کا مجھے فون آیا اور اُنہوں نے فرمایا کہ کل رات کی وہاڑی کی صورتحال آپکے علم میں آ گئی ہو گی۔ میں نے رات ٹیلی ویژن پر کچھ خبریں وہاں کی دیکھی تھیں۔ فوراً عرض کی کہ مجھ سے ٹل جانا میں تو مظفر گڑھ سے ابھی گھر کے کچھ قریب آیا ہوں۔ جواباً سردار احمد نعیم صاحب نے اپنے مخصوص دھیمے اور مشفقانہ انداز میں کہا کہ وہاڑی میں گذشتہ رات کے واقعات پر غور و فکر کے لیے جناب عزت مآب چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے آج ہائی کورٹ کا باقاعدہ کام شروع کرنے سے قبل سینئر ججز سے مشاورت کی ہے اور سبھی نے آپ کے نام پر اتفاق کیا کہ عابد قریشی کو وہاڑی بھجوا دیں۔ صورتحال کنٹرول کر لے گا۔ ویسے چیف جسٹس صاحب نے فرمایا ہے کہ عابد قریشی کی consent لے لو کہ وہ ڈسٹرب ہو رہا ہے۔ میں نے عرض کی کہ اگر چیف صاحب کی اور دیگر فاضل سینئر جج صاحبان کی یہ رائے ہے تو یہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ آپ میرا ویسے بھی ٹرانسفر کر سکتے تھے۔ پوچھ کر آپ نے میری عزت افزائی کی ہے۔ لہٰذا میں تیار ہوں۔ لہٰذا اُسی روز ٹرانسفر آرڈر جاری ہو گیا اور مسافر اگلے روز چارج چھوڑ کر پاکپتن بار کا ایک نہایت پُر وقار الوداعی ظہرانہ اور پھر اُسی رات کو ڈسٹرکٹ جوڈیشری پاکپتن کی طرف سے ایک خوبصورت اور دلکش عشائیہ لے کر عازم وہاڑی ہوا۔

وہاڑی میں کیا ہوا۔ کیوں ہوا۔ کون کون ذمّہ دار تھے۔ کسی پر تنقید، نکتہ چینی مطلوب نہ ہے۔ لہٰذا اس سے بچنے کی کوشش اور اغماض برتتے ہوئے صرف ضروری حقائق بیان کرنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ تاہم وہاڑی پہنچنے پر جو حقائق میرے علم میں آئے۔ اُنکے مطابق میلسی کے کسی جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے کوئی فوجداری اخراج مقدمہ کی مثل گم ہو گئی۔ مجسٹریٹ کےحکم پر زیر دفعہ 380 ت۔پ مقدمہ کے اندراج کے بعد مقامی پولیس نے اس اہلمد کو گرفتار کر لیا۔ وہ تقریباً سات آٹھ روز تک جسمانی ریمانڈ پر رہا۔ اس دوران مبیّنہ طور پر اُسکے پیٹ میں تکلیف ہوئی۔ تفتیشی پولیس افسر نے اُس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ جب اہلمد کی حالت زیادہ بگڑی اور عیاں ہوا کہ غالباً اُسکی اپینڈکس پھٹ گئی ہے۔ تو اُسے نیم مردہ حالت میں ملتان نشتر ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہ وہاں دم توڑ گیا۔ کچھ اہلکاران قبل ازیں اپنے تبادلوں کی وجہ سے بھی نالاں اور دل برداشتہ تھے۔ اُنہوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور صورتحال کو exploit کرنے کے لیے متوفی اہلمد کی لاش میلسی سےسیشن ہاؤس وہاڑی جو ایک پُر رونق لڈن روڈ پر واقع ہے وہاں لا کر رکھ دی اور مطالبہ کیا کہ اسکا پوسٹ مارٹم ملتان نشتر ہسپتال سے کرایا جائے۔ وہاں ضلع میں تقریباً تین ساڑھے تین سو عدالتی اہلکار تھے۔ کچھ ایپکا اور دیگر محکموں کے لوگ بھی اس احتجاج میں شریک ہو گئے۔ اولاً معاملہ کو اتنا سیریس نہ لیا گیا۔ لہٰذا معاملہ سیشن ہاؤس کے گیٹ پر پتھراؤ کی صورت میں خراب ہونا شروع ہوا۔ انتظامیہ اور پولیس حرکت میں آئی۔ اور اہلکاروں کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے احتجاج ختم کرایا۔ مگر یہ سب کچھ میڈیا کی زینت بن چکا تھا اور جو نقصان ادارہ اور شخصیات کو ہونا تھا وہ پہنچ چکا تھا۔ اگلی صبح پھر اس سے ملتا جلتا احتجاج سیشن کورٹ میں بھی ہوا۔ لہٰذا اس تناظر میں ہمارا تبادلہ وہاڑی عمل میں آ گیا۔

وہاڑی پہنچنے پر چارج وغیرہ لینے کے بعد سب سے پہلے اپنے رفقاء کار جج صاحبان سے غیر رسمی ملاقات کی۔ اُنکا مورال کافی گرا ہوا تھا کہ دو روز تک اہلکاروں نے عدالتوں کے تالے ہی نہ کھولے۔ نہ ہی وہ کوئی حکم مان رہے تھے۔ عدالتی کام بالکل ٹھپ ہو چکا تھا۔ پھر اُسی روز بار کے عہدے داران اور چند سینئر وکلاء سے ملاقات کی۔ وہاڑی بار کو میں نے اس بحرانی کیفیت میں عدلیہ کے ادارہ کا طرف دار پایا۔ اور اُنہوں نے اس موقع پر اس آگ کو بجھانے اور ٹھنڈا کرنے میں بڑا فعال اور مثبت رول ادا کیا۔ اسی دوران بڑے ہی سلجھے ہوئے اور دھیمے مزاج کے ڈی۔پی۔او وہاڑی صادق علی ڈوگر تشریف لے آئے۔ رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے جیب سے ایک درخواست نکال کر میرے سامنے رکھ دی کہ اس میں سیشن جج اور دو مجسٹریٹ صاحبان کے خلاف مقدمہ قتل میں زیر دفعہ 109 ملوّث کرنے کی استدعا متوفی اہلکار کے وارثان کی طرف سے پیش کردہ تھی۔ میں نے درخواست پڑھنے کے بعد اُسے واپس ڈی۔پی۔او صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ ابھی کسی جج کے خلاف پرچہ نہیں ہو گا۔ میں نے آتے ہی اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا حکم کر دیا ہے تاکہ متوفی اہلکار کی پولیس حراست میں موت کی وجہ کا تعین کیا جا سکے۔ لہٰذا جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ کی روشنی میں مزید قانونی کاروائی ضرور ہو گی۔ اُسی روز ضلع بھر کے تمام اہلکاروں کو قریبی ضلع کونسل ہال میں اکٹھا کیا گیا۔ میرے تقاضا پر کہ کوئی ایک اہلکار اُٹھ کر سارے حالات و واقعات پر روشنی ڈالے۔ ایک سٹینوگرافر مائیک پر آئے اور سرائیکی زبان میں اس اندوہناک واقعہ کا ایسا منظر اور نقشہ کھینچا کہ میرے سمیت سبھی حاضرین محفل کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ بہرحال جب میری باری آئی تو عرض کی عدلیہ کی تاریخ کا ایک افسوس ناک واقع ہوا ہے۔ ظاہر ہے ایک اہلکار کی موت پولیس حراست میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اور پھر اس پر عدالتی عملہ کا پُر تشددّ احتجاج نظام عدل کی چولیں ہلانے کے لیے کافی تھا۔ میں نے عرض کی کہ اس واقعہ میں ملوّث سارے اہل کاروں کے لیے عام معافی کا اعلان ہے۔ جو اہلکار اپنے گھروں سے دور تبدیل ہوئے ہیں۔ اُنکے تبادلے آئیندہ تین روز میں واپس۔ اُنکے گھروں کے قریب کروں گا۔ اس اعلان پر ہال میں موجود احتجاجی عملہ نے اپنے بازوؤں سے کالی پٹیاں اُتارنا شروع کر دیں۔ لوہا گرم دیکھ کر میں نے اعلان کیا کہ میں کل متوفی اہلکار کے گھر میلسی میں تعزّیت کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ مگر خالی ہاتھ نہیں۔ لہٰذا میں نے خود پہل کرتے ہوئے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور پھر اس ہال میں تقریباً سبھی نے اُس میں حصّہ ڈالا۔ میرے ساتھ اس وقت بڑے اچھے اخلاق و کردار کے حامل ملک لیاقت لنگڑیال ASJ Iاور بڑے شریف النفس ملک احمد نواز سینئر سول جج بھی ہال میں میرے ساتھ موجود تھے۔ اسطرح صرف چند منٹوں میں تقریباً اڑھائی لاکھ روپے کی رقم اکٹھی ہو گئی۔

اگلے روز میلسی کے چند جج صاحبان جن میں بڑے زیرک اور معاملہ فہم ملک خضر حیات ASJ، صدر بار میلسی باوقار اور متحمل مزاج چوہدری محمّد معظم اور میلسی سے ہی نہایت ہر دلعزیز وکلاء لیڈر ممبر پنجاب بار کونسل زاہد کھچی کو ہمراہ لیکر متوفی کے گھر فاتحہ خوانی اور پُرسہ کے لیے حاضر ہوئے۔ جمع شدہ رقم بیوہ کے حوالہ کرنے کے بعد اُس سے پوچھا کہ کیا وہ میٹرک پاس ہے تو اُسے آج ہی زیر دفعہ 17A سول سرونٹس ایکٹ جونئیر کلرک بھرتی کر لیتا ہوں۔ متوفی کی بیوہ کے انکشاف پر کہ وہ پرائمری تک تعلیم یافتہ ہے وہیں درخواست لیکر اُسے نائب قاصد بھرتی کیا۔ موقع پر موجود تحصیل ناظم اور کچھ دیگر مقامی لوگوں نے متوفی اہلکار کے ایک بھائی کو بھرتی کرنے کا مطالبہ کیا۔ اُنہیں بتایا کہ کل ڈی۔پی۔او وہاڑی بھی تعزیت کے لیے آئیں گے۔ مالی امداد بھی کریں گے اور اسکے بھائی کی نوکری کے لیے بھی تگ و دو کریں گے۔ وہاں بیٹھے محسوس کیا کہ ہمارے یہاں آنے اور لواحقین سے عملی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے بعد صورتحال کافی بہتر ہو گئی ہے اور درجہ حرات کافی defuse ہو رہا ہے۔ یہاں ایک بات کرنا ضروری ہے کہ وہاڑی چارج لینے کے بعد سب سے اہم اور ضروری معاملہ میلسی میں تعینات دونوں جوڈیشل مجسٹریت صاحبان جن میں سے ایک نے پرچہ درج کرایاتھا اور دوسرے نے اہلکار کا جسمانی ریمانڈ دیا تھا کی حفاظت اور سیکورٹی کا تھا۔ شہر میں فضا اتنی کشیدہ تھی کہ ایک روز شہر میں مکمل ہرٹال بھی رہی اور خدشہ تھا کہ کوئی شر پسند موقع سے فائدہ اُٹھا کر ہماری عدالتوں کی طرف احتجاج کا رُخ نہ موڑ دے۔ لہٰذا فوری طور پر رجسٹرار صاحب سے اُن دونوں مجسٹریٹ صاحبان کے کسی مناسب مقام پر تبادلے کی استدعا کی جو فوری طور پر منظور کر لی گئی۔

وہاڑی واپسی کے اگلے روز وہاڑی بار میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بار ممبران نے کھڑے ہو کر کافی گرمجوشی سے دیر تک تالیاں بجا کر ہمارا استقبال کیا۔ اُن دنوں وہاڑی بار کی صدارت بڑے وضع دار، خلیق، نرم گفتار اور پروفیشنل وکیل اور عمدہ شاعر سیّد ندیم رضا بخاری کے پاس تھی۔ اُنہوں نے اپنے روایتی رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا اتنا خوبصورت تعارف کرایا اور پھر بار کی طرف سے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی۔ ہم نے بار ممبران کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس بحران میں عدلیہ کے ادارہ کی عزت و توقیر کے لیے کام کیا۔ سیّد ندیم رضا بخاری کے بعد منتخب ہونے والے ایک نوجوان متحرّک فوجداری قانون کے ماہر اور ایک عمدہ انسان مہر شیر بہادر لک اور ان کے ساتھ ایک جوان و رعنا اور وضع دار جنرل سیکرٹری شہزاد انور نے بھی بار اور بنچ کے تعلقات کو خوش گوار رکھنے میں بڑا مثبت کردار ادا کیا۔

وہاڑی میں تعیناتی کے تین چار روز بعد ملتان بنچ جانے کا اتفاق ہوا۔ بڑے ہی پیارے اور ہمدرد و غمگسار خورشید انور رضوی اُن دنوں ایڈیشنل رجسٹرار ملتان بنچ تھے۔ اُنکی وساطت سے بنچ پر موجود سینئر جج جناب جسٹس منصور علی شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ یہ میری اُن سے بالمشافہ پہلی ملاقات تھی اور بقول شاعر پہلی ملاقات میں ہی۔

ایک شخص یوں میرے دل میں اُتر گیا
جیسے وہ جانتا ہو میرے دل کے راستے

جناب جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے فرمایا کہ عابد آپ مجھے وہاڑی میں ہونے والے واقعات کی تفصیل معہ جو اقدامات تم نے اٹھائے مرحلہ وار بتاتے جاؤ۔ میں تقریباً دس پندرہ منٹ بولتا رہا۔ جناب شاہ صاحب ہمہ تن گوش رہے۔ آخر میں فرمایا کہ عابد تم نے crisis management میں کوئی کورس کیا ہے۔ عرض کی سر میں دیہاتی آدمی ہوں یہ سب کچھ street wisdom کے زمرہ میں آتا ہے اور یہ باتیں عملی زندگی میں آنے سے پہلے ہی سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ جسٹس شاہ صاحب مسکرا دیے اور خورشید رضوی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ رضوی یہ عابد پہلے کہاں تھا۔ ہماری نظر اس پر نہیں پڑی۔ رضوی صاحب نے کمال کا فقرہ کہا کہ “سر میں نے اُسی روز آپکو بتا دیا تھا کہ اگر ایک سیشن جج پنجاب سے اس بحران کو کنٹرول کرنے کے لیے یہاں لگایا جائے تو وہ عابد قریشی ہو گا۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے۔ اُسکی بے پایاں مہربانیاں اور نوازشات ہیں۔ صرف شکر بقیہ زندگی ادا کرتا رہوں تو پھر بھی مالک کائنات کی نعمتوں اور مہربانیوں کا حق ادا نہ ہو گا۔ (جاری ہے)